یہ 1 ستمبر 2023 کو انگریزی میں شائع 'India’s anti-Modi opposition electoral alliance: A right-wing political trap for the working class' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
بھارت کے حال ہی میں بنائے گئے حزب اختلاف کے انتخابی اتحاد کے رہنما ممبئی میں دو روزہ اجلاس منعقد کر رہے ہیں جس کا اختتام جمعہ کو ایک باضابطہ اجتماع کے ساتھ ہو رہا ہے۔
یہ اتحاد جو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو بالادستی پسند بی جے پی کی نو سالہ انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے لیے ایک 'ترقی پسند،' 'جمہوری' اور 'سیکولر' متبادل پیش کرنے کا دعویٰ کرتا ہے یہ اتحاد جو کہ 28 پارٹیوں پر مشتمل ہے۔ جن میں دو درجن جماعتیں ان میں نمایاں ہیں جیسا کہ: کانگریس پارٹی جو ماضی میں ہندوستانی بورژوازی کی قومی حکومت کی پسندیدہ پارٹی رہی تھی؛ ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے، نسلی علاقائی پارٹیاں جو بالترتیب مغربی بنگال اور تمل ناڈو پر حکومت کرتی رہی ہیں۔ سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) ذات پات پر مبنی علاقائی پارٹیاں جو گنگا کے میدانی ہندی پٹی کی ریاستوں کی سیاست میں اہم کھلاڑی ہیں۔ اور عام آدمی (کامن مینز) پارٹی ایک مبینہ اینٹی کرپشن پارٹی جو پنجاب اور قومی دارالحکومت علاقہ دہلی میں حکومت کی سربراہی کرتی ہے۔
ان تمام جماعتوں نے بشمول کانگریس پارٹی نے اقتدار میں آ کر ہندوستانی بورژوازی کے بے رحم نواز سرمایہ کار ایجنڈے کو جیسا کہ ڈی ریگولیشن، پرائیویٹائزیشن، غیرمعمولی کنٹریکٹ لیبر روزگار کے فروغ اور بڑے کاروباریوں اور امیروں کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی حمایت کی ہے۔ وہ سبھی ہندوستان کی تیز رفتار فوجی سازی اور 'انڈو-یو ایس گلوبل اسٹریٹجک پارٹنرشپ' کی بھی حمایت کرتے ہیں جس کے ذریعے نئی دہلی کو چین کے خلاف امریکی سامراج کے فوجی اسٹریٹجک حملے میں مزید مکمل طور پر شامل کیا گیا ہے۔
ان تمام سٹالنسٹ پارلیمانی پارٹیوں جیسا کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) یا سی پی ایم، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) اور ماؤسٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن نے بورژوازی کو ہر موڑ پر سہارا دیا ہے۔ وہ حزب اختلاف کے اتحاد کے سب سے پرجوش ارکان میں سے ایک ہیں اور اس کے مقصد کی مکمل حمایت کرتے ہیں: ہندوستانی بورژوازی کو ایک متبادل دیتے رہیں ہیں اور اب ایک اور دائیں بازو کی حکومت کی تیاری کی جانب رواں ہیں۔
حزب اختلاف کے اتحاد کے رجعتی کردار کو جس نے خود کو انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس یا انڈیا کا نام دیا ہے اس کے اندر نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، بھارت کی تیسری سب سے بڑی ریاست بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اس اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ جنتا دل (متحدہ) 1997 سے 2014 تک اور پھر 2017 سے پچھلے سال اگست تک نتیش کمار اور اس کی جنتا دل (یونائیٹڈ) یا اس کی پیشرو سمتا پارٹی، بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد اور اس کی حکومتوں کا پہلے وہ اٹل واجپائی کے اور پھر مودی کے تحت حصہ رہی تھیں۔ دریں اثنا بہار میں بی جے پی نے بار بار جے ڈی (یو) کی سربراہی والی مخلوط حکومتوں میں جونیئر پارٹنر کے طور پر کام کیا۔
