یہ 11 دسمبر 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے 'Mass protests continue in Pakistan’s Balochistan province over extra-judicial killings and other state crimes' والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
پاکستان کے غریب ترین صوبے بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی جانب سے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور ایک نسلی قوم پرست علیحدگی پسند بغاوت سمیت وسیع پیمانے پر مزاحمت کو دبانے کے لیے دیگر غیر قانونی طریقوں کے استعمال کے خلاف تقریباً تین ہفتوں سے بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے۔
احتجاج کا فوری محرک گزشتہ ماہ ریاستی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 24 سالہ بالاچ مولا بخش کا ماورائے عدالت قتل تھا۔
تقریباً 12 دنوں تک ہزاروں لوگ تربت کی سڑکوں پر نکل آئے جو کہ جنوب مغربی بلوچستان کا ایک شہر ہے جو کہ صوبے کا دوسرا بڑا شہر ہے اس دھرنے کی حمایت کرنے کے لیے جو مولا بخش کے لواحقین کی طرف سے شروع کیا گیا تھا تاکہ حکام سے ان کی موت کی اصل حقیقت کے بارے میں مطالبہ کیا جا سکے اور اس کے قتل کے ذمہ دار افراد کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جائے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں دھرنے کو تربت سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ تک منتقل کرنے کے لیے جو تقریباً 800 کلومیٹر یا 500 میل کا فاصلہ ہے کو 'لانگ مارچ' میں تبدیل کر دیا گیا۔ 'مارچ' درحقیقت ایک احتجاجی کارواں ہے جس کے شرکاء موٹر گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور ریلیاں نکالنے اور حمایت کو متحرک کرنے کے لیے راستے میں شہروں میں رکتے ہیں۔ حکام کی واضح عداوت کے باوجود مظاہرین کو رہائش، خوراک اور ضروری اشیا فراہم کرنے میں مقامی باشندوں کی مدد کے ساتھ پذیرائی ملی ہے۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے مولا بخش کی موت کے بارے میں مکمل طور پر ناقابل فہم اور متضاد بیان فراہم کیا ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ اسکی موت ایک مسلح تصادم میں ہوئی حالانکہ 21 نومبر کو 24 گھنٹے سے کچھ زیادہ پہلے مقتول کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے
لایا گیا تھا۔
سی ٹی ڈی کے ابتدائی بیان کے مطابق مولا بخش نے 'حراست میں عسکریت پسند ہونے اور متعدد حملے کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ اسے 20 نومبر کو پانچ کلو گرام دھماکہ خیز مواد کے قبضے میں گرفتار کیا گیا تھا“۔ بیان میں یہ بتائے بغیر کہ مولا بخش مبینہ طور پر قید سے کیسے فرار ہوا اور پھر یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ تربت شہر میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے پر سی ٹی ڈی کی زیر قیادت چھاپے میں تین دیگر افراد کے ساتھ مارا گیا۔
اس کے بعد سی ٹی ڈی نے اپنی کہانی بدل دی۔ ایک دوسرے بیان میں اس نے یہ دعویٰ کیا کہ مولا بخش نے خود سیکورٹی فورسز کو خفیہ ٹھکانے تک پہنچایا تھا اور باغیوں کے ہاتھوں ہونے والی ایک مسلح لڑائی میں مارا گیا تھا۔
بالاچ مولا بخش کے اہل خانہ نے شروع سے ہی سی ٹی ڈی کے ان دعوؤں کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ 22 نومبر کی رات ان کی لاش تربت ٹیچنگ ہسپتال میں کیسے پہنچی۔ سیکورٹی فورسز نے 29 اکتوبر کو اسے پہلے زبردستی اٹھا لیا اور بعد میں ایک 'بالکل جعلی' مقابلے میں مار دیا جو کوئی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا۔
