یہ اس تناظر کے چہارم حصے کا اردو ترجمہ ہے 'The working class, the fight against capitalist barbarism, and the building of the World Party of Socialist Revolution (Part Four)' جو 6 جنوری 2024 کو انگریزی میں شائع ہوا۔
طبقاتی کشمکش اور سوشلزم کی لڑائی کی نمو
1. اس بیان کے اوائل حصوں میں 2024 کے آغاز میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے اہم عناصر پر توجہ مرکوز کی گئی ہے: 1) سامراجی عسکریت پسندی میں اضافہ جس کی قیادت امریکی سامراج کر رہا ہے جس کے نتیجے میں روس کے خلاف پراکسی جنگ شروع ہوئی ساتھ ہی چین کے خلاف جنگ کی کھلی تیاری اور غزہ میں نسل کشی کو ریاستی پالیسی کے ایک جائز ہتھیار کے طور پر اپنایا گیا؛ 2) سماجی پالیسی میں بڑے پیمانے پر رجعت حاوی ہے جس کی مثال کوویڈ-19 وبائی مرض کا مقابلہ کرنے اور پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کو بیماری، کمزوری اور موت سے بچانے کے لیے صحت عامہ کے بنیادی اقدامات کی جان بوجھ کر تردید سے ملتی ہے۔ 3) سرمایہ دارانہ معاشرے کے بالائی طبقوں میں دولت کا انتہائی ارتکاز جس کے نتیجے میں ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں اور عالمی سطح پر سماجی عدم مساوات کی حیران کن سطح جس کے تحت 4) دنیا بھر میں آمرانہ اور فاشسٹ سیاسی تنظیموں اور حکومتوں کی جمہوری طرز حکمرانی کا ٹوٹنا اور دوبارہ جنم لینا جیسے پیمانے پر 1930 کے بعد سے نہیں دیکھا گیا۔
2. وہ تمام 'سرخ لکیریں' جو تہذیب کو بربریت سے الگ کرتی ہیں ختم کی جا رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ حکومتوں کا نصب العین ہے: ’’کوئی بھی چیز جو مجرمانہ ہو ہمارے لیے اجنبی نہیں ہے۔‘‘ جوہری جنگ کو 'معمول' بنایا جا رہا ہے۔ نسل کشی کو 'معمول' بنایا جا رہا ہے۔ وبائی امراض اور کمزوروں اور بوڑھوں کو جان بوجھ کر ہلاک کرنے کو 'معمول' بنا دیا گیا ہے۔ دولت کے ارتکاز اور سماجی عدم مساوات کی ناقابل تسخیر سطح کو 'معمول' بنا دیا گیا ہے۔ جمہوریت کو دبانے اور آمریت اور فسطائیت کا سہارا 'معمول' بنایا جا رہا ہے۔
3. مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سماجی بربریت کی مختلف شکلوں کا معمول پر آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جس کی پالیسیاں سماج کشی کی مختلف شکلوں پر مشتمل ہیں، اپنی تاریخی، معاشی، سماجی اور سیاسی جواز کو واضح طور پر ختم کر چکا ہے۔
4. انسانیت کے امکانات تاریک ہوتے اگر یہ تاریخی طور پر تصدیق شدہ حقیقت نہ ہوتی کہ سرمایہ داری کو تباہی کی طرف لے جانے والے تضادات ہی اسکے خاتمے اور سماج کی ایک نئی اور ترقی پسند یعنی سوشلسٹ بنیاد پر تنظیم نو کے حالات کو حرکت میں لاتا ہے۔ اس تنظیم نو کی صلاحیت کی جڑیں محنت کش طبقے کے وجود میں ہیں۔ طبقاتی جدوجہد وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے سوشلسٹ تنظیم نو کے معروضی امکان کو عملی طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔
5. اس لیے طبقاتی جدوجہد کی ترقی کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔ جیسے جیسے سال آگے بڑھ رہا ہے سرمایہ داری کے بحران نے کس حد تک محنت کش طبقے کی جوابی تحریک کو جنم دیا ہے؟