یہ نتیش کمار ہی تھے جنہوں نے نوزائیدہ اتحاد کی پہلی میٹنگ بلائی اور اس کی صدارت کی جو 23 جون کو پٹنہ میں منعقد ہوئی تھی اور اس میں 16 اپوزیشن جماعتوں نے شرکت کی تھی۔ حالیہ ہفتوں میں کمار نے بارہا واجپائی کی تعریف کی ہے جو بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم ہیں اور مودی کی طرح ہندو بالادستی آر ایس ایس کے تاحیات رکن ہیں۔ اس میں واجپائی کو گزشتہ ماہ ان کی برسی پر دہلی میں ان کی یادگار پر عوامی طور پر خراج عقیدت پیش کرنا بھی شامل تھا۔ ایسا کرنے سے کمار یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ جے ڈی (یو) دوسرے آپشنز کو برقرار رکھے گا اگر اسے وہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے جو اس کے خیال میں ہندوستانی اتحاد میں اس کا حق ہے۔
ممبئی میں ہونے والی میٹنگوں کی میزبانی سرکاری طور پر ادھو بالا صاحب ٹھاکرے کر رہے ہیں جو شیو سینا کے دو حریف دھڑوں میں سے ایک کے سربراہ ہیں جو ان کے والد کی قائم کردہ فاشسٹ پارٹی ہے اور بدنام زمانہ مہارٹہ شاونسٹ اور فرقہ پرست بال ٹھاکرے کے نام سے مشہور ہیں۔ اگرچہ نتیش کمار فرقہ واریت کے مخالف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن شیو سینا (اُدھو بالا صاحب ٹھاکرے) ہندوتوا کی چیمپیئن ہیں یہ وہ زہریلا ہندو بالادستی کا نظریہ ہے جس پر بی جے پی اور مودی عمل پیرا ہیں۔
اس ہفتے کی میٹنگ میں انڈیا اتحاد کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ ایک 'مشترکہ کم سے کم پروگرام' کے ساتھ میدان میں آئیں گے جس میں ممکنہ طور پر ان اہم پالیسیوں کا خاکہ پیش کیا جائے گا جن پر وہ عمل پیرا ہوں گے اگر وہ بی جے پی اور اس کے این ڈی اے کو ہونے والے موسم بہار 2024 کے لیے عام انتخابات میں ناکام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اب تک انہوں نے اس سماجی بحران کے بارے میں صرف مبہم اور سب سے زیادہ متوقع الفاظ میں بات کی ہے جو ہندوستان کو تباہ کر رہا ہے جس میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری، مقامی غربت اور حکومتی بڑے کاروباری بدعنوانی کے گٹھ جوڑ کی مذمت کی ہے۔
کچھ سب سے اہم شرکا جیسے ڈی ایم کے، سٹالنسٹوں کی حمایت کے ساتھ انڈیا(اتحاد) پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ریزرویشن میں توسیع کا مطالبہ کریں خاص کر دلتوں اور دیگر تاریخی طور پر مظلوم ذات پات کے گروہوں کے لیے کوٹے کی قسم کو پرائیویٹ سیکٹر میں یقینی بنائے۔ جب کہ اسے 'سماجی انصاف' کے لیے ایک چال کے طور پر بی جے پی کی ہندو فرقہ پرستانہ اپیلوں کے جواب کے طور پر متبدل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ذات پات کے گروہوں کے لیے ریزرویشن کے نظام کو مزید وسعت دینے کے مطالبات شدید رجعتی ہیں۔ وہ محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے اور سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے پیدا ہونے والے مصائب کی مزید 'منصفانہ' تقسیم کے لیے اسے ایک برادر کشی کی جدوجہد میں شامل کرنے کا کام کرتے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعتیں جو بھی مشترکہ کم سے کم پروگرام تجویز کرتی ہیں اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کے بارے میں بہت کم کہے گی۔ لیکن واضح رہے کہ کانگریس پارٹی نے چین کے ساتھ تین سال پرانے سرحدی تعطل میں زیادہ جارحانہ موقف اختیار نہ کرنے پر دائیں جانب سے بی جے پی حکومت پر بار بار وار کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے قومی کنوینر اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنی طرف سے تمام چینی اشیاء کے 'قومی بائیکاٹ' کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعہ کو ہونے والے اپوزیشن کے اجلاس میں سیٹوں کی تقسیم کے انتہائی متنازعہ سوال کو بھی زیر بحث لایا جائے گا اور اس میں ایک اتحادی کنوینر کا نام لیا جا سکتا ہے، حالانکہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ کچھ جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں کیونکہ اس کے ممکنہ اثرات وزیر اعظم کے امیدوار کے مستقبل پر پڑ سکتے ہیں۔.
