اُردُو
Perspective

یو ایس کریڈٹ میں کمی: گہرے ہوتے بحران کی ایک اور علامت

یہ 2 اگست 2023 کو انگریزی میں شائع 'US credit downgrade: Another sign of a deepening crisis' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

منگل کو فِچ ریٹنگ ایجنسی کی طرف سے ریاستہائے متحدہ کی طویل مدتی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی امریکی ریاست کے اندر گہرے ہوتے بحران کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج کے تاریخی معاشی اور مالیاتی زوال میں ایک اہم سنگ میل ہے۔

یہ کمی امریکی وفاقی قرضوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کی عکاسی کرتی ہے جو کہ نہ ختم ہونے والی جنگوں کی مالی اعانت کے لیے بڑھائے گے فوجی اخراجات کے ساتھ بینک اور کارپوریٹ بیل آؤٹ کے ایک سلسلے کی کڑی ہے۔

فِچ کا ڈاون گریڈ ٹریپل آے ریٹنگ سے پلس ڈبل آے تک تھا جس نے اسے 2011 میں اسٹینڈرڈ اینڈ پوورز کی اسی طرح کی کمی کے ساتھ ایک لائن میں کھڑا کر دیا جو حکومت کی قرض لینے کی مقرر حد سے تجاوز پر اوباما انتظامیہ کے دوران کانگریس میں تنازعہ کا باعث بنا۔

وال اسٹریٹ کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہوئے فچ نے مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت قرضوں کے بڑھتے ہوئے بحران کا جواب سماجی اخراجات میں کمی کے ذریعے محنت کش طبقے کی سماجی پوزیشن پر شدید حملے کے طور پر کرے۔

فِچ نے شکایت کی کہ 'بڑھتی ہوئی آبادی میں ضعیف عمر کے افراد کے اضافے کی وجہ سے سماجی تحفظ اور طبی اخراجات میں کمی کرنے سے متعلق درمیانی مدت کے چیلنجوں سے نمٹنے میں صرف محدود پیش رفت ہوئی ہے۔'

دوسرے لفظوں میں جب کہ بینک بیل آؤٹ اور فوجی اخراجات قرضوں کے بحران کا سبب بن سکتے ہیں لیکن وال سٹریٹ کا حل یہ ہے کہ آبادی کی اکثریت کو غریب اور بے بس کر دیا جائے۔

امریکی حکومت کے قرض کا دھماکہ خیز اضافہ کانگریس کے بجٹ آفس (سی بی او) کی طرف سے گراف میں دکھایا اور واضع کیا گیا جو اس کے حجم کی پیشن گوئی سے ظاہر ہوتا ہے۔

2007 میں عالمی مالیاتی بحران سے ٹھیک پہلے جب امریکی معیشت کی جاری طاقت کے بارے میں خوش فہمی اپنے عروج پر تھی تو سی بی او نے پیش گوئی کی تھی کہ ایک دہائی میں عوام کے پاس وفاقی قرضہ جی ڈی پی کے 22 فیصد تک گر جائے گا۔

لیکن یہ اب 100 فیصد کے قریب ہو چکا ہے سی بی او نے پیش گوئی کی ہے کہ 2031 میں یہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 107 فیصد ہوجائے گی۔

امریکی معیشت اور مالیاتی نظام کے گہرے ہوتے بحران کی وجہ سے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔

2008 کے مالیاتی بحران کا سامنا سیکڑوں بلین ڈالرز کی کارپوریٹ کو بیل آؤٹس کے ساتھ کیا گیا جو کہ فیڈرل ریزرو(امریکی مرکزی بنک) کی جانب سے سرمائے کی رسد میں بڑی مقدار میں اضافہ کے پروگرام کے تحت مالیاتی نظام میں رقم کے بڑے انجیکشن لگائے گے۔ سیکڑوں ارب ڈالر مزید کارپوریشنوں کو کوویڈ بحران کے حوالے سے دیئے گئے اسطرح فیڈ نے اور بھی مالیاتی منڈیوں میں مزید مقدار میں رقم انڈیلی۔

