یہ 23 اگست 2023 کو انگریزی میں شائع 'Pakistan’s military strengthens hold over government, reinvigorates ties with Washington' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
واشنگٹن کی حمایت سے پاکستان کی فوج نے حالیہ ہفتوں میں اقتدار کی باگ ڈور پر اپنی پہلے سے مضبوط گرفت مضبوط کرنے کے لیے مزید اقدامات اٹھائے ہیں۔
قانونی اقدامات کی ضرورت کے تحت بدنام شدہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت نے گزشتہ ہفتے کے آغاز میں ایک 'قبل از انتخابات' نگران حکومت کو اقتدار سونپ دیا۔ عبوری وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے منتخب کیے گئے شخص انوار الحق فوج سے اپنے قریبی تعلقات کے لیے سخت طور پر بدنام ہیں۔
نگران حکومت کی قانونی حثیت 90 دن سے زیادہ حکومت کی نہیں ہے جو کہ قومی اسمبلی اور صوبائی انتخابات کا اہتمام کرنے کی پابند ہے۔ تاہم یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان کی فوج جسے حکمران اشرافیہ کی حمایت حاصل ہے ایک تیار شدہ بہانے کے تحت انتخابات کے التوا کرنے کا اشارہ دے رہی ہے جبکہ الیکشن کمیشن پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات ہونگے جس کے لیے نئے انتخابی اضلاع کی حد بندی کرنے کے لیے دو سے تین ماہ طویل عرصہ درکار ہوگا۔
پاکستان جو دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے سماجی، اقتصادی، سیاسی، جغرافیائی سیاسی اور ماحولیاتی بحرانوں سے دوچار ہے۔ اسلام آباد ریاست کے دیوالیہ پن کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مالی امداد پر انحصار کرتا ہے جب کہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ تلخ دھڑے بندیوں میں الجھی ہوئی ہے جس میں بنیادی طور پر یہ مسلہ بھی شامل ہے کہ چین اور امریکی سامراج کے درمیان بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تقسیم کو کیسے ختم کیا جائے۔
حکمران طبقے کے طاقتور طبقے اس نگران حکومت سے آس لگائے بیھٹے ہیں کہ اسکا فوج کے ساتھ قریبی تعاون ہے اور اس کی کمان میں بڑی حد تک کام کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کے عالم میں آئی ایم ایف کی طرف سے مسلط کردہ اقتصادی تنظیم نو کے نئے دور کو نافذ کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ جبکہ اس کی سیاسی جماعتوں کے درمیان دھڑے بندی کی جنگ کو کنٹرول بھی کرنا ہے۔
اپنے اقتدار کے پہلے دن نگران حکومت نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جس سے ملک کے غریب عوام کو ایک اور عذاب کا دھچکا لگا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جولائی میں قیمتوں میں 3.46 فیصد اضافہ ہوا جس سے سال بہ سال مہنگائی کی شرح 28 فیصد سے اوپر گئی۔
اس ہفتے کے شروع میں نگراں حکومت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور پاکستان آرمی ایکٹ میں انتہائی متنازعہ تبدیلیاں کیں جن کا مقصد فوج کو تنقید سے بچانا اور اس کے جرائم پر پرد ڈالنا بے۔ یہ ترامیم پاکستان کے صدر عارف علوی کے اعتراض پر منظور کی گئیں جو اب جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کے اتحادی ہیں جس نے ان کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔
وزیر اعظم کے طور پر اپنی تقرری تک انوار الحق کا سیاسی پروفائل کم تھا۔ لیکن وہ فوج کے ایک مضبوط اتحادی کے طور پر اچھی شہرت کے مستحق رہے ہیں۔ وہ اپنے آبائی صوبے بلوچستان میں قومی بنیاد پر علیحدگی پسند شورش کے خلاف اس کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کا سخت حامی رہا ہے اور جس میں بڑے پیمانے پر گمشدگیاں، تشدد اور دیگر جرائم شامل ہیں۔ عبوری وزیر اعظم کی تقرری کے لیے سبکدوش ہونے والی پاکستان مسلم لیگ (شریف) کی قیادت والی پی ڈی ایم حکومت اور مرکزی اپوزیشن جماعت جو کہ خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہے دونوں سے اسے اوپر کی اٹھان کی ضرورت تھی۔