6. 2023 کی سماجی جدوجہد کا جائزہ طبقاتی جدوجہد کی ایک اہم مقداری اور معیاری ترقی کا واضح ثبوت فراہم کرتا ہے۔ مقداری طور پر ان مزدوروں کی سراسر تعداد میں بلاشبہ اضافہ ہے جنہوں نے استحصال، گرتے ہوئے معیار زندگی، جمہوری حقوق پر حملوں اور عسکریت پسندی کے خلاف ہڑتالوں اور احتجاج کی متعلقہ شکلوں میں حصہ لیا ہے۔ معیاری بڑھوتی طبقاتی جدوجہد کا عالمی پیمانہ ہے جو محنت کش طبقے کو قومی سرحدوں سے پار بین الاقوامی کردار حاصل کرنے کی تحریک کا رجحان ہے۔
7. اس عمل کی پیشن گوئی چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی نے 1988 میں کی تھی۔ پیداوار کے عمل کی ترقی پذیر عالمگیریت اور بین الاقوامی کارپوریشنوں کے ابھرنے کے مضمرات کا تجزیہ کرتے ہوئے ورکرز لیگ (ریاستہائے متحدہ میں سوشلسٹ ایکولیٹی پارٹی کی پیشرو) نے تیرہویں قومی کانگریس میں یہ ابتدائی رپورٹ 30 اگست 1988 پیش کی گئی۔ جس میں بیان کیا گیا:
کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ پرولتاریہ جدوجہد کا اگلا مرحلہ معروضی معاشی رجحانات اور مارکسسٹوں کے موضوعی اثر و رسوخ کے مشترکہ دباؤ کے نیچے ایک بین الاقوامی رفتار کے ساتھ بے حد آگے بڑھے گا۔ پرولتاریہ عملی طور پر ایک بین الاقوامی طبقے کے طور پر جو زیادہ سے زیادہ یہ رجحان رکھتا ہے اپنا اظہار کرے گا۔ اور مارکسی بین الاقوامیت پسند جن کی پالیسیاں اس نامیاتی رجحان کا اظہار ہیں اس عمل کو پروان چڑھائیں گے اور اسے شعوری شکل دیں گے۔ [چوتھی انٹرنیشنل، جولائی تا دسمبر 1988 صفحہ۔ 39]
8. اس نقطہ نظر کی تصدیق واقعات سے ہوئی ہے۔ گزشتہ سال بین الاقوامی سطح پر مظاہروں اور ہڑتال کی کارروائیوں میں اضافے کا رجحان جاری رہا۔ کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس نے دسمبر میں رپورٹ کیا کہ 'حکومت مخالف مظاہروں کی لہر جس نے حالیہ برسوں میں دنیا بھر کے ممالک کو ہلا کر رکھ دیا ہے 2023 میں بھی جاری رہی ہے' بشمول 83 مختلف ممالک میں ہونے والے نئے احتجاج ہیں۔جن میں 'سات ممالک جنہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں بڑے احتجاج کا سامنا نہیں کیا تھا اس عمل میں شامل ہوئے ہیں جن میں: ڈنمارک، فرانسیسی پولینیشیا، موزمبیق، ناروے، جمہوریہ آئرلینڈ، سورینام اور سویڈن۔ اس کے علاوہ اس سال پہلے سے شروع ہونے والے کچھ مظاہرے برقرار رہے ہیں جن میں ہنگری میں اساتذہ کے احتجاج، بنگلہ دیش میں حکمراں جماعت مخالف مظاہرے اور تیونس کے صدر قیس سعید کی جولائی 2021 کی 'خودکشی' اور اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے شامل ہیں۔ '
9. بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف مظاہرے روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ سے تیز ہو گئے ہیں جو پاکستان، پرتگال اور سلووینیا سمیت کئی ممالک میں ہوئے۔ 'مانیٹری پالیسی کے بارے میں شکایات اور نقد رقم کی کمی نے گھانا اور نائیجیریا میں مظاہروں کو جنم دیا۔ فرانس میں پنشن اصلاحات کے خلاف ہڑتالوں اور مظاہروں نے جس نے قومی ریٹائرمنٹ کی عمر باسٹھ سال سے بڑھا کر چونسٹھ کر دی تھی نے سال کے آغاز میں ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے علاوہ جمہوریہ چیک اور کئی ہندوستانی ریاستوں میں پنشن اصلاحات کے حوالے سے مظاہرے بھی ہوئے۔
