یہ 12 ستمبر 2023 میں انگریزی میں شائع 'The global implications of the auto struggle in the United States' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
48 گھنٹے سے بھی کم وقت میں رات 11:59 پر جمعرات کو ایسٹرن وقت کے مطابق جنرل موٹرز، فورڈ اور سٹیلنٹِس میں 150,000 امریکی مزدوروں پر مشتمل معاہدے ختم ہو جائیں گے۔ کینیڈا میں اضافی 18,000 آٹو ورکرز کا احاطہ کرنے والے معاہدے چار دن بعد 18 ستمبر کو ختم ہو رہے ہیں۔
جیسے جیسے ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے یونائیٹڈ آٹو ورکرز بیوروکریسی اس جنگ کو ختم کرنے یا اس کے اثرات کو سختی سے محدود کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ منگل کی شام شائع ہونے والی ڈیٹرائٹ فری پریس میں ایک رپورٹ کے مطابق، یو اے ڈبلیو کے صدر شان فین 'اسٹریٹجک سٹرائیکس' کا اعلان کرنے کی تیاری کر رہے ہیں- یعنی اگر کسی معاہدے کا اعلان نہیں کیا جاتا ہے تو صرف مٹھی بھر فیکٹریوں کے لیے کوئی الگ تھلگ طریقہ کار کا انتخاب اٹھایا جائے گا۔ حالیہ دنوں میں، یو اے ڈبلیو مزدوروں کے بنیادی مطالبات سے منہ موڑ لیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے صورتحال پر بغور نگرانی کی جا رہی ہے جو یو اے ڈبلیو اپریٹس کے ساتھ روزانہ رابطے میں ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے جو بات جیت کی جا رہی ہے وہ معاہدوں کا مواد نہیں ہے جو بہت پہلے لکھے گئے تھے کہ کس طرح مزدوروں کو دھوکہ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
تاہم مزدورو میں غصہ اور لڑنے کا عزم بڑھ رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر اجرت میں اضافہ، درجات کے خاتمے زندگی بسر کرنے کی لاگت کی ایڈجسٹمنٹ (سی او ایل اے) اور مکمل طور پر فنڈڈ پنشن، تمام عارضی مزدوروں کی فوری طور پر کام پر لگنا اور چھانٹی اور پلانٹ کی بندش کا خاتمہ کے خلاف مزدوروں نے 97 فیصد ووٹ دیا ہے۔
بڑھتا ہوئے طبقاتی تصادم کے بہت بڑے قومی اور عالمی اثرات ہیں۔
آٹو ورکرز کے درمیان ابھرتی ہوئی بغاوت مزدور طبقے کے حقوق اور زندگی کے حالات پر 40 سال کے حملوں کے بعد سامنے آئی ہے۔ 1980 کی دہائی میں، اے ایف ایل۔ سی آئی او بیوروکریسی کی مدد سے امریکی حکمران طبقے نے پٹکو، ہرمل، گرے ہاؤنڈ، فیلپس ڈاج اور بہت سی دیگر جگہوں پر طاقتور جدوجہد کو کچل دیا اور کئی دہائیوں تک طبقاتی جدوجہد کو مصنوعی طور پر دبانے کا آغاز کیا۔ جس سے محنت کش طبقے کے معیار زندگی کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔
لیکن کئی دہائیوں پر محیط وہ دور جس میں حکمران طبقہ ٹریڈ یونین بیوروکریسیوں کی مدد سے امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کو دبا سکتا تھا ختم ہو چکا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے امریکہ میں طبقاتی جدوجہد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اس نے جو بنیادی شکل اختیار کی ہے وہ بیوروکریٹک اپریٹس کے ساتھ ہمیشہ سے زیادہ تلخ تنازعہ ہے جو محنت کش طبقے کو کارپوریشنوں اور ریاست کے مفادات کے تابع کرنے کے لیے وقف ہے۔