ریاست کے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے 3 بلین ڈالر کے ہنگامی آئی ایم ایف قرض پر معاہدہ جون کے آخر میں آخری لمحات میں طے پایا تھا اور جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اس کی منظوری دے دی تھی۔ مہینوں تک جاری رہنے والی بات چیت کے دوران پاکستان کے حکومتی عہدیداروں نے بار بار امریکی زیر تسلط آئی ایم ایف پر 'مقاصد' کو منتقل کرنے کا الزام لگایا اور مزید سخت، عالمی سرمایہ کاروں کے حامی اقدامات کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ یہ بلاشبہ درست ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ ایک متوازی بیک چینل مذاکرات بھی ہوئے جس میں امریکی سامراج نے اسلام آباد سے اہم خفیہ مراعات حاصل کیں۔
واشنگٹن کے ساتھ نیا فوجی معاہدہ
اگست کے اوائل میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک اہم فوجی معاہدہ، 'کمیونیکیشن انٹرآپریبلٹی اینڈ سیکیورٹی میمورنڈم آف ایگریمنٹ' جو 15 سال بعد 2020 میں ختم ہو گیا تھا کی تجدید کر دی گئی۔ یہ معاہدہ دوسرے اہم امریکی اتحادیوں کے ساتھ اسی طرح کے معاہدوں کی طرح مشترکہ کارروائیوں پاکستانی فوجی اڈوں تک ممکنہ امریکی رسائی اور لاجسٹک سپورٹ اور ہتھیاروں کی فروخت کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔
1947-48 میں جنوبی ایشیا کی خونی فرقہ وارانہ تقسیم کے ذریعے پاکستان کی تخلیق کے بعد سے واشنگٹن نے ملک میں سفاکانہ فوجی آمریتوں کی حمایت کی ہے اور پینٹاگون اور پاکستانی فوج اور کرپٹ ظالم حکمران اشرافیہ کے درمیان اتحاد کو پاکستان کے ساتھ اس کے سرپرست اور کلائنٹ کے تعلقات کی بنیاد کے طور پر دیکھا ہے۔
امریکی سامراج کی بیجنگ کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں بھارت کو ایک فرنٹ لائن ریاست کے طور پر قبول کرنے نے پاکستان کو گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران چین کے ساتھ قریبی اقتصادی اور فوجی تعلقات استوار کرنے پر مجبور کیا جس میں 60 بلین ڈالر کا چین پاکستان اقتصادی راہداری بھی شامل ہے۔ نتیجتاً اسلام آباد کی واشنگٹن کے ساتھ روایتی شراکت داری بری طرح متاسر ہوئی ہے۔
اپریل 2022 میں عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کو فوج کی جانب سے حمایت واپس لینے کا اشارہ دینے کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا اور جس کے نتیجے میں حکومت پارلیمانی عدم اعتماد کا ووٹ کھو بیٹھی۔
اس کے بعد سے فوج اور اپنے 16 ماہ کے اقتدار کے دوران پی ڈی ایم حکومت نے امریکی سامراج کے ساتھ تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے۔ واشنگٹن اپنی جانب سے پاکستان کی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی کمزوریوں سے ان کی تمام تر قیمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔ ایسے بڑھتے ہوئے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان یوکرین کو روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی پراکسی جنگ کے لیے ہتھیار فراہم کر رہا ہے کسی تیسری ریاست یا ریاست کے زریعے ہی ہے۔ جولائی میں یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا جو کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد تین دہائیوں سے زائد عرصے میں یوکرین کے وزیر خارجہ کا پہلا ایسا دورہ ہے۔
ملک کے اندرونی محاذ پر ریاستی آلہ کار عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کے خلاف جبر کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب کہ خان کبھی فوج کے اعلیٰ افسران کا ایک حامی پٹھو تھا- جو کہ مئی کے اوائل میں نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج پھوٹ پڑے اور اس احتجاجی لہر نے فوجی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کا رخ کیا جس سے فوجی تنصیبات لرز اٹھی اور اب فوج انھیں مثالی سزا دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
