اُردُو
Perspective

بھارت میں ٹرین کی ہولناکی: زوال پذیر سرمایہ داری کا ایک اور جرم

یہ تناظر انگریزی میں 4 جون 2023 میں شائع ہو1 کا  'Train horror in India: Another crime of decaying capitalism' کا اردو ترجمہ ہے۔

بھارت میں گزشتہ 25 سالوں کے دوران ہونے والے سب سے مہلک ٹرین حادثے میں تقریباً 300 مسافر ہلاک اور 1000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے دنیا کو خوفزدہ کر دیا ہے اور ہندو شاونسٹ نریندر مودی کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت اور اس سے پہلے کی سرمایہ دارانہ حکومتوں کی طرف سے بنیادی انفراسٹرکچر کی مجرمانہ غفلت کو بے نقاب کر دیا ہے۔

مشرقی ہندوستانی ریاست اڑیسہ کے ضلع بالاسور میں ہفتہ 3 جون 2023 کو پٹری سے اترنے والی مسافر ٹرین سے امدادی کارکن ایک متاثرہ شخص کی لاش کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/رفیق مقبول] [AP Photo/Rafiq Maqbool]

مشرقی بھارتی ریاست اوڈیشہ کے ضلع بالاسور میں گزشتہ جمعہ کی رات تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں ان میں سے دو تیز رفتار مسافر ٹرینیں مخالف سمتوں میں جا رہی تھیں اور تیسری ایک مال بردار ٹرین جو لوہے سے بھری ہوئی تھی۔ بالاسور میں بہناگا بازار اسٹیشن چار لائنوں کا اسٹیشن ہے جس کے درمیان میں دو مین لائنیں اور دونوں طرف دو لوپ لائنیں ہیں۔ ریل شالیمار چنئی سنٹرل کورومنڈل ایکسپریس مشرقی ہندوستان کے شالیمار سے جنوبی ہندوستان میں چنئی تک ایک مین لائن پر 128 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی تھی اور دوسری ریل بنگلورو ہاؤڑا سپر فاسٹ ایکسپریس جنوب میں بنگلورو سے دوسری مین لائن کے ساتھ 126 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آ رہی تھی۔

ریلوے کے ایک اہلکار کے مطابق جنوب کی طرف جانے والی کورومنڈیل ایکسپریس مین لائن سے سائیڈ لوپ کی طرف موڑ گئی جہاں وہ 'وہاں کھڑی لوہے سے بھری ایک مال ٹرین سے ٹکرا گئی' جس نے 'حادثے کے تمام جھٹکے جذب کر لیے کیونکہ یہ بہت بھاری تھی۔ ' ایک اور اہلکار نے بتایا کہ تصادم سے مسافر ٹرین میں موجود 22 میں سے 12 بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور کچھ شمال کی طرف جانے والی سپر فاسٹ ایکسپریس کے راستے میں گر پڑی جو ان میں ٹکرا گئیں اور خود بھی پٹری سے اتر گئیں۔

ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جنوب کی طرف جانے والی ٹرین نے رخ کیوں بدلا لیکن حادثے کی وجہ یا تو غلط سگنل یا سگنلنگ آلے کی خرابی بتائی جا رہی ہے۔ کسی بھی تحقیقات سے پہلے مودی حکومت نے ابتدائی رپورٹوں کی بنیاد کو موقع غنیمت سمجھتے ہوئے مقامی سطح پر ریل روڈ ورک عملے پر ذمہ داری عائد کی تاکہ اس کی اپنی تباہ کن پالیسیوں کو چپھایا جا سکے۔

بھاری جانی نقصان پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی حادثے پر اپنی 'تکلیف' کا اظہار کرنے پہنچ گئے۔ 'جس نے بھی غلطی کی ہے سخت کارروائی کی جائے گی ' جسکا واضح مطلب یہ ہے کہ آنے والی حکومتوں کی طرف سے کئی دہائیوں کی نظر اندازی کو چھپانے کے لیے قربانی کے بکرے تلاش کیے جائیں گے اور سزا دی جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی حکمران طبقہ اور انکے نمائندیکے طور پر مودی تصادم میں تباہ اور بکھرے ہوئے مسافروں کی کوئی پرواہ نہیں رکھتے۔ ان میں زیادہ تر مغربی بنگال، بہار اور جھارکھنڈ کی ریاستوں کے تارکین وطن مزدور تھے جو چنئی اور آس پاس کے علاقوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ اور دوسرے ان میں مریض تھے جو جنوبی ہندوستان کے نجی اسپتالوں میں علاج کے لیے جا رہے تھے۔

جیسا کہ میڈیا رپورٹس میں دکھایا گیا ہے حادثے نے ایک جہنمی منظر پیدا کر دیا جو ڈھیر لاشوں سے بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ امدادی کارکنوں کو کاٹنے والی ٹارچز کا استعمال کرتے ہوئے کھلے دروازے اور کھڑکیوں کو توڑنے کے لیے تباہ شدہ ٹرینوں کے اوپر چڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ مقامی باشندے ریل کاروں میں پھنسے سینکڑوں لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

