اُردُو
Perspective

واشنگٹن ڈی سی "اسرائیل کے لیے مارچ": نسل کشی کے لیے دونوں پارٹیوں کی مشترکہ ریلی

یہ 15 نومبر 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے  'The Washington D.C. 'March for Israel': A bipartisan rally for genocide' والے اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

بائیں جانب سے لوزیانا کے ہاؤس کے اسپیکر مائیک جانسن، نیویارک کے ہاؤس اقلیتی رہنما حکیم جیفریز نیویارک کے سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر اور دائیں جانب سین. جونی ارنسٹ، ریپبلکن-آئیوا، نسل کشی کے حامی مارچ میں ہاتھ ملا رہے ہیں۔ منگل 14نومبر 2023 کو اسرائیل کے لیے واشنگٹن کے نیشنل مال پر۔ [اے پی فوٹو/مارک شیفیلبین] [AP Photo/Mark Schiefelbein]

منگل کے روز واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل مال میں ایک ذلیل اور رسوا کن تماشا ہوا 'اسرائیل کے لیے مارچ' کو نسلی تطہیر اور نسل کشی کے لیے ایک ریلی کے طور پر تاریخ میں درج کیا جائے گا۔

ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے غزہ کے لوگوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ کی حمایت کا اعلان کیا جس میں 4000 سے زائد بچوں سمیت کم از کم 11,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ چند گھنٹے بعد بظاہر ریلی کے ساتھ مربوط ایک اقدام میں اسرائیلی ٹینکوں اور بلڈوزروں نے الشفا ہسپتال پر حملہ کیا جو تازہ ترین صریح جنگی جرم ہے۔

ان حالات میں ریلی میں سب سے زیادہ مقبول نعرہ 'جنگ بندی نہیں! کوئی جنگ بندی نہیں!' جس کا مطلب واضع طور پر یہ ہے 'نسل کشی، نسل کشی، مزید نسل کشی!'۔

یہ ریلی حکمران طبقے کی جانب سے اپنے اقدامات کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کی ایک مایوس کن کوشش تھی جو کہ وجود نہیں رکھتی ہے۔ اسے پوری سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی جس میں امریکی سینیٹ اور دونوں ہاوس میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن رہنما نمایاں مقررین کے طور پر شامل تھے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے نمائندے کے طور پر 'یہود دشمنی کی نگرانی اور جنگ کے لیے خصوصی ایلچی' ڈیبورا لپسٹڈ کو بھیجا تھا۔

 ​​پورے ملک سے اڑان بھرنے والے شرکاء اور ان کی حاضری کی مالی اعانت کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈنگ کی گی تھی۔ تاہم اپنے عروج پر ریلی نے بمشکل 10,000 افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا جو کہ لوگوں کا ایک قلیل حصہ ہے ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے 10 دن قبل واشنگٹن ڈی سی میں 300,000 کی اجتماعی ریلی میں شرکت کی تھی۔

میڈیا نے مکمل طور پر پیشین گوئی کے طور پر اس ریلی کو اسرائیل کی حمایت کے بڑے پیمانے پر اعلان کے طور پر پیش کیا۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور دیگر اشاعتوں نے منگل کی رات نمایاں مضامین شائع کیے جب کہ نیٹ ورک کی خبروں نے لائیو رپورٹس شائع کی یہ وہی آؤٹ لیٹس ہیں جنہوں نے نسل کشی کے خلاف بڑے مظاہروں کی کوریج کو بلیک آؤٹ کیا ہے۔ قریب سے لی گئی تصاویر کے ساتھ بڑے طور پر بڑھے ہوئے اعداد و شمار شائع کیے گئے جو حقیقت سے 10 گنا زیادہ حاضری کا دعویٰ کرتے ہیں۔