اس سال بینکنگ کے ایک سلسلے کے بحران کے طور پر گھبراہٹ کی وجہ سے اس سے نمٹنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے مؤثر طریقے سے یہ اشارہ کیا کہ تمام بینک ڈپازٹس کو وفاقی حکومت واپس روک دے گی۔

اور اس کے علاوہ امریکہ نے اپنے فوجی اخراجات کو ریکارڈ کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے جس میں آنے والے مزید اضافے کے ساتھ ساتھ بشمول کارپوریشنوں کو سبسڈیز دینے خاص طور پر ہائی ٹیک کے شعبوں میں اپنی کارروائیوں کو دوبارہ شروع کرنے کی غرض سے امریکہ چین کے خلاف اقتصادی جنگ کے حصے کے طور پر اس عمل کو تیز کر رہا ہے۔ 

فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے فچ نے کہا کہ کیا یہ 'گزشتہ 20 سالوں میں حکمرانی کے معیارات میں مسلسل گراوٹ' کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ گویا اس نکتے کو اجاگر کرنے کے لیے یہ اعلان اسی دن کیا گیا جب سابق صدر ٹرمپ کے خلاف 2020 کے انتخابی نتائج کو الٹانے کی کوششوں پر چار فرد جرم عائد کی گئیں۔

نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں کو تنزلی سے پہلے بریف کیا گیا تھا جہاں انہوں نے اپنی مخالفت کو ظاہر کیا تھا اور 'فچ کے نمائندوں نے بار بار 6 جنوری 2021 کی بغاوت کو امریکی گورننس کے بارے میں تشویش کے ایک پہلو کے طور پر اٹھایا تھا۔'

فنانشل ٹائمز کے کالم میں جو زیادہ تر فِچ رپورٹ سے اقتباسات کے لیے وقف ہے مصنف نے اس نتیجے پر نوٹ کیا کہ ' ایف ٹی کے میٹا ڈیٹا ٹول نے تجویز کیا کہ ہم اسے 'ابھرتی ہوئی مارکیٹوں' کے تحت لیبل کریں۔'

فچ کے ڈاون گریڈ کو بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں کی طرف سے سخت مذمت اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اسے 'نیچے کی سطح ' 'مضحکہ خیز' اور 'وسیع پیمانے پر اور صحیح طریقے سے مضحکہ خیز' کے طور پر بیان کیا۔

امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کہا کہ یہ فیصلہ 'من مانی اور پرانے ڈیٹا پر مبنی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'فچ کا فیصلہ امریکیوں، سرمایہ کاروں اور دنیا بھر کے لوگوں کو جو پہلے سے ہی جانتے ہیں ان کی رائے کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ یہ خزانے کی ضامن دنیا کا سب سے نمایاں محفوظ اثاثہ بن چکی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکی معیشت بنیادی طور پر مضبوط ہے۔'

اگر واقعی ایسا ہوتا تو حکومت کے اعلیٰ مالیاتی عہدیدار کو ایسا کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی مالیاتی نظام پچھلی ڈیڑھ دہائی کے دوران کئی بحرانوں کی زد میں ہے۔

2008 میں بینکاری نظام تباہی کے دہانے پر تھا۔ مارچ 2020 میں یو ایس خزانے کی مارکیٹ اس طرح منجمد ہوگئی کہ کئی دنوں تک امریکی حکومت کے قرض کے لیے عملی طور پر کوئی خریدار نہیں تھا جو کہ دنیا کا سب سے محفوظ اور سب سے زیادہ زر نقد اثاثے ہیں۔ اور اس سال مارچ میں امریکہ نے اپنی تاریخ کی چار بڑی بینکنگ ناکامیوں میں سے تین ریکارڈ کیں۔

کام میں فیصلہ کن طویل مدتی عمل بھی ہیں۔

اگست 1971 میں بریٹن ووڈس معاہدہ جو جنگ کے بعد کے مالیاتی نظام کے اہم ستونوں میں سے ایک تھا اس وقت منہدم ہو گیا جب امریکہ نے امریکی ڈالر سے سونے کی حمایت کو ہٹا دیا جو $35 فی اونس کی شرح سے قابل تلافی تھی۔