10. برطانیہ میں لاکھوں ریل ورکرز، ڈاک ورکرز، اساتذہ اور مزدوروں کے دیگر طبقات پر مشتمل ہڑتالیں بھی ہوئیں ہیں جو 2022 کے وسط سے 2023 تک جاری رہیں۔ پرتگال، بیلجیم اور جرمنی میں بڑی ہڑتالیں؛ کیوبیک میں پبلک سیکٹر کے 420,000 مزدوروں کی ہڑتال اور انتہائی دائیں بازو کی لا اینڈ جسٹس پارٹی کے خلاف پولینڈ میں 10 لاکھ سے زیادہ کا احتجاج اور غزہ کی نسل کشی سے پہلے نتن یاہو کی جمہوریت مخالف عدالتی اصلاحات کے خلاف اسرائیل میں لاکھوں افراد پر مشتمل احتجاج بشمول سال کے اختتام پر دسیوں ہزار مزدوروں نے ارجنٹائن کے نئے انتہائی دائیں بازو کے صدر جیویر میلی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں میں حصہ لیا۔
11. پچھلے سال ریاستہائے متحدہ میں ہڑتالوں کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو مزدوروں کی تعداد کے حوالے اور مختلف اداروں کے محنت کش طبقے کے حصے اس جدوجہد میں شامل تھے۔ بیورو آف لیبر شماریات کے مطابق 2023 میں 36 بڑی ہڑتالیں ہوئیں جن میں 1,000 یا اس سے زیادہ مزدور شامل تھے جو 2022 کی 23 ہڑتالوں سے زیادہ ہیں۔ پچھلے سال کی بڑی ہڑتالوں میں تقریباً 500,000 مزدور شامل تھے جو 2022 میں ہڑتال کرنے والے 120,600 سے تقریباً چار گنا زیادہ تھے۔ اکتوبر 2023 میں مجموعی 4.5 ملین دن کام بند ہونے کی وجہ سے ضائع ہوئے جو چار دہائیوں میں کسی بھی مہینے میں سب سے زیادہ ہے۔ 12 بڑی ہڑتالوں میں سے ایک تہائی نرسیں اور دیگر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنان بشمول قیصر کے مستقل 75,000 ورکرز شامل تھے۔ اس کے علاوہ دوسری مزید 7 ہڑتالوں میں اساتذہ اور گریجویٹ طلباء شامل تھے۔
12. کارنیل یونیورسٹی سکول آف انڈسٹریل اینڈ لیبر ریلیشنز کی طرف سے کام روکنے کا ڈیٹا بیس رپورٹ کرتا ہے کہ تمام اقسام کی 421 ہڑتالیں ہوئیں جن میں 508,000 ورکرز شامل تھے۔ اس میں 100 یا اس سے زیادہ ورکرز کی 70 ہڑتالیں شامل ہیں جو ایک ہفتے سے زیادہ جاری رہیں جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 59 فیصد زیادہ ہے۔ جب کہ 2023 میں تمام اقسام کی ہڑتالوں کی کل تعداد 2022 کے برابر تھی جو (421 کے مقابلے میں 424) تھیں لیکن ہڑتال کرنے والے ورکرز کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ تھی جو 224,000 سے 508,000 تک پہنچ گئی۔
13. بڑھتی ہوئی آن ہڑتالوں کی تحریک میں 11,000 مصنفین اور 65,000 اداکاروں کی شمولیت نے خود محنت کش طبقے کی تعریف کو وسیع کرنے کا اظہار پیش کیا جس میں آبادی کی بڑھتی ہوئی پرتیں شامل ہوئیں جو پہلے خود کو 'مڈل کلاس' تصور کرتی تھیں۔ سائنس میں انقلابی پیشرفت بشمول مصنوعی ذہانت (اے آئی) جو انسانیت کی ترقی کے لیے بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے ثقافتی اور تکنیکی ورکرز کے استحصال کو بڑھانے اور مجموعی طور پر معیشت کی وسیع تنظیم نو کی سہولت فراہم کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
