یہ 30 دسمبر 2023 میں شائع ہونے والے اس 'Crisis looms over 2024 election as Maine becomes second state to rule Trump off the ballot'
مائن کے سیکرٹری آف سٹیٹ کا یہ فیصلہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی پرائمری بیلٹ پر نہیں رکھا جا سکتا ریاستہائے متحدہ میں ابھرتے ہوئے اور سنگین سیاسی بحران کا حصہ ہے۔ مائن یہ اعلان کرنے والی دوسری امریکی ریاست بن گئی ہے کہ ٹرمپ 6 جنوری 2021 کی کیپٹل ہل پر ہونے والی بغاوت میں اپنے کردار کی وجہ سے وائٹ ہاؤس واپس آنے کے لیے نااہل ہیں جس نے 2020 کے انتخابات کے نتائج کو الٹنے کی کوشش کی تھی۔
مائن کا یہ فیصلہ جس کا جمعرات کو اعلان کیا گیا کولوراڈو ریاست کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آیا ہے جس نے 19 دسمبر کو فیصلہ سنایا تھا کہ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو متحرک کرکے اور انہیں کانگریس کے خلاف اکھٹرا کر اپنے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس نے الیکٹورل کالج ووٹ کے سرکاری نتائج میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، جسے ڈیموکریٹ جو بائیڈن نے 306- 232 کے فرق سے جیتا تھا۔ بائیڈن نے 7 ملین سے زیادہ مقبول ووٹ حاصل کیے تھے۔
امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کا سیکشن تین کسی بھی ایسے شخص کو عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیتا ہے جس نے پہلے آئین کو برقرار رکھنے کا حلف اٹھایا ہو اور پھر اس کی خلاف ورزی کی ہو۔ کولوراڈو کی عدالت نے کہا کہ ٹرمپ نے واضح طور پر 6 جنوری کو ایسا کیا۔ 34 صفحات پر مشتمل فیصلہ جو کہ مائن سیکرٹری آف اسٹیٹ شینا بیلوز جو ایک ڈیموکریٹ ہیں نے جاری کیا جو کولوراڈو کے فیصلے پر گہری نظر رکھتے ہوئے اور اس فیصلے کا بار بار حوالہ دیتا ہے۔
بیلوز لکھتے ہیں:
مجھے یاد ہے کہ ریاست کے کسی سیکرٹری نے 14ویں ترمیم کے سیکشن 3 کی بنیاد پر کبھی بھی صدارتی امیدوار کو بیلٹ رسائی سے محروم نہیں کیا۔ تاہم میں یہ بھی ذہن نشین کر رہا ہوں کہ اس سے پہلے کسی صدارتی امیدوار نے اس طرح بغاوت نہیں کی۔
پریس کے اعددو شمار کے مطابق عدالتی مقدمات اور دیگر قانونی اور انتظامی کارروائیاں جن کا مقصد ٹرمپ کو بیلٹ سے ہٹانا ہے، ایک درجن سے زیادہ ریاستوں میں جاری ہے۔ اس ہفتے وسکونسن الیکشن کمیشن نے ٹرمپ کو بیلٹ پر رکھنے کے خلاف مقدمے کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا جبکہ کیلیفورنیا کے سیکرٹری آف اسٹیٹ نے انہیں بیلٹ سے ہٹانے سے انکار کر دیا۔ دونوں ریاستوں میں اب یہ معاملہ عدالتوں میں اٹھایا جائے گا۔
مسائل کی ٹھوس بنیاد پر ٹرمپ نے ابھی تک کسی ایک چیلنج کو شکست نہیں دی ہے۔ وہ عدالتیں اور ریاستی انتخابی حکام جنہوں نے اس کی بیلٹ کی حیثیت کے چیلنجوں کو مسترد کر دیا ہے اب تک اکثریت نے ایسا خصوصی طور پر طریقہ کار کی بنیادوں پر کیا ہے بنیادی طور پر ان نتائج کی بنیاد پر کہ اس معاملے کا فیصلہ وفاقی عدالتوں میں ہونا چاہیے نا کہ ریاستوں کی طرف سے۔
اس طرح کے نتائج اور مختلف ریاستوں میں متضاد فیصلوں کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ لامحالہ امریکی سپریم کورٹ تک جائے گا جس پر ریپبلکن پارٹی کی تقرریوں کا غلبہ ہے بشمول نو میں سے تین جو اپنے عہدے خود ٹرمپ کے مرہون منت ہیں۔ یہ حقیقت کہ اعلیٰ ترین امریکی عدالت کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے قدم اٹھانا چاہیے کہ صدارتی انتخاب میں کون ہو سکتا ہے یہ سیاسی بحران کی انتہا کی جانب واضع اشارہ ہے۔