جہاں تقریر کرنے والوں نے ریلی کو یہودیوں کی آواز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی وہیں منگل کو واشنگٹن ڈی سی کا سفر کرنے سے کہیں زیادہ یہودیوں نے اسرائیل کے اقدامات کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی۔ صرف ایک دن پہلے سینکڑوں مظاہرین نے، جیوش وائس فار پیس کی قیادت میں کیلیفورنیا کے اوکلینڈ میں وفاقی عمارت کے سامنے دھرنا دیا، جن میں سے کئی کو گرفتار کر لیا گیا۔

ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں نے ہاتھ ملایا اور صاف صاف کھل کر اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت کے لیے اپنی مکمل اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔

ڈیموکریٹک اکثریتی رہنما چارلس شمر نے 'ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں' کے نعروں میں ہجوم کی قیادت کی اور وعدہ کیا کہ کانگریس اس وقت تک آرام سے نہیں بیھٹے گی جب تک اسرائیلی حکومت کو فوجی ' ضرورت کی مدد' نہیں مل جاتی! اپنے اس اعلان کے بعد کہ 'امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور ہم یہ دیکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ یہ کبھی تبدیل نہ ہو،' شمر نے ہجوم کی قیادت میں 'امریکہ! امریکا! کے نعرے لگے۔

ایوان کے نومنتخب ریپبلکن سپیکر مائیکل جانسن جو ایک عیسائی فاشسٹ ہیں نے نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی وزراء کے ان ریمارکس کی بازگشت سنائی جو نسل کشی کو جائز قرار دیتے تھے۔ 'یہ روشنی اور اندھیرے کے درمیان تہذیب اور بربریت کے درمیان لڑائی ہے اور جنگ بندی کی کالیں اشتعال انگیز ہیں!

جانسن نے اپنے ریمارکس کا اختتام امریکہ کے اندر اسرائیل کے اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کے لیے دھمکی کے ساتھ کیا کہ 'میری امید ہے،' انہوں نے کہا '[یہ ہے] کہ آج کا یہ اجتماع پوری دنیا کے لیے بلکہ ہماری اپنی سرحدوں کے اندر رہنے والوں کے لیے ایک یاد دہانی دلائے گا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ فخر سے کھڑا ہے'

ڈیموکریٹک ہاؤس کے اقلیتی رہنما حکیم جیفریز نے اعلان کیا کہ 'میں یوکرین اور اسرائیل کے لیے بائیڈن کی دو پارٹیوں کی مشترکہ فنڈنگ ​​کی درخواست کی حمایت کرتا ہوں،' امریکہ اور اسرائیل کے درمیان 'خصوصی تعلقات' کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا رشتہ 'مشترکہ اقدار اور مشترکہ اسٹریٹجک مفاد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔'

چوتھے درجے کی ریپبلکن سینیٹر جوڈی ارنسٹ نے کانگریس کی قیادت کی جنگ کی حامی تقریروں کو گرم جوشی کے ساتھ سمیٹتے ہوئے کہا کہ 'حماس کی عفریت مکمل اور مکمل تباہی کے سوا کسی چیز کے مستحق نہیں ہیں!

 چاروں کانگریسیوں کے ریمارکس باقی تمام مقررین کے ساتھ اس دھوکہ دہی پر مبنی تھے کہ دنیا بڑے پیمانے پر یہود دشمنی کی لہر پر قابو پا چکی ہے۔ مقررین نے اسرائیل مخالف مظاہرین کی مذمت کی بشمول کالج کیمپس میں طلباء کی اور مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی کے منتظمین سنسرشپ کے مزید جارحانہ اقدامات کریں۔ انہوں نے نسل کشی کے اقدامات کے لیے اپنی حمایت کا جواز پیش کرنے کے لیے یہودیوں کے نازیوں کے اجتماعی قتل کا فائدہ اٹھایا۔

سی این این کے سربراہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے آپریٹو وان جونز جن کے تبصرے سب سے زیادہ اہم تھے کہ تمام تشدد اور امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ان کی پاکیزہ خواہش کو 'جنگ بندی نہیں!' کے نعروں اور نعروں کے زریعے پورا کیا گیا تھا - نے اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ 7 اکتوبر سے امریکہ میں یہود دشمنی کے واقعات میں 400 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