14. طبقاتی جدوجہد کی اس عالمی بڑھوتی کے ساتھ ساتھ غزہ میں نسل کشی کے خلاف جنگ مخالف تحریک نے 2023 کے آخری تین مہینوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جو نئے سال تک جاری رہے گی۔ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ پہلے سے ہی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ پائیدار جنگ مخالف تحریک ہے جو عالمی سرمایہ داری کے ٹوٹنے کی ایک بہت زیادہ بڑی سطح کے مرحلے پر ہو رہی ہے۔ ہر براعظم کے سینکڑوں شہروں میں لاکھوں لوگ اسرائیلی حکومت اور اس کے سامراجی حامیوں کے ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ان مظاہروں میں معاشرے کے مختلف طبقات شامل ہیں جن میں نوجوانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
15. سامراجی ممالک میں سب سے بڑے مظاہرے لندن میں ہوئے ہیں (11 نومبر کو تقریباً 1 ملین اور متعدد دیگر مظاہروں میں 100,000) واشنگٹن ڈی سی (4 نومبر کو 300,000 سے زیادہ) نیو یارک سٹی، شکاگو اور لاس اینجلس (متعدد مظاہروں میں 10,000) سڈنی اور میلبورن (12 نومبر کو 50,000 سے زیادہ) برلن میں (پولیس پابندی کے باوجود 28 اکتوبر کو 10,000 سے زیادہ) پیرس (22 اکتوبر کو 15,000 سے زیادہ) ایمسٹرڈیم (15 اکتوبر کو 15,000 سے زیادہ) ٹورنٹو (10 اکتوبر کو 15,000 سے زیادہ) اور ٹوکیو (20 نومبر کو 1,500) لاکھوں مزید افراد نے نسل کشی کے خلاف خاص طور پر عرب دنیا میں احتجاج کیا ہے۔
16. کارپوریٹ میڈیا نے نسل کشی اور عالمی احتجاج دونوں کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ جنگ کی حقیقت اور اس کی مخالفت صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پوری طرح سے سمجھی جا سکتی ہے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد نے پیش رفت کو قریب سے دیکھا اور مظاہروں کو منظم کیا۔ نتیجے کے طور پر ان پلیٹ فارمز کو کنٹرول کرنے والے امرا شاہی خاص طور پر (ٹویٹر / ایکس) ایلون مسک اور مارک زکربرگ (فیس بک، انسٹاگرام اور تریڈز) تیزی سے واضح طور پر سنسرشپ کا سہارا لے رہے ہیں۔
17۔ طبقاتی جدوجہد کی عالمی بحالی کے ابتدائی مراحل میں سامنے آنے والے بنیادی مسائل کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے ہڑتالوں اور احتجاج کی معروضی اہمیت سے کوئی کمی نہیں آتی۔ معروضی بحران کی ترقی یافتہ سطح اور اس بحران کے موضوعی فہم اور محنت کش طبقے کے شعور میں اس کے سیاسی اثرات کے درمیان ایک بہت بڑا فرق باقی ہے۔ اس خلاء کا اظہار سب سے پہلے رجعت پسند سامراج نواز ٹریڈ یونین بیوروکریسیوں اور سوشل ڈیموکریٹک، سابق سٹالنسٹ اور پیٹی بورژوا جعلی بائیں بازو کی تنظیموں کی مختلف شکلوں میں ان کے اتحادیوں کا محنت کشوں کی جدوجہد کے مسلسل تسلط میں پایا جاتا ہے۔
18. ایک کے بعد دوسرے ملک میں کارپوریٹ اور قوم پرست ٹریڈ یونین کے حامیوں کے ذریعے محنت کشوں کی جدوجہد کا گلا گھونٹ دیا گیا اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے حصے کے طور پر کام کرنے والی مختلف بائیں بازو کی تنظیموں کی طرف سے بڑے پیمانے پر مظاہروں کو دباتے ہوئے انہیں بند کر دیا گیا۔