اس کے بعد سے عالمی مالیاتی نظام ڈالر کی بنیاد پر چل رہا ہے ایک فیاٹ کرنسی(جیسے حکوت اجرا کرتی ہے) کے طور پر کام کر رہا ہے۔جو سونے کی بنیاد پر حقیقی قدر کی طاقت نہیں رکھتا اس کی اہمیت دو عوامل پر منحصر ہے: ایک بڑی سرمایہ دارانہ طاقت کے طور پر امریکہ کا سیاسی استحکام اور اس کی معیشت اور مالیاتی نظام کی مضبوطی کی شکل میں۔

یہ دونوں بنیادیں اب بوسیدہ حالت میں داخل ہو گی ہیں۔

اس صورتحال کے بڑے معاشی اور سیاسی اثرات ہیں۔ ڈالر کے عالمی کردار کی وجہ سے امریکہ صرف کارپوریٹ بیل آؤٹ کو منظم کرنے مالیاتی نظام میں بظاہر نہ ختم ہونے والی رقم کو پمپ کرنے اور فوجی اخراجات کو ہمیشہ سے بڑے ریکارڈ تک پہنچانے میں کامیاب رہا ہے — جو کوئی دوسری حکومت نہیں کر سکتی —

فِچ کے فیصلے کی اہمیت ایک اور علامت بھی ہے کہ اسکی یہ پوزیشن خطرے سے دوچار ہے۔ ڈالر سے باہر تجارتی سودے طے کرنے کے لیے چین، برازیل، انڈیا اور سعودی عرب سمیت دیگر طاقتوں کی جانب سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

 دنیا کے دوسرے مرکزی بینک قدر کے زیادہ محفوظ اسٹور کے طور پر سونے کی اپنی خریداری میں اضافہ کر رہے ہیں اور امریکی حکومت کے قرض سے باہر نکلنے کے نتیجے کے باعث 25 ٹریلین ڈالر کا امریکی خزانے کی مارکیٹ کو بحران کا ہمیشہ سے خطرہ ہے۔

امریکی حکمران طبقہ اس گہرے ہوتے بحران کا جواب ’’دو محاذوں پر جنگ‘‘ کے ذریعے دے رہا ہے: اندرون ملک محنت کش طبقے کے خلاف اور بیرون ملک امریکی حریفوں کے خلاف۔

 اس تنزلی کو جسکا فِچ سماجی تحفظ اور طبی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے اشارہ کرتا ہے کا استعمال کیا جائے گا تاکہ محنت کش طبقے کی سماجی پوزیشن پر حملے کو تیز کیا جا سکے۔

اور نہ صرف امریکہ میں جیسا کہ آسٹریلین فنانشل ریویو نے نوٹ کروایا کہ یو ایس ڈاون گریڈ ' کی مالی گڑبڑ دوسری قوموں کے لیے ویک اپ کال' ہے ایک ایسی تفصیل جس کا اطلاق دنیا بھر کی حکومتوں پر کیا جا سکتا ہے جن کے قرضے ریکارڈ سطح تک بڑھ چکے ہیں۔

امریکی سامراج کا عالمی سطح پر آتش فشاں کی ماند پھٹ پڑنا جس کا اظہار یوکرین میں جنگ کے بڑھنے میں سب سے زیادہ فعال کردار کے طور پر کیا گیا ہے جو امریکہ کی جانب سے اپنی عالمی بالادستی اور فوجی ذرائع سے امریکی ڈالر کی بالادستی کو فروغ دینے کی کوشش کی نشاندہی کرتا ہے۔

جیسا کہ ہمیشہ چلا آ رہا ہے کہ معاشی بحرانوں کا مقابلہ طبقاتی جدوجہد سے کیا جائے گا۔ محنت کش طبقے کو ایک بین الاقوامی سوشلسٹ پروگرام کے لیے اپنی سیاسی جدوجہد اور اس کے لیے لڑنے کے لیے انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ضروت ہے جس کے ذریعے حکمران طبقے کے مسلسل بڑھتے ہوئے حملوں کا جواب دینا چاہیے۔

Loading