کورومنڈیل ایکسپریس کے ایک زندہ بچ جانے والے رمیش نے اے بی پی ناڈو کو بتایا کہ 'جب حادثہ ہوا پوری ٹرین ہل گئی اور ہم سب نیچے گر گئے۔ ہم کچھ نہ کر سکے۔ جب ہم کوچ سے باہر آئے تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ متعدد کوچز پٹری سے اتر گئیں اور ان میں سے ایک کوچ دوسری کوچ سے ٹکرا گئی۔

ہولناک منظر کو یاد کرتے ہوئے رمیش نے کہا کہ بہت سے لوگ ٹرین کی ٹوٹی ہوئی باقیات میں پھنس گئے تھے۔ گاؤں والے فوراً مدد کے لیے پہنچ گئے اور لوگوں کو بچانا شروع کر دیا۔ بالآخر پولیس اور طبی ماہرین موقع پر پہنچ گئے۔

مودی کے وزیر ریلوے اشونی ویشنو نے اتوار کو کہا کہ حادثے کی وجہ 'الیکٹرانک انٹر لاکنگ میں تبدیلی' تھی جس کا استعمال تصادم سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا اور تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ 'اس غلطی کا ذمہ دار کون تھا۔' لیکن ہندوستانی ریل نیٹ ورک پر ہونے والی اموات کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کوئی 'غلطی' یا 'حادثہ' نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ داری آنے والی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔

خوفناک تعداد کے باوجود جمعہ کا حادثہ ہندوستانی تاریخ میں تین دیگر ٹرین آفات سے تجاوز کر گیا جس میں 1995 کا حادثہ بھی شامل ہے جب شمالی ہندوستان میں اتر پردیش میں فیروز آباد کے قریب پروشوتم ایکسپریس اور کالندی ایکسپریس کے درمیان تصادم میں تقریباً 358 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سے بھی بدتر ہے روزانہ مرنے والے مسافروں کی تعداد جو ٹرینوں سے گر جاتے ہیں جو زیادہ تر مسافر گاڑیوں کی چھتوں پر سوار ہوتے ہیں اور لوگ پٹریوں پر مارے جاتے ہیں اور جو بھاگتے ہوئے دوسری تیز رفتار ٹرینوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں ہندوستانی ریل سسٹم پر 19000 حادثات میں 16,000 افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے روزانہ اوسطاً 49 حادثات ہوتے ہیں جن میں 45 افراد ہلاک ہوتے ہیں۔

سرکاری لاپرواہی پر بڑھتے ہوئے غصے کو کم کرنے کی کوشش میں مودی نے مرنے والوں کے لواحقین کے لیے 200,000 روپے(2427 ڈالر) اور زخمیوں کے لیے وزیر اعظم نیشنل ریلیف فنڈ (پی ایم این آر ایف) سے 50,000 روپے کی رعایتی ادائیگی کا اعلان کیا۔ یہ حکومت کی جانب سے مٹکے میں ایک قطرے کے برابر ہے جو اس وقت فوج پر 6.33 ٹریلین روپے (76.8 بلین ڈالر) خرچ کرتی ہے جو کہ دنیا میں امریکہ اور چین کے بعد تیسرا سب سے بڑا جنگی بجٹ ہے۔ 

جب کہ مودی حکومت اور ریاستی حکام اب اپنی ذمہ داری کو چھپانے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں یہ بڑی طرح سے عیاں ہے کہ کئی دہائیوں سے نظر انداز کیے جانے اور لاگت میں کٹوتی کے نتیجے میں ریل کے بنیادی ڈھانچے کے گھسنیاور فرسودگی سیضروری حفاظتی اقدامات میں شدت آئی ہے۔

جمعہ کے حادثے سے صرف دو دن پہلے 31 مئی کو ہندو اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ جس کی سرخی تھی 'ٹرین حادثات میں اضافہ ہندوستانی ریلوے کو پریشان کرتا ہے جس میں ' بیان کیا گیا:

ریلوے بورڈ نے حال ہی میں لوکو پائلٹس [لوکوموٹیو انجینئرز] کو ان کے مقررہ اوقات کار سے زیادہ اور اس سے زیادہ تعینات کیے جانے کا معاملہ اٹھایا جس کے نتیجے میں ٹرین آپریشن کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہے۔ اہلکار نے بتایا کہ قواعد کے مطابق عملے کے ڈیوٹی اوقات کسی بھی صورت میں 12 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ اور پورے ریل نیٹ ورک میں ٹرین حادثات میں اضافے سے پریشان اور بوکھلائے ہوئے ریلوے بورڈ نے اسامیوں کو پُر کرنے اور لوکوموٹیو پائلٹس کے طویل کام کے اوقات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