بالاچ کی موت کے ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے لیے حکام پر دباؤ ڈالنے کی اپنی مہم کے ایک حصے کے طور پر اس کے خاندان نے ابتدا میں اسے دفن کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کی لاش کو تربت کے مرکزی چوک پر دھرنے کے پہلے چھ دنوں کے دوران رکھا گیا یہاں تک کہ اس کی لاش کے گلنے سڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
25 نومبر کو ایک نچلی عدالت کے جج نے حکم دیا کہ سی ٹی ڈی کے ریجنل آفیسر اور سی ٹی ڈی کے دو دیگر اہلکاروں کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (فوجداری کیس کھولنے کا پہلا قدم) درج کی جائیں۔ لیکن حکام نے انکار کر دیا اور صوبائی حکومت نے اس حکم کو کالعدم کرنے کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔
ہفتہ 9 دسمبر کو احتجاجی تحریک کے 17ویں دن کے بعد ملوث افراد میں سے کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئیں۔ سموار کو بلوچستان ہائی کورٹ نے سی ٹی ڈی کے ان چار اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کرنے کا حکم دیا جن کے خلاف ایف آئی آرز جاری کر دی گئی ہیں۔
تاہم مظاہرین مطمئن نہیں ہیں اور دیگر چیزوں کے علاوہ وہ بالاچ مولا بخش کی گمشدگی اور قتل کی مکمل عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وسائل سے مالا مال لیکن غریب خطہ بلوچستان اس پر سیاسی طور پر بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ریاستی اہلکاروں کی ایک چھوٹی سی کرپٹ دولت مند اشرافیہ ٹولے کا غلبہ ہے جو کہ عملی طور پر فوج کے قبضے کے تحت ہے اور بلوچی قوم پرست باغیوں اور اسلام پسند ملیشیاؤں کے خلاف دسیوں ہزار سیکورٹی فورسز تعینات ہیں۔
پاکستان کی وحشیانہ بورژوازی جس نے ملک پر اپنے تقریباً نصف وجود تک کھلی فوجی آمریت کے ذریعے حکمرانی کی ہے اور اس وقت آئی ایم ایف کی آسٹریٹی کا ایک اور وحشی دور مسلط کر رہی ہے جو سماجی مخالفت کے باوجود بڑے پیمانے پر تشدد اور جرائم کا سہارا لینے کے لیے بدنام ہے۔ بلوچستان میں یقیناً یہ سب کچھ ایسا ہی ہے۔
2006 میں جیسا کہ اس نے واشنگٹن کی نو نوآبادیاتی افغان جنگ میں سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، امریکی حمایت یافتہ مشرف آمریت کو بلوچستان میں علاقائی اور علیحدگی پسندانہ جذبات کے بڑھنے کا خدشہ تھا اور اس کے نتیجے میں نواب اکبر خان بگٹی کو ان کے پہاڑی علاقے کی پناہ گا میں قتل کرنے کے لیے ایک فوجی آپریشن کا اہتمام کیا۔ جو بگٹی قبیلے کے قبائلی سربراہ اور پاکستانی اشرافیہ کی کرپٹ اور ظالمانہ سیاست کے ایک طویل عرصے سے کھلاڑی رہے تھے اور بلوچستان کی خودمختاری میں اضافے کے لیے تحریک چلا رہے تھے۔
اس کے قتل پر شدید ردعمل سامنے آیا اور جس سے بلوچی قوم پرستانہ جذبات کو ہوا دی اور جسے پانچویں بلوچ قوم پرست بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ مشرف اور اس کے بعد کی 'سویلین' حکومتوں نے عسکریت پسندی کی پالیسی پر عمل کیا جس میں سیکورٹی فورسز کی بڑے پیمانے پر تعیناتی، جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، تشدد اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں۔