بدنام جماعتوں کا رجعتی اتحاد
انڈیا (اتحاد) ایک سیاسی دھوکہ ہے۔ یہ بڑی حد تک بدنام شدہ سرمایہ دارانہ جماعتوں کا رجعتی اتحاد ہے جو بورژوا طبقے کے لیے بی جے پی سے کچھ کم نہیں ہے جو بدعنوانی، ذات پرستی، علاقائی شاونسٹ سیاست اور اپنے سیکولر دکھاوے کے باوجود فرقہ پرستی میں مبتلا ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 18 جولائی کو بنگلور میں منعقدہ اپنے دوسرے اجلاس میں حاضری میں موجود 26 جماعتوں نے ایک مختصر قرارداد منظور کی جس میں 'اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تشدد پیدا کرنے' کی مذمت کی گئی اور دلت، آدیواسی (قبائلی عوام) اور کشمیری پنڈتوں کا نام لیا گیا جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا جو بی جے پی اور اس کے ہندو دائیں اتحادیوں کی طرف سے بے عزتیوں اور دھمکانے کی مسلسل مہم کا نشانہ ہیں۔
بھارت کی پانچویں بڑی ریاست مدھیہ پردیش میں کانگریس پارٹی اس سال کے آخر میں ہونے والے ریاستی انتخابات کی تیاری کر رہی ہے اور بی جے پی کو ہرانے کی کوشش میں انتہائی دائیں جانب سے وار کر رہی ہے۔ اس نے حال ہی میں اپنی صفوں میں بجرنگ سینا کے نام سے ایک ہندوتوا کی حمایت کرنے والی تنظیم کے ساتھ اتحاد کیا۔ یہ کانگریس ہی ہے جس نے شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) کو ایک 'ترقی پسند' اتحادی اور قابل قدر ہندوستانی حلقہ کے طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسطرح کی اور بہت سی حماقتیں کرتی چلی آئی ہے۔
اپوزیشن اتحاد نیچے سے سماجی مخالفت کے جمع ہونے والے طوفان کے خوف سے پیدا ہوا ہے۔ پرائیویٹائزیشن، کنٹریکٹ لیبر، اجرتوں کی عدم ادائیگی اور ملازمتوں میں کٹوتیوں کے خلاف ہندوستان بھر میں مزدوروں کی اکثر دھماکہ خیز طویل جدوجہد ہوتی آ رہی ہے۔
جب کہ بی جے پی ہندوستان کی 'دنیا میں بے مثال ' ترقی کی شیخی بگھار رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان بڑے پیمانے پر سماجی عدم مساوات سے دوچار ہے جہاں امیر ترین 1 فیصد ہندوستانی غریب ترین 70 فیصد آبادی سے چار گنا زیادہ دولت کے مالک ہیں۔
کوویڈ- 19 وبائی بیماری اور اب یوکرین میں روس کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی طرف سے شروع کی گئی جنگ سے پیدا ہونے والے معاشی جھٹکوں نے بھوک اور غذائی قلت کو بڑھا دیا ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکانومی کے مطابق 7.9 فیصد آبادی بے روزگار ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہے جس میں بے روزگاروں کے لیے ریاستی کوئی الاؤنس نہیں دیا جاتا ہے۔
فرقہ پرستی کے اپنے مسلسل فروغ کے ذریعے بی جے پی سماجی و اقتصادی بے چینی اور مایوسی کو کسی بھی چیلنج سے ہٹا کر سرمایہ دارانہ استحصال کی طرف موڑنا اور محنت کش طبقے کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔
جب وہ ہندو حق کے ساتھ موافقت کرتے ہیں حزب اختلاف کی جماعتیں حکمران طبقے کے اس خوف کو آواز دیتی ہیں کہ بی جے پی کی بزدلانہ فرقہ پرستی اور بڑھتی ہوئی آمریت اور لاقانونیت فوج، عدالتوں اور دیگر ریاستی اداروں کو خطرناک حد تک بدنام اور غیر مستحکم کر رہی ہے جس پر اس طبقے کا انحصار ہے۔
حزب اختلاف کا اتحاد بھی بی جے پی کے ہاتھوں طاقت پر اجارہ داری کے خوف سے متحرک ہے جو پارلیمانی اصولوں اور ہندوستان کے وفاقی آئین کے خلاف روش چلانا پر مشتمل ہے۔ مودی اور ان کے سرغنہ وزیر داخلہ امیت شاہ کی مثال سامنے ہے کہ بی جے پی اپنے بورژوا سیاسی مخالفین کو نیم غدار سمجھتی ہے بار بار یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ وہ غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر ہندوستان کا نام بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں یا مسلمانوں کی 'توثیق' پر عمل پیرا ہیں۔
اگرچہ پچھلی ہندوستانی حکومتوں نے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے بدعنوانی کے الزامات اور مجرمانہ تحقیقات میں ہیرا پھیری کی ہے لیکن مودی حکومت نے اسے ایک نئی سطح پر پھنچا دیا ہے۔ مارچ میں راہول گاندھی کانگریس پارٹی کے ڈی فیکٹو لیڈر اور ہندوستان کی عظیم اولڈ پارٹی کو کنٹرول کرنے والے نہرو-گاندھی خاندان کے جانشین کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی اور اسکے نتیجے میں پارلیمنٹ میں ان کی نشست چھین لی گئی اور اس پر جھوٹے مقدمات بنائے گے یہ مودی کی آبائی ریاست گجرات میں راہول گاندھی پر عدالتوں نے سیاسی طور پر محرک فیصلے سنائے تھے۔ پچھلے مہینے سپریم کورٹ نے گاندھی کی سزا کو ایک طرف رکھتے ہوئے انہیں ان کی اپیل کے نتیجہ میں پارلیمنٹ میں واپس آنے کی اجازت دی گی۔
سٹالنسٹ - ہندوستان کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا ایک انتہائی قابل قدر گروہ
سٹالنسٹوں اور ان کے بایاں محاز کے لیے انتخابی حمایت میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کو آگے بڑھانے اور ان ریاستوں میں سرمایہ کاروں کی حامی پالیسیاں نافذ کرنے کا نتیجہ ہے جہاں پر وہ حکومت میں تھے۔ آج سٹالنسٹ بھارت کی 28 ریاستوں میں سے صرف ایک میں حکومت کی قیادت کر رہے ہیں صرف کیرالہ میں اور سی پی ایم اور سی پی آئی کے پاس پارلیمنٹ کے 543 رکنی ایوانِ زیریں لوک سبھا میں صرف پانچ ارکان ہیں۔
تاہم سٹالنسٹوں نے انڈیا (اتحاد) کے خستہ انتخابی بلاک کو ایک ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور خاص طور پر کانگریس پارٹی کے نقط نظر سے دیکھا جاتا ہے جس نے گزشتہ 75 سالوں میں ہندوستان کی قومی حکومت کی قیادت کی ہے اور انکے بورژوازی کے ساتھ انتہائی گہرے تعلقات ہیں۔ جو بی جے پی مخالف اتحاد کے ایک اہم جزو کے طور پر ہے۔
