اُردُو
Perspective

آب و ہوا کا بحران ایک اہم نقطہ پر پہنچ چکا ہے۔

یہ 29 جولائی 2023 میں انگریزی میں شائع 'The climate crisis reaches a tipping point' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

یورپی کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس (سی 3 ایس) اور ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ جولائی کے پہلے تین ہفتوں کے دورانیے میں سب سے زیادہ گرم ریکارڈ کیے گئے ہیں اور یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ یہ مہینہ سب سے زیادہ گرم ہوگا۔ انسانی تہذیب نے کبھی اس سے پہلے اتنی ریکارڈ گرمی کا تجربہ نہیں کیا تھا۔

سی 3 ایس کے ڈائریکٹر کارلو بوونٹیمپو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 'ریکارڈ توڑنے والا درجہ حرارت عالمی درجہ حرارت میں زبردست اضافے کے رجحان کا حصہ ہے۔ انتھروپجینک اخراج بالآخر ان بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا بنیادی محرک ہے۔ اس نے مزید کہا کہ 'جولائی کا ریکارڈ اسی سال ہی تک محدود ہو جانے کا امکان نہیں ہے سی 3 ایس کی موسمی پیشین گوئیاں بتاتی ہیں کہ زمینی علاقوں میں درجہ حرارت اوسط سے زیادہ رہنے کا امکان ہے جو کہ سال کے حوالے سے موسمیات میں 80 ویں فیصد سے زیادہ ہے۔'

منگل 25 جولائی 2023 کو جنوب مشرقی یونان کے جزیرے رہوڈس کے بحیرہ ایجیئن جزیرے پر واقع گیناڈی گاؤں میں آگ کے شعلوں سے درختوں کے جلانے کے بعد ایک مقامی رہائشی ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔ [ آے پی فوٹو / پیٹروس گیاناکورس] [AP Photo/Petros Giannakouris]

اس سال جولائی میں آخری بار اگست 2016 میں قائم کیا گیا ریکارڈ توڑ دیا جب عالمی اوسط درجہ حرارت 16.92 ڈگری سیلسیس (62.46 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا تھا جس سے یو ایس نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) نے ناپا تھا۔ لیکن 3 جولائی کے بعد سے، دنیا بھر میں اوسط درجہ حرارت ہر 24 گھنٹے کے بعد آسمان کو چھونے لگا، جو 6 جولائی کو 17.23 سینٹی گریڈ (63.01 ڈگری فارن ہائیٹ) کی نئی بلندی تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد سے سب سے ٹھنڈا دن 14 جولائی تھا، جو 16.94 سینٹی گریڈ (62.49 ڈگری فارن ہائیٹ) تک گر گیا جو اب بھی پچھلے بلندی کے پیمانے کے سطح کے بالکل اوپر ہے۔

زمین کے خط مدار اور شمالی نصف کرہ خاص طور پر جاری گرمی کی لہر سے متاثر ہوئے ہیں ان خطوں میں درجہ حرارت بالترتیب 0.9 سینٹی گریڈ(1.6 ڈگری فارن ہائیٹ) اور 1.2 سینٹی گریڈ (2.1 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ شمالی بحر اوقیانوس میں سمندری درجہ حرارت مارچ کے بعد سے موسمی ریکارڈ کو توڑ رہا ہے، جو اوسط سے تقریباً 1.5 سینٹی گریڈ (2.7 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا ہے جبکہ قطبین کے باہر عالمی سمندری درجہ حرارت اوسط سے 0.8 سینٹی گریڈ (1.4 ڈگری فارن ہائیٹ) رہتا ہے جس میں ایک نیا ریکارڈ 21.1 سینٹی گریڈ (69.98) ڈگری فارن ہائیٹ بھی شامل ہے۔) مارچ میں بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اس بات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ مجموعی طور پر 2023 اب تک کا گرم ترین سال بن جائے گا۔

اس سال ریکارڈ درجہ حرارت کے سب سے زیادہ تباہ کن نتائج میں کینیڈا میں جنگل کی آگ ہے جس نے 100,000 مربع کلومیٹر (38,600 مربع میل) سے زیادہ کو جلا دیا ہے جو 1989 میں قائم کیے گئے پچھلے ریکارڈ سے تقریباً دوگنا ہے اور شمالی امریکہ کے شمال مشرق کو دھوئیں اور راکھ کے زہریلے درجات سے خالی کر دیا ہے۔ جنوبی یورپ، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور پورے جنوبی امریکہ کے بڑے حصے گرمی کے انتباہات کے تحت تھے یا اب بھی ہیں۔ امریکہ میں سیلاب سے 47 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں جولائی میں آنے والے 13 افراد شامل ہیں جبکہ یورپ اور شمالی افریقہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے 40 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ الجزائر، چین، قبرص، یونان، اٹلی، میکسیکو اور سپین میں لُو لگنے سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔۔

مزید یہ کہ اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی آفات اس سے بھی زیادہ تباہ کن واقعات کا پیش خیمہ ہونگی۔ فلوریڈا کے ساحل پر پانی کا درجہ حرارت — 38.38 سینٹی گریڈ (101.1 ڈگری فارن ہائیٹ) — اور انٹارکٹک سمندری برف کی حد — اوسط سے کم 2.6 ملین مربع کلومیٹر (تقریباً 1 ملین مربع میل) — اس بات کے اشارے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ گرم ہونے والے سمندر اہم مرجان سمندری جاندار کے نظاموں اور عالمی حیویے کی آبادی کو بیماری اور بڑے پیمانے پر مرنے کے خطرے سے دوچار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پوری خوراک کے سلسلے کی بنیاد کو خطرہ ہوتا ہے۔ انٹارکٹک سمندری برف کی کمی مسلسل زمینی برف کے سمندر میں گرنے سے دنیا بھر میں سمندر کی سطح میں اضافے اور ساحلی علاقوں میں مستقل طور پر سیلاب آنے کا خطرہ بڑھاتی ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق 3 ارب لوگ رہتے ہیں۔

اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ گلوبل وارمنگ زمین کے وسائل کا انتشار اور سرمایہ دارانہ پیداوار کے استحصال کے باعث رونما ہوئی ہے خاص طور پر ڈیڑھ صدی سے کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس کو غیر منظم طریقے سے جلایا گیا ہے۔ اہم سوال جاری اور تیز ہوتے ہوئے ماحولیاتی بحران کے حل کے لیے ہے۔

سی 3 ایس اور ڈبلیو ایم او رپورٹ کے جواب میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ 'انسانیت اسکی ذمہ دار ہے [اور] انسان قصوروار ہیں۔' یہ ایک بلکل غلط مماثلت ہے اور گٹیرس یہ جانتے ہیں۔

'انسانیت' قصوروار نہیں ہے جبکہ یہ سرمایہ داری کا نتیجہ ہے. آب و ہوا کے بحران سے سنجیدگی سے نمٹنے کی ہر کوشش کو جو چیز واقعی روکتی ہے وہ ہے منافع کا نظام معاشی زندگی کو نجی منافع کے تابع کرنا اور دنیا کو حریف قومی ریاستوں میں تقسیم کرنا۔

2008 میں یو ایس سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹی کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بیان کیا،

منافع کے نظام اور انسانیت کی بقا کے درمیان ناقابل مصالحت تنازعہ جو لفظی معنوں میں عالمی درجہ حرارت اور قدرتی ماحول کے بحران میں اس کا سب سے زیادہ نقصان دہ اظہار تلاش کرتا ہے۔ اس بحران کی وجہ جھوٹ نہیں ہے جیسا کہ بورژوا میڈیا نے آبادی میں اضافے کے ساتھ جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ اور نہ ہی یہ سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے — جن کی ترقی انسانی تہذیب کی ترقی کے لیے اہم ہے — بلکہ ایک غیر معقول اور فرسودہ معاشی نظام کے ذریعے ان کے غلط استعمال کے طور کا نتیجہ ہے۔

 یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے،

تمام سائنسی شواہد اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عالمی معیشت کی سوشلسٹ تنظیم نو کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہا - جس میں سیاروں کا ماحول مزید منافع کے مقاصد یا تباہ کن قوم پرست مفادات کے لیے یرغمال نہیں رہے گا - اور آفات کو روکنے کے لیے ضروری گرین ہاؤس گیسوں میں کمی حاصل کرے گی۔

آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہر بین الاقوامی کانفرنس اور حال ہی میں سی او پی 27 موسمیاتی سربراہی اجلاس سراسر ناکامی کے ساتھ اختتام ہوا جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ قومی ریاستوں کے درمیان داخلی تضادات بنیاد پر عالمی مسئلے اور آفتاوں سے نمٹنے کے لیے ناممکن ہونے کے نتیجے کے طور پر بار بار ابھر کر سامنے آ رہے ہیں یہ کچھ بھی کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ آب و ہوا کے وعدے جو انہوں نے شروع میں کیے تھے اُس پر کوئی عملدرامد نہیں ہوا کیونکہ وہ بڑے پیمانے پر فوجی اخراجات کو بڑھا رہے تھے۔

سرمایہ دارانہ منافع پر مبنی نظام ہے جو سماج کو سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی بنیاد پر منظم کرتا ہے جو ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ضروری سماجی منصوبہ بندی اور تنظیم کے بڑے پیمانے پر نظام سے مکمل عاجز ہے۔

کاربن میجرز کی رپورٹ کے مطابق جسے 2020 میں حال ہی میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا 108 فوسل فیول کمپنیاں جن میں (سعودی آرامکو، شیورون، گیز پروم، بی پی، ایکسن موبل) 1751 سے لے کر اب تک 70 فیصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے لیے ذمہ دار ہیں۔ (عالمی درجہ حرارت کی بیس لائین کے طور پر)، جن میں سے نصف 1990 سے خارج ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف 20 کمپنیاں 30 فیصد عالمی اخراج کے لیے ذمہ دار ہیں۔