'انسانی غلطیوں' اور 'سگنل کی ناکامیوں' کو روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجیز دستیاب ہیں لیکن وسیع پیمانے پر نافذ نہیں کی گئی ہیں۔ ریلوے حکام نے اعتراف کیا ہے کہ جس روٹ پر جمعہ کو حادثہ پیش آیا تھا اس پر ٹرین کا ٹکراؤ مخالف نظام 'کاوچ' دستیاب نہیں تھا۔

بہرحال بہت سے ممالک میں ریل کے کارکنوں کا تجربہ یہ ہے کہ جب جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کرائی جاتی ہے، تب بھی اس کا استعمال ریل کے آپریشن کو محفوظ بنانے کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ ریل کے مالکان اور ان کے مالی معاونین کے منافع میں اضافہ کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ درستگی سے طے شدہ ریل روڈنگ (پی ایس ار) کا مقصد رہا ہے جو کہ حالیہ برسوں میں ریاستہائے متحدہ اور کینیڈا دونوں میں متعارف کرایا گیا ہے جو کہ کام کے لیے 24/7 کال پر ریل روڈ کے عملے کو صنعتی غلام کی حیثیت سے کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ملک کے ریل نظام پر ہونے والے قتل عام کے بارے میں مودی حکومت کا رویہ غریب محنت کش لوگوں کی زندگیوں کے متمرد اسی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے جو کوویڈ-19 وبائی مرض کے دوران میں ظاہر ہوتا ہے۔ صحت کے ضروری اقدامات پر عمل درآمد میں ناکامی میں کاروبار نواز حکومت کی مجرمانہ پالیسی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو مرنے دیا گیا۔

پوری دنیا میں سامراجی جنگ اور حکمران اشرافیہ کی طرف سے منافع خوری کی طرف جنونی مہم بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور دیکھ بھال میں بہت زیادہ غفلت کا باعث بنی ہے۔ یہ یونان کے ٹیمپی میں ریل حادثے جیسی آفات سے ظاہر ہوتا ہے جس میں 57 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور جن میں زیادہ تر طلباء اپنی چھٹیوں سے واپس آ رہے تھے اور اسی طرح مشرقی فلسطین اوہائیو میں نارفولک سدرن ٹرین جو ٹینک کاروں میں لے جانے والے کیمیکل کے ساتھ بھری ہوئی تھی کے پٹری سے اترنے کے ساتھ چھوٹے شہر کے پانی اور مٹی کو زہر آلود کر دیا تھا۔ 

 ہندوستان میں جہاں ریل روڈ ریاست کی ملکیت ہیں وہی عمل کام کر رہا ہے۔ مودی حکومت عوامی خدمات کو نظر انداز کرتی ہے جو کہ لاکھوں مزدوروں اور دیہی غریبوں کے لیے بہت اہم ہیں- ایک حیرت انگیز طور پر 8.4 بلین لوگ ہر سال ریل روڈ مسافر نظام کا استعمال کرتے ہیں۔ دریں اثنا حکومت انتہائی جدید ترین ڈرون، جنگی طیاروں، ٹینکوں، میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں سمیت فوجی ہتھیاروں کے لیے بے دریغ خرچ کر رہی ہے کیونکہ اس نے چین کے خلاف اپنی جنگی مہم میں امریکی سامراج کی پشت پناہی کی ہے۔

ہندوستان کی تمام مرکزی بورژوا پارٹیاں عسکریت پسندی کے اس پروگرام اور اندرون ملک محنت کش طبقے کے خلاف جنگ کی ذمہ داری بانٹتی ہیں۔ کانگریس پارٹی جو اب اپوزیشن میں ہے نے 1947 میں آزادی کے بعد سے آدھے سے زیادہ وقت تک ملک پر حکومت کی ہے اور اسی طرح ہندوستان کے ریلوے نیٹ ورک میں بنیادی حفاظت کو نظر انداز کیا ہے۔

سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) یا سی پی ایم نے ریل کی حفاظت کو نظر انداز کرنے پر معمولی اور روایتی انداز میں تنقید کی ہے لیکن اس نے تین دہائیوں سے کانگریس پارٹی کی حکومتوں اور بی جے پی مخالف اتحادوں کو سہارا دیا ہے، اس طرح اس تباہی کے لیے اپنی ذمہ داری کا اشتراک کیا ہے۔ وہ کانگریس اور بی جے پی کی طرح ہندوستانی سرمایہ داری کے پرجوش حامی ہیں۔

ریل کی تازہ ترین تباہی سوشلزم کے لیے سیاسی لڑائی کی ضرورت کو واضح کرتی ہے جو محنت کش لوگوں کی زندگیوں اور سماجی ضروریات کو منافع کی مہم کے برعکس ہے۔ اس کے لیے وسیع ہندوستانی محنت کش طبقے کو درپیش مرکزی سیاسی سوالات کو واضح کرنے اور ایک انقلابی متبادل کی تعمیر کے لیے ایک دوگنی جدوجہد کی ضرورت ہے جو چوتھی انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی کا ایک حصہ ہے۔

Loading