اُردُو

بی بی سی کی دستاویزی فلم میں مودی پر 2002 کے مسلم مخالف گجرات قتل عام کا الزام لگایا گیا ہے۔

یہ انگریزی میں شائع ہونے والے 20 جنوری 2023 کے 'BBC documentary indicts Modi for 2002 anti-Muslim Gujarat pogrom'اس آرٹیکل کا ترجمہ ہے۔

بھارت کی نریندر مودی کی زیر قیادت ہندو سپرمسٹ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے جس میں 2002 کے گجرات میں مسلم مخالف قتل عام کو سہولت فراہم کرنے اور اس کی نگرانی کرنے میں موجودہ وزیر اعظم کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد جس نے مغربی ہندوستان کی ریاست گجرات کو 28 فروری سے 2 مارچ 2002 تک تین دن تک اپنی لپیٹ میں لے لیا، سرکاری طور پر 1,044 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 790 کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ حقیقی ہلاکتوں کی تعداد 2 ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ  لاکھوں غریب مسلمانوں کو انتقامی دستوں کے ہجوم کے بعد بے گھر کر دیا گیا جن میں سے کچھ کی قیادت معروف بی جے پی  کے    سیاست دانوں نے کی  کچھ کی قیادت بی جے پی سے قریبی تعلق رکھنے والے ہندو فرقہ پرست گروہوں کے رہنماؤں نے کی۔

2001 سے لے کر 2014 میں وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے تک گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی نے فروری-مارچ 2002 کے قتل عام کو بھڑکانے اور اسے فعال کرنے میں جو کردار ادا کیا تھا وہ طویل عرصے سے مشہور ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی [فوٹو: نریندر مودی فیس بک پیج] [Photo: Narendra Modi Facebook page]

ہندوستان کی اس وقت کی بی جے پی کی زیرقیادت قومی حکومت کے ذریعہ مودی نے مسلم مخالف تشدد کو ہوا دیتے ہوئے  پاکستان کے ساتھ جنگی بحران کے حالات پیدا کئے اس نے سب سے پہلے 28 فروری کو گودھرا میں ٹرین میں آگ لگنے کا فوری طور پر الزام مسلمانوں پر  لگا کر کیا جس میں 59 ہندو بنیاد پرست سرگرم کارکن ہلاک ہو گئے تھے اور اس طریقے سے اس نے مؤثر طور پر گجرات کی مسلم اقلیت کو اجتماعی طور پر ذمہ دار قرار دیا تھا۔ پھر ہندو فرقہ پرست گروپوں کی طرف سے ریاست گیر عام ہڑتال کی کالوں کی حمایت کی۔  جیسا کہ ریاست کی حمایت یافتہ فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے پیش نظر توقع کی جا سکتی تھی اس کے بعد مسلم مخالف تشدد پھوٹ پڑا اور پھر گجرات کے وزیر اعلیٰ نے پولیس کو مداخلت نہ کرنے کی ہدایت  جاری کر دی۔

اگر مودی نے پچھلی دو دہائیاں جیل کی کوٹھری میں نہیں گزاری ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں پولیس اور عدلیہ سے لے کر ریاست گجرات اور ہندوستانی حکومتوں تک، ہندوستان کے سرمایہ دارانہ حکمرانوں اشرافیہ کی ملی بھگت اور حمایت کے ساتھ ایک انتہائی فرقہ وارانہ ریاستی نظام نے تحفظ فراہم کیا ہے۔

دستاویز میں بتایا گیا کہ 'انڈیا: مودی کا سوال' کے عنوان سے دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم، جس کا پہلا حصہ گزشتہ منگل کو بی بی سی 2 پر نشر ہوا نے 2002 کے 'فسادات' کے حسابی اور مربوط کردار اور بڑے پیمانے پر قتل عام پر مودی کے قصوروار ہونے کی اضافی تصدیق فراہم کی ہے۔

دستاویزی فلم میں گجرات کے قتل عام پر برطانوی حکومت کی ایک خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جو اب تک منظر عام پر نہیں آئی تھی۔  اسے دفتر خارجہ کی ایک انکوائری ٹیم نے تیار کیا تھا جس نے فرقہ وارانہ خونریزی کے فوراً بعد مغربی ہندوستانی ریاست کا دورہ کیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'تشدد کی حد رپورٹ ینگ سے کہیں زیادہ تھی' اور منظم طریقے سے ترتیب دی گئی تھی: 'تشدد کی ایک منظم مہم' جس میں 'نسلی تشدد اور قتل عام کے تمام نشانات'  واضع تھے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 'فسادات کا مقصد مسلمانوں کو ہندو علاقوں سے نکلنا اور پاک کرنا تھا،' انہوں نے مزید کہا کہ 'مسلم خواتین کی وسیع پیمانے پر اور منظم طریقے سے عصمت دری' کو عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے انجام دیا گیا۔