امریکی سرمایہ داری کے معمول کا سیاسی عمل کچھ اس طر ہے کہ ہر دو سال بعد کانگریس کے انتخابات اور ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں جو دو سرمایہ دار پارٹیوں کی طرف سے چلائی جانے والی سیاسی مہمات اور کارپوریٹ میڈیا میں ان کے اتحادیوں کی طرف سے جائز قرار دیے گئے ہیں اب ٹوٹ رہے ہیں۔ وہ اب امریکہ میں پھوٹنے والی سیاسی کشیدگی پر قابو نہیں رکھ سکتے جس کا ماخذ ٹرمپ کی شخصیت نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ گہرا سماجی اور تاریخی عمل ہے۔
2020 کے انتخابات میں 'اقتدار کی پرامن منتقلی' کا خاتمہ دیکھا گیا اور نہ صرف 6 جنوری کو دو ہفتے بعد بائیڈن نے واشنگٹن کے ایک مسلح کیمپ کے ساتھ صدارت کا حلف اٹھایا اور ان کے پیشرو وائٹ ہاؤس کے پچھلے دروازے سے باہر نکل رہے تھے افتتاحی تقریب میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے 'چوری شدہ الیکشن' کے اپنے بے بنیاد دعووں کو فروغ دینا جاری رکھا۔
2024 کے انتخابی وعدے وہیں سے شروع ہوں گے جہاں اسے 2020 میں چھوڑا گیا تھا ووٹ کی قانونی حیثیت شروع سے ہی سوالیہ نشان ہے۔ متعدد ریاستیں زیادہ تر جو بائیڈن نے 2020 میں جیتی تھیں ٹرمپ کو بیلٹ پر ہونے کے لیے سنگین قانونی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ 2020 میں ٹرمپ کے زیر انتظام ریاستوں میں ریپبلکن عہدیدار پہلے ہی تجویز کر رہے ہیں کہ بائیڈن کو ان کی ریاستوں میں بیلٹ سے دور رکھا جائے اگر ٹرمپ کو درپیش چیلنجوں کو برقرار رکھا جائے گا۔
2020 کے دوران مشی گن اور دیگر ریاستوں میں کیپیٹل کی عمارتوں پر انتہائی دائیں بازو کے ٹرمپ کے حامیوں کے مسلح حملے ہوئے بظاہر یہ کہ کوویڈ-19 وبائی پابندیوں کی مخالفت میں جن کی حوصلہ افزائی اور اس وقت کے صدر ٹرمپ نے کی اور اسے شہ دی۔ ایسی ریاست میں ایسے فاشسٹ کیا اہل ہوں گے جو اپنے جابر لیڈر کو صدارتی ووٹنگ سے روکے؟ کیا نومبر 2024 میں صدارتی انتخابات کا انعقاد بھی ممکن ہو سکے گا؟
مائن کا فیصلہ کولوراڈو کے فیصلے کے بعد ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کی طرف سے دی گئی وارننگ کی درستگی کو واضح کرتا ہے:
ریاستی خطوط پر ممکنہ تقسیم اس طرح کے بنیادی سوال پر کہ بیلٹ پر کس امیدوار کو انتخاب کی اجازت دی جائے گی، اس امکان کو جنم دیتی ہے کہ 2024 کے انتخابات کے نتائج کو ملک کے بڑے حصوں میں مسترد کر دیا جائے گا نہ صرف سیاسی طور پر ناپسندیدہ بلکہ یہ ایک غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہو گا جس سے امریکہ کی ٹوٹ پھوٹ براہ راست سامنے آئی ہے۔
ٹرمپ کے ترجمانوں اور معذرت خواہوں نے کولوراڈو اور مائن میں کارروائیوں کے جواب میں 'انتخابی مداخلت' کو دھماکے سے اڑا دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کا بیلٹ سے اخراج امریکی ووٹروں کے جمہوری حقوق پر ایک بڑا حملہ ہے۔ یہ اُس پارٹی اور امیدوار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے جو کے انتہائی گھٹیا ہے
جنہوں نے 2020 میں 81 ملین امریکیوں کے ووٹوں کو الٹنے اور ٹرمپ کو ڈکٹیٹر صدر کے طور پر وائٹ ہاؤس میں رکھنے کی کوشش کی تھی۔
نہ ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ٹرمپ کے حملوں کے خلاف جمہوریت کا دفاع کرنے کا کوئی دعویٰ پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ڈیموکریٹس نے 6 جنوری کے واقعات میں ٹرمپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو سست روی کے زریعے ڈیل کیا اور بائیڈن نے اعلان کیا کہ ان کا سیاسی مقصد ایک مضبوط ریپبلکن پارٹی کو برقرار رکھنا ہے یہاں تک کہ جی او پی نے کھلے عام ٹرمپ اور اس کی بڑھتی ہوئی فاشسٹ اپیلوں کو قبول کیا۔ کیونکہ اس کی بنیادی ترجیح یوکرین میں روس کے خلاف امریکی پراکسی جنگ کی تیاری اور اکسانے کے لیے دو طرفہ حمایت کے حصول کے لیے تھا۔