اس جدوجہد میں محنت کش طبقے کا مقابلہ صرف چند لالچی کارپوریشنوں سے نہیں ہے۔ بلکہ حکمران اشرافیہ کی پوری سیاسی پالیسوں کا سامنا ہے یعنی امیروں کی بیل آؤٹ، سماجی عدم مساوات کی انتہائی بلندی اور نہ ختم ہونے والی جنگ کے لیے محنت کشوں کی ملازمتوں اور معیار زندگی پر مسلسل حملے رواں رکھے ہوئے ہیں۔
ریاستہائے متحدہ میں طبقاتی جدوجہد ہمیشہ تلخ تشدد کی طرف مائل رہی۔ یہ نہ صرف امریکہ میں طبقاتی تعلقات کی اندرونی حرکیات کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ امریکہ غالب سامراجی طاقت کے طور پر ابھرا، عالمی سرمایہ داری کے تمام دباؤ اور تضادات امریکہ کے اندر ہی مرتکز ہو گئے۔
20 ویں صدی کے بیشتر عرصے میں امریکی سامراج کی بڑھتی ہوئی طاقت اور تسلط کے پس منظر میں طبقاتی جدوجہد سامنے آئی۔ نتیجے کے طور پر امریکی سرمایہ داری کی عالمی پوزیشن کی مضبوطی نے حکمران طبقے کو محنت کش طبقے کو کچھ رعایتیں دینے کی صلاحیت عطا کی حالانکہ ایسی رعایتیں ہمیشہ سماجی انقلاب کے خوف سے محرک ہوتی تھیں یہ خوف جو کہ روس کے 1917 انقلاب میں حقیقت بن گیا تھا۔
تاہم نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جب سے جانسن انتظامیہ نے اس حقیقت کا سامنا کیا کہ 'عظیم معاشرے' کی بیان کردہ خواہشات کو ویتنام کی جنگ کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا جس نے سماجی ردِ انقلاب کی پالیسی کو حرکت دی۔ حکمران طبقے نے امریکی سرمایہ داری کی معاشی حالت کی خرابی پر محنت کش طبقے پر زبردست حملہ کیا۔ اس میں سوشلسٹ مخالف ٹریڈ یونین اپریٹس کی مدد اور حوصلہ افزائی کی گئی جس نے خود کو کارپوریٹ مینجمنٹ کے ایک بازو میں تبدیل کیا۔
محنت کش طبقے کی آج کی جدوجہد بالکل مختلف حالات میں ہو رہی ہے۔ حکمران طبقے نے 1989-91 میں سوویت یونین کی تحلیل کو سرمایہ دارانہ استحکام کے نئے جنم کے طور پر منایا لیکن دنیا اس طرح سے نہیں ابھری جیسا کہ حکمران طبقے نے پیش گوئی کی تھی۔
30 سال سے زائد عرصے بعد امریکی حکمران طبقے کو معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا قرض دہندہ نہیں ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ہے جو دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کی بڑھتی ہوئی غیر یقینی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے لڑ رہا ہے۔ امریکی سامراج کی نہ ختم ہونے والی جنگ کے ذریعے اپنی غالب عالمی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش نے ایک کے بعد دوسری شکست کھائی اور اب تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
امریکہ میں سماجی صورتحال جسے کبھی 'دنیا کا امیر ترین ملک' کہا جاتا تھا ایک تباہی سے دوچار ہے جس کی خصوصیت بڑھتی ہوئی غربت اور عدم مساوات کی ریکارڈ سطح ہے۔ معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ نے امریکی زبان سے 'لامحدود مواقع کی سرزمین' جیسے جملے کو مٹا دیا ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں امریکہ میں کوویڈ -19 وبائی مرض سے 10 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں حکمران طبقے کی جانب سے صحت عامہ کے بنیادی اقدامات کرنے سے انکار کی وجہ یہ تھی کہ وال سٹریٹ کے شَیرز کی قیمتیں گر جائیں گے۔
جہاں تک سیاسی نظام کا تعلق ہے یہ امیروں کے ہاتھوں میں ایک آلہ کے طور پر تیزی سے بدنام ہو رہا ہے۔ کسی بھی اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ بحران کا جواب دینے سے قاصر ہے اور حکمران اشرافیہ فاشزم اور آمریت کی طرف متوجہ ہیں۔