19. فرانس میں صدر ایمانوئل میکرون کی پنشن میں کٹوتیوں کی مخالفت زبردست سطح پر موجود تھی دو تہائی آبادی نے انہیں روکنے کے لیے عام ہڑتال کی حمایت کی۔ تاہم سی جی ٹی اور سی ایف ڈی ٹی یونین بیوروکریسیوں نے جین لوک میلینچون کے عنسبمیسیو فرانس کے ساتھ مل کر احتجاج کو غیر فعال کرنے اور ہڑتال کی کارروائی کو محدود کرنے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے اس افسانے کو فروغ دیا کہ پنشن پر حملے کو میکرون حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے یا پارلیمنٹ کے اداروں کے ذریعے روکا جا سکتا ہے جبکہ ورکرز پر حملے اور یوکرین پر روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ کے درمیان تعلق کو مسلسل چھپائے رکھا۔ آخر کار میکرون ایک ماورائے پارلیمانی چال میں کٹوتیوں کے ذریعے ورکرز کو مجبور کرنے میں کامیاب ہوئے جب کہ یونینوں نے اس کے بعد ہونے والی ہڑتالوں اور احتجاج کو الگ تھلگ اور دبانے کے لیے کام کیا۔
20. سری لنکا میں بڑھتی ہوئی قیمتوں اور آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ اصلاحات کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں نے جولائی 2022 میں صدر گوتابایا راجا پاکسے کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ فرنٹ لائن سوشلسٹ پارٹی (ایف ایس پی) جیسے گروپوں کی حمایت یافتہ ٹریڈ یونین ڈھانچوں نے حزب اختلاف کو پارلیمانی فریم ورک اور سرکاری اپوزیشن پارٹیاں کے اندر ہی اندر رکھنے کے لیے کام کیا۔ راجا پاکسے کی جگہ رانیل وکرما سنگھے نے پارلیمانی ووٹ حاصل کر لیا جو سری لنکا کی سب سے زیادہ نفرت انگیز سیاسی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران وکرما سنگھے نے تمام بڑی بورژوا پارٹیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے تاکہ راجا پاکسے کی حمایت یافتہ وہی آئی ایم ایف پالیسیوں کا اطلاق کیا جا سکے بشمول 2023 کے آخر میں نئے ٹیکس جو بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اور غربت میں تیزی سے اضافہ کریں گے۔
21. امریکہ میں یونین اپریٹس نے بائیڈن انتظامیہ کے قریبی تعاون کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اور انکی خدمت کے لیے 2023 کی تمام بڑی ہڑتالیں الگ تھلگ کر کے انہیں بند کر دیا گیا۔ یو اے ڈبلیو نے صدر شان فین کی قیادت میں ستمبر اور اکتوبر میں ایک جعلی 'اسٹینڈ اپ ہڑتال' کی جس میں 145,000 بگ تھری آٹو ورکرز کی اکثریت کو ملازمت پر رکھا اور پھر ورکرز کے ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی ہڑتال ختم کر دی۔ ان معاہدوں کے زریعے مزدوروں کے ساتھ غداری کی گی جو مزدوروں کے مطالبات میں سے کسی کو پورا نہیں کرتے تھے۔ فین کو جعلی بائیں بازو کے گروہوں نے بہت زیادہ فروغ دیا بشمول امریکہ کے ڈیموکریٹک سوشلسٹ جو براہ راست کارپوریٹ یونین کے حامی اپریٹس میں لائے گئے ہیں۔
22. یو اے ڈبلیو کے اقدامات منفرد نہیں ہیں۔ ہر جگہ یونینوں کو ایک اعلیٰ متوسط طبقے کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے جس میں انکے الگ الگ سماجی مفادات ہوتے ہیں جو مزدوروں کے مفادات سے آزاد اور ان کے مخالف ہیں جن کی وہ نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ٹریڈ یونین بیوروکریسی کی مجموعی آمدنی جس میں لاکھوں افراد کام کرتے ہیں دسیوں اربوں ڈالر پر مبنی ہیں۔ یو اے ڈبلیو کے ڈیٹرائٹ ہیڈکوارٹر میں ملازم عملے کے لیے سالانہ تنخواہ 75 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ اے ایف ایل - سی آئی او کے ساتھ منسلک یونینوں میں اعلیٰ سطح کے ایگزیکٹوز جیسے کہ امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز کے صدر رینڈی وینگارٹن کو چھ اعداد کے ہندسوں کے برابر تنخواہ ملتی ہے جو کہ ٹریڈ یونینوں کے ارکان کے