رپورٹ میں تشدد کو ہوا دینے میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے سرگرم کارکنوں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ وی ایچ پی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ ہے، جو ایک نیم فوجی تنظیم ہے جو 'ہندو قوم' کے احیاء کے لیے وقف ہے۔ مودی آر ایس ایس کے تاحیات رکن رہے ہیں اور بڑے حکومتی فیصلوں پر اپنے آر ایس ایس کے لیڈروں سے معمول کے مطابق مشورہ کرتے ہیں۔

تاہم بی بی سی کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گی ہے کہ وی ایچ پی کے ہندو فرقہ پرست ٹھگ اور ان کے لوگ 'ریاستی حکومت کی طرف سے استثنیٰ کے ماحول کے بغیر اتنا نقصان کبھی نہیں پہنچا سکتے تھے۔' اس کے لیے اس کا دعویٰ ہے ’’نریندر مودی براہ راست ذمہ دار ہیں۔‘‘

بی بی سی کی دستاویزی فلم میں یورپی یونین کی جانب سے کی گئی ایک الگ تحقیقات کے نتائج کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اس انکوائری نے مبینہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مودی کی بی جے پی ریاستی حکومت میں وزراء نے 'تشدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سینئر پولیس افسران کو ہدایت کی گئی کہ وہ فسادات میں مداخلت نہ کریں۔'

'انڈیا: مودی کا سوال' میں ایک سابق سفارت کار کا انٹرویو بھی شامل ہے جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے اور جو ممکنہ طور پر دفتر خارجہ کی انکوائری ٹیم کے کام میں سرگرم عمل تھا۔ سابق سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’’تشدد کے دوران کم از کم 2,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 'بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ہم نے اسے قتل عام کے طور پر بیان کیا – ایک جان بوجھ کر اور سیاسی طور پر چلنے والی کوشش جس کا نشانہ مسلم کمیونٹی کو بنایا گیا ہے۔'

بی بی سی کے دستاویزی فلموں نے اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا کا بھی انٹرویو کیا، جو 2003 میں عراق پر امریکی-برطانیہ کے غیر قانونی حملے کے معماروں میں سے ایک کے طور پر تھا، مودی کے ہاتھ کی طرح اس سے بھی خون ٹپک رہا ہے۔

جیک سٹرا نے دفتر خارجہ کے گجرات انکوائری ٹیم کے قیام کے پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، 'یہ انتہائی سنگین دعوے تھے- کہ وزیر اعلیٰ مودی نے پولیس کو پیچھے ہٹانے اور ہندو انتہا پسندوں کی خاموشی سے حوصلہ افزائی کرنے میں کافی فعال کردار ادا کیا تھا۔'

جیک اسٹرا نے ٹیم کی رپورٹ کو 'بہت مکمل' قرار دیا، پھر برطانوی لیبر حکومت کی اس بنیاد پر اپنے نتائج کو ظاہر کرنے میں ناکامی کا دفاع کیا کہ اس سے برطانیہ کے مفادات، یعنی برطانوی سامراج کے تجارتی اور تزویراتی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ جب اسٹرا برطانوی سامراج کی غارات گر خارجہ پالیسی کے ہوتے ہوئے  'انسانی حقوق' کا مطالبہ کر رہا تھا اور جس میں عراق جنگ کو جواز فراہم کرنا بھی شامل تھا، جب اس نے ہندوستان کا دورہ کیا  اس کے پاس 'کافی حد تک محدود' آپشن تھے۔  اس نے کہا ’’ہم بھارت کے ساتھ کبھی سفارتی تعلقات توڑنے والے نہیں تھے لیکن یہ ظاہر ہے کہ ان کی (مودی) کی ساکھ پر داغ ہے۔‘‘

گجرات قتل عام میں مودی کے ملوث ہونے کے مزید ثبوت برطانوی دفتر خارجہ کی تحقیقات جو مہینوں اور سالوں پر محیط تھی بعد میں سامنے آئے - اور اس انکوائری میں اس بات کو  نوٹ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اسکے پاس ہندوستانی پولیس اور عدالتوں کے کوئی قانون کے رو سے لازمی تفتیشی اختیارات نہیں تھے۔