آے ڈی ایل جیسا کہ منٹ پریس نیوز کے ایلن میک کلیوڈ نے تفصیل سے بتایا اور دعویٰ کیا کہ 7 اکتوبر سے فلسطین کی حمایت میں منعقد ہونے والی 153 ریلیاں اور مظاہرے دراصل 'دہشت گردی کی حمایت میں' تھے اور انہوں نے 'حماس کے لیے واضح یا مضبوط مضمر حمایت' فراہم کی تھی۔

اگر کوئی چیز یہود دشمنی کو ہوا دے رہی ہے تو وہ جھوٹ ہے جسے کل بولنے والوں نے فروغ دیا کہ اپنے مجرمانہ اقدامات میں، نیتن یاہو حکومت تمام یہودی لوگوں کے مفاد میں کام کر رہی ہے۔

اس الزام کی مضحکہ خیزی میں اضافہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ اس ریلی نے انتہائی دائیں بازو کے عیسائی بنیاد پرستوں اور یہود دشمنوں کو آگے کیا ہے۔ مقررین میں سفید فام بالادستی اور کرسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل (سی یو ایف آئی) کے یہود دشمن سربراہ انجیلی بشارت کے پادری جان ہیگی تھے۔

ان کے بہت سے یہود دشمن بیانات میں سے ہیگی کا دعویٰ ہے جو اسکی کتاب یروشلم کاؤنٹ ڈاؤن: اے وارننگ ٹو دی ورلڈ میں کہ ہٹلر ایک 'آدھی نسل کا یہودی' تھا، جسے خدا نے ایک 'شکاری' کے طور پر بھیجا تھا تاکہ یورپی یہودیوں کو“ اُس مقام یا واحد گھر کی طرف لے جائے جس کا خدا نے کبھی ارادہ کیا تھا جو اسرائیل ہے“۔

اسرائیل کی نسلی صفائی کی مہم کو الہی مشن کے طور پر بتاتے ہوئے ہیگی نے ریلی میں اعلان کیا کہ 'اسرائیل محض ایک ریاست نہیں ہے اسرائیل خدا کی آنکھ کا تارا ہے۔' اسرائیلی جنگی جرائم پر کوئی پابندی نہ لگاتے ہوئے ہیگی نے اعلان کیا کہ 'آپ خود اسرائیل کے رہنماؤں کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ جنگ کس طرح چلائی جاتی ہے آپ اور کوئی نہیں!

یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ہیگی (اور ہاؤس سپیکر جانسن) جیسے عیسائی فاشسٹ اس نظریے کو مانتے ہیں کہ تمام یہودیوں کو بائبل کی اس پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لیے اسرائیل واپس آنا چاہیے کہ یہ قیامت سے پہلے ضروری ہے جب یہودیوں سمیت ہر ایک کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ عیسائیت اختیار کریں یا پھر انہیں قتل کر دیا جائے۔

تاہم جس چیز نے پوری سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کو منگل کی ریلی کی حمایت میں اکٹھا کیا وہ امریکی سامراج کی وسیع جنگ کے ایک حصے کے طور پر غزہ میں نسل کشی کی حمایت میں مالیاتی اولیگارکی کے اسٹریٹجک مفادات کے لیے مشترکہ عزم تھا۔ اس واقعہ کے قابل رحم اور بے چین کردار نے صرف یہ ظاہر کیا کہ وہ کس قدر الگ تھلگ ہیں۔

تاہم اس نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی حکمران طبقہ بیرون ملک اور اندرون ملک اپنے سماجی مفادات کے نفاذ کے لیے کوئی بھی ذریعہ استعمال کرنے کے عزم میں متحد ہے۔ لہٰذا نسل کشی اور جنگ کے خلاف جدوجہد کو محنت کش طبقے کی پوری بوسیدہ اور خون آلود سیاسی اسٹیبلشمنٹ بشمول اس کی دونوں پارٹیوں اور سرمایہ دارانہ سماجی نظام کے خلاف جدوجہد کے طور پر آگے بڑھنا چاہیے۔

Loading