محنت کش طبقہ امریکی معاشرے کے پاگل پن اور بے عملی سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہے۔ 2010 میں اپنائے گئے اپنے پروگرام میں سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی نے لکھا، 'آخری تجزیے میں امریکی سرمایہ داری کی وسیع دولت اور طاقت محنت کش طبقے کو کارپوریٹ کنٹرول والے دو پارٹی نظام کے تابع کرنے کا سب سے اہم مقصد تھا۔ جب تک ریاست ہائے متحدہ ایک بڑھتی ہوئی معاشی طاقت تھی جسے اس کے شہریوں نے 'لامحدود مواقع کی سرزمین' کے طور پر سمجھا جس میں قومی دولت کا کافی حصہ زندگی کے بڑھتے ہوئے معیارات کو پورا کرنے کے لیے دستیاب تھا تو اُس دوران امریکی مزدور سوشلسٹ انقلاب کی اس ضرورت کے قائل نہیں تھے۔
تاہم معروضی حالات میں تبدیلی امریکی مزدوروں کو اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کرے گی۔ سرمایہ داری کی حقیقت محنت کشوں کو معاشرے کی معاشی تنظیم میں بنیادی اور انقلابی تبدیلی کے لیے لڑنے کی بہت سی وجوہات فراہم کرے گی۔
اب یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ حکمران طبقے کا وحشیانہ جبر کا دبائو ٹوٹ رہا ہے۔ رینک اینڈ فائل کمیٹیوں کی بڑھوتی محنت کش طبقے کی تنظیمیں جو بیوروکریسی کے زیر کنٹرول نہیں ہیں پورے امریکہ میں زور پکڑ رہی ہے۔
تاہم طبقاتی جدوجہد کی ترقی صرف ہڑتال کی تحریک کی شکل اختیار نہیں کرے گی۔ یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ معاشرے کی بنیادی تنظیم نو ضروری ہے۔
اس کا اظہار پچھلے سال آٹو ورکر ول لیہمن کی یو اے ڈبلیو کے صدر کے لیے مہم کی وسیع حمایت میں ہوا۔ لیمن جس نے واضع اور صاف طور پر سوشلسٹ اور انٹرنیشنل ورکرز الائنس آف رینک-اینڈ-فائل کمیٹیوں (آئی ڈبلیو اے- آر ایف سی) کے حامی کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے تھے نے یونین اپریٹس کی طرف سے بڑے پیمانے پر مزدوروں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے باوجود بھی تقریباً 5,000 ووٹ حاصل کیے بہت سے مزدوروں کو بیروکریسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ الیکشن بھی ہو رہا ہے۔
ایک بار پھر ریاستہائے متحدہ کے اندر ہونے والے واقعات کے بین الاقوامی اثرات ہوں گے۔ ایک باہمی تعلق پر مبنی عمل چل رہا ہے۔ جس طرح امریکی سامراج کے عالمی بحران کا مکمل اثر طبقاتی کشمکش کو اندرونی طور پر ایک غیر معمولی دھماکہ خیز کردار دیتا ہے، اسی طرح امریکہ میں طبقاتی کشمکش کے بڑھنے سے پوری دنیا پر اس کے ریڈیکلیز اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی آٹو ورکرز کے درمیان رینک اینڈ فائل کی تحریک کا ظہور عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی ایک طاقتور تحریک کی بڑہوتی کا حصہ ہے۔ ہر براعظم میں حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں میں لاکھوں افراد شامل ہیں جو کہ عالمی سطح پر مربوط محنت کش طبقے کے نمائندے ہیں جو گزشتہ 30 سالوں میں اربوں کی تعداد میں بڑھ چکے ہیں۔
اس معروضی صورتحال کے اندر طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ تحریک کے پورے تاریخی تجربے پر مبنی محنت کش طبقے میں ایک انقلابی قیادت کی تعمیر بنیادی سیاسی کام ہے۔