پی ٹی آئی دائیں بازو کی اسلامی پاپولسٹ جماعت ہے۔ جس نے اگست 2018 میں شروع ہونے والے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت کے دوران آئی ایم ایف کے کہنے پر سفاکانہ اسٹریٹی کے اقدامات نافذ کیے۔ بہر حال پی ٹی آئی اس وقت ملک کی مقبول ترین جماعت مانی جاتی ہے۔ یہ فوج اسٹیبلشمنٹ دیگر پارٹیوں اور واشنگٹن کے خلاف عوام کے درمیان دشمنی کا ایک پیمانہ ہے جن کی نوآبادیاتی افغان جنگ میں غنڈہ گردی اور وحشیانہ طرز عمل پر خان نے بعض اوقات پاکستانی قوم پرست-اسلامی نقطہ نظر سے تنقید کی تھی۔
اس مہینے کے آغاز میں خان کو بدعنوانی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا اور پاکستان کے وزیر اعظم کے دوران انہیں دیے گئے تحائف سے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھانے کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بدعنوانی پاکستان کی اشرافیہ کے اندر ایک وبائی شکل اختیار کر چکی ہے اور ملک کی حکومتیں جن میں خان بھی شامل ہیں اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے بدعنوانی کے مقدمات کو معمول کے مطابق استعمال کرتے رہے ہیں جب کہ بے تابی سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ 8 اگست کو الیکشن کمیشن نے خان کی بدعنوانی کی سزا کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے انتخاب میں کھڑے ہونے پر پانچ سال کی پابندی جاری کر دی۔
خان کو دہشت گردی کے ممکنہ الزامات سمیت درجنوں دیگر بقایا فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکڑوں حامی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد قید ہیں جن کا مقصد گزشتہ مئی کے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کو کچلنا اور اپنے نمایاں فوج مخالف کردار کا بدلہ لینا ہے۔ کریک ڈاؤن نے پی ٹی آئی کی زیادہ تر قیادت کو بشمول بہت سے وہ لوگ جو پہلے مشرف آمریت میں اہم عہدیداروں کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے خان کی پی ٹی آئی کو چھوڑنے پر اکسایا گیا ہے۔
لیک شدہ سائفر عمران خان کی برطرفی میں واشنگٹن کے کردار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور خان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو گزشتہ ہفتے کے روز اس دعوے پر گرفتار کیا گیا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے امریکی سفیر سے 2022 کا ڈپلومیٹک سائفر (کوڈڈ کمیونیکیشن) لیک کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ واشنگٹن خان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے پر زور دے رہا ہے۔ یہ سائفر یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سامنے آیا جس کے جواب میں خان جو اس وقت روس کا دورہ کر رہے تھے نے پاکستان کی غیر جانبداری اور پیوٹن حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اعلان کرتے ہوئے جواب دیا تھا۔
سائفر کو اس ماہ کے شروع میں دی انٹرسیپٹ نے شائع کیا تھا۔ توقع ہے کہ قریشی پر نئے ترمیم شدہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی جائے گی۔
سائفر میں محکمہ خارجہ کے عہدیداروں کے درمیان ہونے والی ملاقات کا بیان بھی شامل ہے بشمول جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور کے بیورو کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونالڈ لو اور اسد مجید خان جو اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔
اس نے ڈونالڈ لو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے دھمکی آمیز چیزیں 'مشکل' ہوں گی جب تک کہ عمران خان کو عہدے سے ہٹایا نہیں جاتا۔ بائیڈن کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا نے کہا، ’’میرے خیال میں اگر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جاتا ہے تو واشنگٹن میں سب کو معاف کر دیا جائے گا کیونکہ روس کے دورے کو وزیر اعظم کے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری صورت میں 'انہوں نے جاری رکھا ورانہ 'مجھے لگتا ہے کہ آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔'