اسلام آباد اس غریب آبادی کی جائز مطالبات اور شکایات کے ساتھ جس تحقیر کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے اس نے متعدد بلوچی عسکریت پسند گروپوں کی نشوونما کو ہوا دی ہے حالانکہ ان گروہوں کے پاس خود کوئی ترقی پسند پروگرام نہیں ہے، کیونکہ انکی بنیاد نسلی قوم پرست علیحدگی پسندی، فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ بھارت اور سامراجی طاقتوں سے حمایت کے لیے اپیلوں پر مبنی ہیں۔
پاکستانی فوج کے زیر نگرانی جبر کی خونی حکومت جو دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں سرمایہ دارانہ حکمرانی کی چوٹی پر ہے اور روایتی لیکن بری طرح سے تباہ شدہ امریکہ-پاکستان سیکیورٹی شراکت داری کی بنیاد ہے جو بلوچستان خیبر پختونخواہ اور دیگر جگہوں پر تیزی سے مقبول مزاحمت کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔
اور جو لاپتہ اور قتل ہونے والوں کے اہل خانہ کی قیادت میں مظاہروں اور دھرنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مظہر ہے۔
پاکستان کے موجودہ عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کے وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی دونوں ہی فوج کے مضبوط حلیفوں کے طور پر بڑی حد تک رسوا ہیں۔ جو اپنے آبائی صوبے بلوچستان میں علیحدگی پسند شورش کے خلاف اس کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کے سخت حامی رہے ہیں۔
بہر حال اس تازہ ترین ماورائے عدالت قتل نے بڑے پیمانے پر عوامی غم و غصے کو جنم دیا ہے جس سے مکران کے پورے جنوب مغربی علاقے جس میں تربت بھی شامل ہے میں نوجوانوں اور خواتین کو متحرک کیا ہے۔ دھرنے اور دیگر مظاہروں کے علاوہ 29 نومبر کو تربت اور مکران ریجن کے دیگر قصبوں میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال تھی اور دکانیں اور کاروبار بند رہے۔ وہ سڑکیں جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہیں اس علاقے سے لے کر پاکستان کے اہم کاروباری مرکز کراچی اور کوئٹہ تک بھی مظاہرین نے بلاک کر دیں۔
ریاستی تشدد پر بڑھتا ہوا غم و غصہ بڑے پیمانے پر غربت اور عوامی خدمات اور بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی بشمول پینے کے پانی تک رسائی سمیت بڑے پیمانے پر عدم اطمینان سے جڑا ہوا ہے۔
اگرچہ بلوچستان، تقریباً 10 ملین کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا سب سے کم آبادی والا اور غریب ترین صوبہ ہے لیکن یہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر سے انتہائی اہم ہے۔ یہ معدنیات بشمول تانبے اور سونا اور قدرتی گیس سے مالا مال ہے اور اس کی سرحدیں افغانستان اور ایران دونوں سے ملتی ہیں۔ یہ چین کی تعمیر کردہ گوادر بندرگاہ کی سہولت کا مقام ہے جو بیجنگ کو بحیرہ عرب میں بحری اڈہ فراہم کر سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ سے چین تک تیل اور قدرتی گیس کی ترسیل کے لیے زمینی راستے کے نقطہ آغاز کے طور پر کام کر سکتا ہیاور اس طرح وہ بڑی حد تک امریکہ کے زیر تسلط بحر ہند سے متبادل راستہ کا ذریعہ بھی ہے۔
بلوچی قومی علیحدگی پسند بلوچی علاقائی بورژوازی کے ایک دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی قیادت کر رہے ہیں بشمول روایتی سردار (قبائلی رہنما) اور پیٹی بورژوازی جو خطے کے وسائل کی دولت، استحصال اور اسکی جیو اسٹریٹجک پوزیشن میں پاکستانی سرمایہ داروں اور فوجی اعلیٰ افسران کے مقابلے میں سامراج کے ساتھ اپنی ڈیل کرنے کی جگہ لینے کی امید رکھتے ہیں۔