مودی کی گجرات ریاستی حکومت میں ریونیو کے وزیر ہرین پانڈیا اور پولیس کے ڈپٹی کمشنر سنجیو بھٹ کی طرف سے فراہم کردہ شواہد خاص اہمیت کے حامل ہیں جنہوں نے 27 فروری 2002 کی رات کو مودی کی رہائش گاہ پر بلائی گئی 'غیر سرکاری میٹنگ' میں شرکت کی۔ پانڈیا جنہیں مارچ 2003 میں پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا پانڈیا کے مطابق  اس ملاقات کا ایک واحد مقصد یہ تھا کہ مودی نے میٹنگ میں آنے  والوں کو یہ ہدایت کی کہ 'لوگوں کو اپنا غصہ نکالنے دیں اور ہندوؤں کے ردعمل کی راہ میں نہ آئیں۔'  بھٹ نے 2009 میں گواہی دی کہ وہ اس میٹنگ میں موجود تھے اور اس طرح پانڈیا کے بیان کی تصدیق کی۔

اور اس  تحقیق کے ہر قدم پر بھارتی حکام نے 2002 کے واقعات کی تحقیقات کو ناکام بنا دیا ہے، خاص طور پر کوئی بھی ایسا واقعہ جس میں مودی اور ان کے سرغنہ بھارت کے موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ ملوث تھے۔ جو کچھ سزائیں سنائی گئی ہیں وہ عام طور پر متاثرین کی جانب سے سخت کوششوں کا نتیجہ ہیں جیسا کہ بلقیس بانو کے معاملے میں جو 2002 میں وحشیانہ گینگ ریپ کے وقت جسکی عمر 21 سال اور جو پانچ ماہ کی حاملہ تھیں اور  اس کے علاوہ اسکے خاندان کے 14 دیگر  افراد مارے گئے تھے۔

2002 کے قتل عام کے ذمہ داروں کو بچانے کے لیے گجرات میں پولیس، عدالتی اور حکومتی حکام کی کوششیں اس قدر واضح تھیں کہ بالآخر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تاہم  بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے عدالتی ایمان داری کے لیے اپنی نامناسب ساکھ کو  جلد ہی مودی اور اس کے مجرم ساتھیوں کی خدمت میں پیش کر دی۔

اس کا اختتام گزشتہ جون کے ایک فیصلے پر ہوا جو ذلت اور بدنامی کا نشان رہے گا۔ سپریم کورٹ نے 28 فروری 2022 کو احمد آباد کے ایک مسلم محلے میں 68 دیگر افراد کے ساتھ ذبح ہونے والے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کی بیوہ ذکیہ جعفری کی اس درخواست کو مسترد کر دیا کہ آیا ان کی موت کسی 'بڑی سازش' کا حصہ تھی۔ یعنی مسلم مخالف تشدد اور نسلی قتل عام کی ایک منظم مہم۔

ایسا کرتے ہوئے، عدالت نے نہ صرف مودی، امیت شاہ اور گجرات کے حکام کو بری کر دیا، بلکہ انہیں نام نہاد 'کلین چٹ' بھی دی  اس نے جعفری اور ان کی شریک درخواست گزار  صحافی اور کارکن تیستا سیتلواڈ کی مذمت کی، ' کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ 'کلین چٹ' کو برقرار رکھیں۔ اور اس عمل کو جاری رکھتے ہوئے' اور کہا کہ انہیں خود ' عدالت میں ملزم کے کٹہرے' ہونا چاہیے اور ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ اگلے دن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے گجرات پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے سیتلواڑ اور آر بی سری کمار کو گرفتار کر لیا، جو گجرات کے ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر ہیں جنہوں نے قتل عام میں پولیس کی ملی بھگت کو بے نقاب کیا تھا۔

یہ ایک بڑے عمل کا حصہ ہے جس میں ہندوستانی حکمران طبقے نے مودی کو 'مرد آہن' کے طور پر قبول کیا جو ہندوستان کے محنت کشوں اور غریبوں کے استصال اور انکے خلاف طبقاتی جنگ  جاری رکھتے ہوئے اور امریکی سامراج کے ساتھ اتحاد کے زریعے اپنی عظیم طاقت کے عزائم کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ بی جے پی، جس کے سرگرم کارکنوں کی بنیاد فاشسٹ ہندو سپرمسٹ پر مشتمل ہے انکے لیے حکومت کی اہم اور بنیادی پارٹی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ہندوستان کی قومی حکومت کی قیادت کرنے کے علاوہ  اس کے پاس اب ہندوستان کی کچھ دو تہائی ریاستوں میں اقتدار بھی ہے۔