فوج نے انتخابات میں انجینئرنگ کرتے ہوئے عمران خان کو 2018 کے انتخابات میں ان دو جماعتوں پر فتح دلانے میں مدد کی جو کئی دہائیوں سے پاکستان کی انتخابی سیاست پر حاوی تھیں جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) یا پی ایم ایل (این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)۔ لیکن 2021 کے موسم خزاں میں فوجی اسٹبلشمینٹ کے ساتھ اہم ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی، آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری پر ہونے والے تصادم کے بعد اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لینے کے ان کے فیصلے اور عوامی احتجاج کے خوف کے پیش نظر انکے تعلقات خراب ہو گے۔ جو جنوری 2022 کے آئی ایم ایف کے حکم کے برخلاف تھے۔ روس کے ساتھ امریکہ-نیٹو جنگ پر خان کا موقف جسے فوج اور پاکستان کے بیشتر حکمران طبقے نے واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات کو غیر ضروری طور پر نقصان پہنچانے کے طور پر دیکھا اونٹ کی پھیٹ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔
اپریل 2022 میں خان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اس نے بار بار بیانات جاری کیے کے اُسے ایک غیر ملکی طاقت نے برطرفی کا منصوبہ بنایا ہے کا آلزام عائد کیا گیا۔ اس کے بعد پھر اُس نے ایک سینئر فوجی افسر پر اپنی حکومت کو ہٹانے کی کوششوں کی قیادت کرنے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران اس نے اس معاملے پر کئی یو ٹرنز لیے کبھی امریکہ اور فوج کے اعلیٰ افسران پر آلزام لگایا اور پھر ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیشکش بھی کرتے رہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے سائفر کی اشاعت کا جواب منافقانہ انکار اور عدم انکار کے ساتھ دیا۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ’’ان مبینہ تبصروں میں سے کچھ بھی یہ ظاہر نہیں کرتا کہ امریکہ اس بارے میں موقف اختیار کرتا ہے کہ پاکستان کا لیڈر کون ہونا چاہیے۔‘‘ (صرف کون نہیں ہونا چاہئے)۔ ملر نے پھر اعلان کیا کہ وہ نجی سفارتی بات چیت پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
پی ایم ایل (این) کے سربراہ اور پی ڈی ایم حکومت میں وزیر اعظم شہباز شریف نے دی انٹرسیپٹ پر سائفر کے لیک ہونے کو ایک 'بڑے پیمانے پر جرم' قرار دیا جب کہ اب سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان سے مطالبہ کیا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ 'خان نے ریاست کے مفادات کے خلاف سازش کی ہے اور ریاست کی جانب سے ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر مقدمہ چلایا جائے گا۔'
پی ڈی ایم کی حکمرانی کے تحت، آئی ایم ایف کی طرف سے مانگے گئے بے رحمانہ اسٹریٹی کے اقدامات کو لاگو کیا گیا۔ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب سے سماجی مصائب میں اضافہ ہوا ہے جس نے 33 ملین افراد کو متاثر کیا اور جس سے 1,700 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور ملک کے وسیع حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔
پاکستان کے محنت کشوں اور غریبوں کے حالات انے والے دنوں میں مزید خراب ہوں گے کیونکہ نگراں حکومت آئی ایم ایف کے مزید اسٹریٹی کے اقدامات کو لاگو کر رہی ہے اور پاکستان کی معیشت عالمی افراط زر، بڑھتی ہوئی شرح سود اور انتہائی سست رفتاری کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہے۔
بڑھتے ہوئے سماجی غصے اور بدامنی کا سامنا کرتے ہوئے پاکستانی حکمران طبقہ ماضی کی طرح ریاستی جبر کی بنیاد پر فوج کی قیادت میں اور اسلامی بنیاد پرستی اور فرقہ پرستی کو ہوا دے رہا ہے۔ پچھلے ہفتے دو عیسائیوں پر قرآن کی بے حرمتی کے دعوے کے ذریعے مشتعل ہجوم نے پنجاب کے ایک شہر جڑانوالہ میں کم از کم درجنوں گرجا گھروں کو جلا دیا اور 15 سے زیادہ کی توڑ پھوڑ کی اور ایک عیسائی محلے میں دہشت گردی کرتے ہوئے درجنوں گھروں میں توڑ پھوڑ کی۔