منافع انتہا درجے کا ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے سربراہ فتح بیرول نے گزشتہ فروری میں کہا تھا کہ 2022 میں عالمی سطح پر تیل اور گیس کا منافع 4 ٹریلین ڈالر تک بڑھ گیا جس سے ان کمپنیوں کو کنٹرول کرنے والے ہر بڑے سرمایہ دار ملک میں سرمایہ کاری کرنے والی فرموں اور مالیاتی اداروں کو مزید تقویت ملی۔

جبکہ کروڑ پتی اور ارب پتی زمین کے وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور ان پر قابض ہیں جبکہ محنت کش طبقہ اور دیہی عوام کو اس آفات کی قیمت ادا کرنی پڑھتی ہے۔ یورپ میں گزشتہ سال گرمی کی لہر سے 61,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جو کہ اس سال اتنے ہی یا اس سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے 33 ملین افراد بے گھر ہوئے۔ تقریباً 500 ملین لوگ جو مویشی پالتے ہیں اپنی روزی روٹی کھونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ تقریباً 1 بلین لوگوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے کیونکہ وہ جس زمین پر رزق کے لیے انحصار کرتے ہیں وہ انسانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت بنجر ہو گی ہے۔

دوسرے لفظوں میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ بنیادی طور پر ایک طبقاتی سوال ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ براہ راست اور تباہ کن طور پر محنت کش طبقے نے محسوس کیے ہیں اور بشمول خشک سالی، قحط، جنگل کی آگ اور سیلاب کا شکار ہوئے ہیں۔ اس میں ان تمام محنت کشوں کو شامل کیا جا سکتا ہے جو شدید موسم اور عالمی درجہ حرارت کے بے شمار دیگر نتائج کے نتیجے میں مزدوری کرتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔

اس لیے سرمایہ دار حکمران اشرافیہ کے کسی بھی طبقے سے تمام اپیلیں دیوالیہ پن ہیں۔ امریکہ میں ڈیموکریٹس یا ریپبلکنز کی قیادت میں یا یورپ میں کنزرویٹو یا سوشل ڈیموکریٹس کی قیادت میں بڑی سرمایہ دارانہ طاقتیں اس بحران سے نمٹنے میں نااہل اور عدم دلچسپی کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ وہ مختلف 'کاربن ٹریڈنگ' اسکیموں کے ذریعے خود کو مالا مال کرنے اور پورے ممالک پر حملہ کرکے تباہ کرنے میں کہیں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

کورونا وائرس وبائی مرض پر عالمی حکومتوں کا ردعمل اس بلند سماجی پرت کے مفادات کی مزید مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مہلک بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عالمی مہم شروع کرنے کے بجائے امریکہ اور ہر بڑی طاقت نے سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ سب سے پہلے کارپوریٹ منافع نہ کہ انسانی جانوں کی حفاظت یا اسکا دفاع کیا جائے۔ 'مہلک غفلت' کی بنیادی پالیسی نے ایک اندازے کے مطابق 24 ملین افراد کو ہلاک کر دیا ہے اور دسیوں ملین لانگ کووڈ سے متاثر ہوئے ہیں۔

جہاں تک متوسط ​​طبقے کی ماحولیاتی تحریکوں کا تعلق ہے ان کے ارتقاء کا مظہر گرینز پارٹیاں ہیں جو عسکریت پسندی کے حامی اور طبقاتی حکمرانی کے اہم آلات بن چکے ہیں۔ خاص طور پر جرمن گرین پارٹی جو سرمایہ داری کی حمایت کے نتیجے میں سامراجی جنگ کے سب سے پرجوش حامیوں میں سے ایک بن گئی ہے بشمول یوکرین میں روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ کی حمایت کے۔

ان پارٹیوں اور رجحانات کی سیاسی رفتار واضح کرتی ہے کہ عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے اور اس کو واپس پیچھے لانے یا روکنے کی کوئی بھی کوشش جو عالمی سطح پر سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے محنت کش طبقے کی تحریک کی بڑھوتی پر مبنی نہ ہوا جو ایک نا امیدی یوٹوپیا اور دیوالیہ پن ہے۔

عالمی درجہ حرارت میں ریکارڈ توڑ اضافہ اسی وقت ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں زبردست ہڑتالوں کی تحریک شروع ہو رہی ہے۔ ابھی پچھلے سال ہی آٹو، ہیلتھ کیئر اور لاجسٹکس کی صنعتوں میں شدید جدوجہد دیکھنے میں آئی ہے جس میں یو ایس پی ایس, یو پی ایس، ویسٹ کوسٹ ڈاکس اور بگ تھری آٹو کمپنیوں میں دھماکہ خیز طبقاتی لڑائیاں پہلے ہی ریاستہائے متحدہ میں ہی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ جس طرح کورونا وائرس وبائی امراض اور سامراجی جنگ کے خلاف لڑائی اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی بھی طبقاتی جدوجہد کی بڑھوتی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔

ان بڑھتے ہوئے محنت کش طبقے کی جدوجہد کو سوشلسٹ نقطہ نظر سے مسلح کرنے کے لیے فوری طور پر ضروری ہے کہ وہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عقلی بنیادوں پر معاشرے کی تشکیل نو کے لیے نہ کہ نجی منافع کے حصول کے لیے جدوجہد کو استوار کیا جائے۔ یہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے موسمیاتی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔

Loading