بلوچی نسلی قوم پرست تحریک نوآبادیاتی بورژوازی کی جانب سے سامراج مخالف عوامی جدوجہد کو دبانے، اسکا گلہ گھوٹنے اور فرقہ وارانہ تقسیم کے تناظر میں تیار ہوئی جو برطانوی سامراج کی سرپرستی میں گاندھی-نہرو کی قیادت میں کانگریس پارٹی اور جناح کی مسلم لیگ کے زریعے برصغیر کی واضح طور پر مسلم پاکستان اور ایک ہندو اکثریتی ہندوستان کے طور پر کی گی۔ اس طرح کی بہت سی دیگر تحریکوں کی طرح 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں بلوچی قوم پرست تحریک نے سوشلسٹ لباس پہنا اور سوویت یونین سے حمایت کی اپیل کی۔
لیکن جب سے سٹالنسٹ بیوروکریسی نے سرمایہ داری کو بحال کیا اور یو ایس ایس آر کو تحلیل کیا اس نے سامراج کی طرف مزید واضح اور برہنہ انداز میں رخ کیا۔
عالمی جنگ اور دنیا کی دوبارہ تقسیم کے لیے امریکی قیادت میں سامراجی مہم کے حالات میں بلوچ حکمران اشرافیہ کے ایک حصے نے بلوچ ایران سیستان کا ایک حصہ سمیت ایک علیحدہ ریاست، 'گریٹر بلوچستان' بنانے کا نقطہ نظر تیار کیا ہے۔ تاکہ محنت کش طبقے اور محنت کش عوام کی قیمت پر سامراج سے اپنا سودا کر سکیں۔
اس طرح بلوچی قوم پرستوں نے دو دہائیوں پر محیط امریکی نیٹو حملے اور افغانستان پر قبضے کی حمایت کی۔ 2014 میں سی پیک کے آغاز کے بعد سے وہ مزید امریکی سامراج اور ان کے بین الاقوامی اور علاقائی اتحادیوں جیسے بھارت کی جانب موڑی ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپوں میں سے سب سے نمایاں نے بارہا سی پیک پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور مزدوروں پر دہشت گردانہ حملے کیے ہیں اور جس سی پیک کی واشنگٹن اور نئی دہلی دونوں شدید مخالفت کرتے ہیں۔
نومبر 2018 میں جب بی ایل اے نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا تو اس نے اپنی ذمہ داری قبول کنے کے ساتھ ہی اعلان کرنے کے لیے جلدی کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 'اس حملے کا مقصد واضح ہے: ہم بلوچ سرزمین پر چینی فوجی توسیع پسندانہ کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے۔'
پاکستان کے روایتی اسٹریٹجک حریف ہندوستانی بورژوازی اور سامراجی طاقتوں کے حق میں اور انکی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ رجعتی ایجنڈے چلتے ہیں۔ بلوچی باغی معمول کے مطابق عام پنجابیوں، ہزارہ اور پشتونوں کو ٹارگیٹ اور قتل کرتے ہیں جنہیں وہ حقارت کے ساتھ 'آبادکار' کہہ کر طنز کرتے ہیں۔
سامراج، پاکستانی بورژوازی اور جنوبی ایشیا کے پورے رجعتی فرقہ پرست ریاستی نظام کی مخالفت میں بلوچی محنت کشوں اور نوجوانوں کو اپنی جدوجہد کی بنیاد مستقل انقلاب کی حکمت عملی پر رکھنی چاہیے۔ محنت کش عوام کے بنیادی جمہوری حقوق اور سماجی خواہشات بشمول سامراج سے حقیقی آزادی اور جنوبی ایشیا کے مختلف نسلی، لسانی اور مذہبی گروہوں کے درمیان حقیقی مساوات خطے کے عوام کو متحد کرنے کی جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مزدوروں کے اقتدار حصول کے لیے محنت کش طبقے کو بورژوازی کے تمام دھڑوں کی مخالفت میں دیہی محنت کشوں اور مظلوموں کو اکٹھا کرنا چاہیے اور پورے خطے کے محنت کشوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا چاہیے ایک سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر جس کا مقصد سماجی و اقتصادی زندگی کو دوبارہ منظم کرنا ہے اور ایک فریم ورک تیار کرنا ہے جو تمام لوگوں کی دوستانہ مساوی ترقی اور جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ ریاستہائے متحدہ پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