دوسری جگہوں کی طرح  انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کے اقتدار میں آنے اور انکی طاقت میں اضافے کی وجہ نام نہاد  'بائیں' اور لبرل پارٹیوں نے ہر مرحلے پر  دائیں طرف تیزی سے موڑتے ہوئے انہیں سہولت فراہم کی  ہے۔ 'ہندو فاشزم' سے لڑنے کے نام پر جڑواں ہندوستانی سٹالنسٹ پارلیمانی پارٹیوں، سی پی ایم اور سی پی آئی نے کئی دہائیوں سے محنت کش طبقے کو بڑی کاروباری کانگریس پارٹی کے تابع کر رکھا ہے اور جہاں وہ مختلف ریاستوں میں اقتدار پر قابض رہے ہیں، انہوں نے جسے وہ خود 'سرمایہ کاروں کے حامی' پالیسیوں کے طور پر بیان کرتے ہیں اس پر عمل درآمد کیا ہے۔

دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی  گجرات کا قتل عام ہندوستانی سیاست پر ایک رستا ہوا زخم ہے۔ فروری-مارچ 2002 کے واقعات کی وجہ سے اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے دسیوں ہزار مسلمان اب علیدہ بستیوں میں مقیم ہیں جو تمام مقاصد  کے لیے داخلی نقل مکانی کے کیمپوں میں ہیں۔

مودی اور ان کی بی جے پی  نے 2002 کے واقعات کو اپنے ہندو سپرمسٹ بنیاد کو مضبوط کرنے اور ووٹرز کو پولرائز کرنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ گزشتہ سال گجرات کے ریاستی انتخابات سے پہلے، ریاستی حکومت نے بلقیس بانو کے خاندان کے قتل میں ملوث  عمر قید کی سزا پانے والے تمام 11 افراد کو رہا کیا اور جنکا ہیروز کے طور پر استقبال  کیا گیا۔

بی جے پی نے احمد آباد کے نرودا کے علاقے کے لیے اپنے موجودہ ریاستی قانون ساز اسمبلی کے رکن کو بھی فہرست سے ہٹا دیا تاکہ وہ اپنی امیدوار پائل ککرانی کو کھڑ کر سکے جو کہ ایک بی جے پی کی سرگرم کارکن کی 30 سالہ بیٹی ہے جسے نرودا پاٹیا قتل عام کے لیے سزا سنائی گئی تھی جس میں 96 مسلمان مارے گئے تھے۔

متوقع طور پر ہندوستان کی حکومت کارپوریٹ میڈیا کا زیادہ تر حصہ اور بی جے پی کے وسیع ڈائسپورا نیٹ ورک نے بی بی سی کی دستاویزی فلم کا جواب شدید تنقید کے ساتھ دیا ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک 'پروپیگنڈہ کا ٹکڑا' قرار دیا اور کہا اس سے 'تعصب' اور 'نوآبادیاتی ذہنیت'  کی عکاسی ہوتی ہے۔

2002 کے گجرات قتل عام میں مودی کے کردار سے بخوبی واقف مغربی سامراجی حکومتوں نے ابتدا میں ان سے کچھ فاصلہ رکھنا ہی دانشمندی سمجھا۔ انہیں ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے تک برطانیہ کا سفر کرنے کی اجازت نہیں تھی اور 2014 میں بھارتی وزیراعظم بننے کے بعد ہی ان کا واشنگٹن میں استقبال کیا گیا۔ لیکن یہ سب قدیم تاریخ کا حصہ ہے۔

وزیر اعظم کے طور پر اپنے نو سالہ دور میں اور  خاص طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ انتخاب کے بعد سے مودی اور ان کی بی جے پی نے ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر (ایک ایسی ریاست جہاں ہندوؤں کی بالادستی کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اقلیتیں مصائب اور اطاعت گزارنی میں رہتی ہیں)  میں تبدیل کرنے کے نظریاتی مقصد کے ساتھ مسلم دشمنی اور اقلیت مخالف تعصب کو ہوا دی ہے۔ اور سیاسی مقصد کے حوالے سے  بڑے پیمانے پر بے روزگاری پر بڑھتے ہوئے سماجی غصے کو   رجعتی خطوط پر بڑھانا غربت اور گہری سماجی عدم مساوات کے خلاف جدوجہد کو فرقہ واریت کے ذریعے  محنت کش طبقے کو تقسیم کرنا۔ اس کے باوجود اس فرقہ پرست گینگسٹر کو اب بائیڈن، میکرون، شولز اور ٹروڈو جیسے لوگوں نے دنیا کی سب سے زیادہ 'آبادی والی جمہوریت' کے رہنما اور خود مختار چین کے خلاف 'آزادی' کے کٹر محافظ کے طور پر  سراہا ہے۔

اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے  برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے بی بی سی کے گجرات قتل عام میں مودی کے کردار کو بے نقاب کرنے سے خود کو الگ کر دیا۔ انہوں نے بدھ کو برطانوی پارلیمنٹ کو بتایا کہ وہ اس رپورٹ کے حوالے سے ہندوستان کے وزیر اعظم  ' اسکے کردار '  کے حوالے سے متفق نہیں ہیں۔

Loading