ریاست کے اندر تصادم حکمران طبقے کے اندر ایک خونخوار جدوجہد ہے جس میں کوئی بھی دھڑا جمہوری نہیں ہے۔ ٹرمپ اور ریپبلکن ایک فاشسٹ رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں جیسا کہ ٹرمپ ایڈولف ہٹلر کے نقشے قدم پر صرف تارکین وطن اور مسلمانوں کو یہودیوں کی جگہ ان کے قربانی کے بکرے اور اہداف کے طور پر چینلز کرتے ہیں،
ڈیموکریٹس کھلے عام غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کو گلے لگاتے ہیں جسے وہ مسلح کر رہے ہیں مالی امداد فراہم کر رہے ہیں اور اس کی رہنمائی کر رہے ہیں اور اس طرح اس جنگ کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مخالفت کو دبانے کے لیے ان کیخلاف جھوٹے الزامات کے ساتھ جوڑ رہے ہیں جسے غزہ کا قتل عام جو طلباء، نوجوانوں اور محنت کش لوگوں کو مشتعل کر رہا ہے۔ وہ ریاست کے اندر تنازعات کو کسی نہ کسی آئینی نظام کے اندر ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ دو جماعتی نظام کے ٹوٹنے کے انقلابی نتائج سے خوفزدہ ہیں۔
یہ دونوں جماعتیں محنت کش طبقے کے لیے جان لیوا خطرناک ہیں۔
محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے اہم مسئلہ امریکی سرمایہ داری کو تباہ کرنے والے داخلی بحران اور اس کی بڑھتی ہوئی لاپرواہی اور مجرمانہ خارجہ پالیسی کے درمیان تعلق کو سمجھنا ہے۔ ان دونوں کے درمیان باہمی تعلق پایا جاتا ہے۔
ایک طرف حکمران طبقے کی جانب سے مسلسل کوشش جاری ہے کہ بیرون ملک بڑے پیمانے پر عسکریت پسندی کو استعمال کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح اندرونی بحران سے توجہ ہٹانے اور اس پر قابو پایا جائے جس کی جڑیں ایک چھوٹی اشرافیہ کی انتہائی امیر پرت اور محنت کش طبقے کی اکثریت جو زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے کے درمیان گہرے سماجی پولرائزیشن سے جڑی ہوئی ہیں۔
دوسری جانب عسکریت پسندی کی بڑھوتی ریاستہائے متحدہ کے سیاسی ڈھانچے پر رد عمل ظاہر کرتی ہے جو بیرون ملک جنگ کے مشترکہ اثرات اور اندرون ملک بڑھتے ہوئے سماجی تناؤ کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔ جنگ داخلی سماجی تناؤ کو مزید بڑھاتی ہے کیونکہ حکمران طبقہ سماجی فائدے کی باقیات کو کھوکھلا کرکے ریکارڈ فوجی بجٹ کی پوری قیمت محنت کش طبقے پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ سامراجی جنگ کی منطق ملکی مخالفت کو دبانا اور جمہوری حقوق کا خاتمہ ہے۔
امریکی سرمایہ داری کا بحران اب عالمی سیاست میں سب سے زیادہ عدم استحکام کا باعث بن چکا ہے۔ جس طرح امریکی معاشی بالادستی جو کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد عروج کی بنیاد تھی یہ بہت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے اسی طرح امریکی سیاسی استحکام جسے کبھی نام نہاد 'آزاد دنیا' کے نمونے کے طور پر تسلیم اور پیش کیا جاتا تھا اب ماضی کی بات بن گی ہے۔
اہم اور فوری مسئلہ محنت کش طبقے کی آزادانہ سیاسی مداخلت ہے جسے مالیاتی اشرافیہ کے رجعتی دھڑوں اور ان کی سیاسی جماعتوں دونوں کی مخالفت کرنی چاہیے۔ محنت کش طبقے کو جمہوری حقوق کا دفاع کرنا چاہیے اور سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر صنعتی مزدوروں کو سیاسی طور پر متحرک کرتے ہوئے اور اس کے ذریعے سامراجی جنگ کی مخالفت کرنی چاہیے۔