سٹالنسٹوں سے یہ ہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپوزیشن اتحاد کو اشد ضرورت 'ترقی پسند' رنگ فراہم کریں گے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی ٹریڈ یونین فیڈریشنوں کے ذریعے محنت کش طبقے کے اہم حصوں پر سیاسی اثر و رسوخ کو جاری رکھے ہوئے ہیں- جس اثر کو وہ طبقاتی جدوجہد کو دبانے کے لیے استعمال کریں گے اور مزدوروں اور دیہی محنت کشوں کے بڑھتے ہوئے غصے کو کانگریس اور انڈیا کے اتحاد کے پیچھے زائل کر دیں گے۔
گزشتہ ماہ کولکتہ میں ایک ریلی میں سیاسی طور پر سی پی ایم کے اتحادی سینٹر آف انڈیا ٹریڈ یونینز (سی آئی ٹی یو) کی قیادت میں اور جس میں کانگریس اور دیگر بڑی کاروباری جماعتوں سے وابستہ افراد سمیت متعدد یونینز اور یونین فیڈریشنز نے شرکت کی تھی یونینوں نے اعلان کیا کہ ان کا مرکزی ہدف آنے والے انتخابات میں بی جے پی حکومت کو انڈیا اتحاد کے ذریعہ تبدیل کرنا ہے۔ یہ نعرہ ’’مودی ہٹاؤ، ملک بچاؤ‘‘ میں سمویا گیا تھا۔
تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سٹالنسٹوں نے مرکز اور ریاستوں میں 'فاشسٹ بی جے پی' سے لڑنے کے نام پر ایک کے بعد ایک دائیں بازو کی حکومت کی حمایت کی ہے۔ محنت کش طبقے کو سیاسی طور پر دبایا گیا اور سرمایہ دارانہ بحران کے اپنے سوشلسٹ حل کو آگے بڑھانے سے روکا گیا جس کی وجہ سے ہندو حق کی طرف سے خطرہ بڑھتا ہی چلا گیا۔
آج، ہندوستانی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ادارے باقی دنیا کی طرح ٹوٹ پھوٹ اور گَل سڑ کے عمل کا شکار ہیں۔ سٹالنسٹ محنت کش طبقے کو ہندوستانی ریاست اور کانگریس اور دیگر دائیں بازو کی ذاتوں بشمول فرقہ پرست اور نسلی شاونسٹ پارٹیاں کے ساتھ جکڑنے کی اپنی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔
محنت کشوں اور سوشلسٹ سوچ رکھنے والے نوجوانوں کو ایک بالکل مختلف اور مخالف نقط نظر دینا چاہیے۔ جمہوری حقوق کے دفاع اور فرقہ وارانہ ردعمل کو شکست دینے کی جدوجہد طبقاتی جدوجہد پر مبنی ہونی چاہیے۔ اسے سماجی مساوات، سامراجی جنگ اور امریکی سامراج کے ساتھ ہندوستانی بورژوازی کے استبدادی اتحاد کے خلاف جوڑتے ہوئے اپنی جہدوجہد تیز کرنی چاہیے۔
اس کا تقاضا ہے کہ محنت کش طبقہ اپنی جدا جدا جدوجہد کو متحد کرے اور خود کو ایک آزاد سیاسی طاقت کے طور پر تشکیل دے، ہندوستانی سرمایہ داری اور اس کے تمام سیاسی نمائندوں کے خلاف جدوجہد میں دیہی عوام کی قیادت کرتے ہوئے اسے اکٹھا کرے اور سوشلسٹ تبدیلی کے لیے پرعزم محنت کشوں اور کسانوں کی حکومت کے لیے آگے بڑھے جو کہ جنوب ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن اور دنیا میں عالمی سوشلزم انقلاب کی جانب ایک انقلابی قدم ہو گا۔