رینک اور فائل کی اجرت سے دس سے بیس گنا زیادہ ہوتی ہے۔
23. 1940 میں ٹراٹسکی نے ٹریڈ یونینوں کے انحطاط کا تجزیہ کیا جسے اس نے 'سامراجی زوال کا عہد' قرار دیا۔
پوری دنیا میں جدید ٹریڈ یونین تنظیموں کی نشونما یا زیادہ درست طور پر انحطاط میں ایک مشترکہ خصوصیت پائی جاتی ہے انکا ریاستی طاقت کے ساتھ قریب ہونا اور بڑھنا ہے۔ یہ عمل غیر جانبدار، سوشل ڈیموکریٹک، کمیونسٹ اور 'انارکسٹ' ٹریڈ یونینوں کی یکساں خصوصیت ہے۔ یہ حقیقت صرف یہ ظاہر کرتی ہے کہ 'ایک ساتھ بڑھنے' کی طرف رجحان اس یا اس نظریے میں شامل نہیں ہے بلکہ تمام یونینوں کے لیے مشترکہ سماجی حالات سے پیدا ہوتا ہے۔
اجارہ دار سرمایہ داری مقابلہ بازی اور آزاد نجی اقدام پر نہیں بلکہ مرکزی کمانڈ پر قائم ہے۔ طاقتور ٹرسٹ، سنڈیکیٹس، بینکنگ کنسورشیم وغیرہ کے سربراہ سرمایہ دار گروہ معاشی زندگی کو ریاستی طاقت کی طرح ہی بلندیوں سے دیکھتے ہیں۔ اور انہیں ہر قدم پر مؤخر الذکر کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ان کے بدلے میں صنعت کی اہم ترین شاخوں میں ٹریڈ یونینز خود کو مختلف اداروں کے درمیان مقابلہ بازی سے منافع کمانے کے امکان سے محروم پاتی ہیں۔ انہیں ایک مرکزی سرمایہ دارانہ دشمن کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو ریاستی طاقت کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا ٹریڈ یونینوں کی ضرورت ہے - جب تک وہ اصلاح پسند عہدوں پر قائم رہتی ہیں یعنی خود کو نجی ملکیت کے مطابق ڈھالنے کے عہدوں پر خود کو سرمایہ دارانہ ریاست کے مطابق ڈھالنے اور اس کی جانب سے تعاون حاصل کرنے کے لیے۔
24. 84 سال پہلے ٹراٹسکی کے ذریعے شناخت کیے گئے رجحان نے اس کے بعد سے اس قدر خوفناک تناسب اختیار کر لیا ہے کہ اس وقت 'ٹریڈ یونینز' کے طور پر بیان کردہ تنظیمیں عملی طور پر اس اصطلاح کے تاریخی معنی سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ یہاں تک کہ اپنے 1940 کے مضمون 'سامراجی زوال کے عہد میں ٹریڈ یونینز' سے پہلے ٹراٹسکی نے (1937 میں) اصطلاحات کو اُنسیت بنانے کے رجحان کے خلاف خبردار کیا اس حد تک کہ پالیسی کا تعین کسی خاص تنظیم کے معروضی کردار کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے رسمی عنوان پر کیا جائے۔
اس نے لکھا:
مزدوروں کی تنظیم جیسا کہ ٹریڈ یونین کا کردار قومی آمدنی کی تقسیم سے اس کے تعلق سے متعین ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کہ گرین اینڈ کمپنی [اس وقت امریکن فیڈریشن آف لیبر کے رہنما] ذرائع پیداوار میں نجی املاک کا دفاع کرتے ہیں، انہیں بورژوا کی حیثیت دیتی ہے۔ اگر یہ حضرات محنت کشوں کے کسی بھی حملے سے بورژوازی کی آمدنی کا دفاع کرتے ہیں یعنی کہ ہڑتالوں کے خلاف، اجرتوں میں اضافے کے خلاف، بے روزگاروی کے خلاف جدوجہد وغیرہ کی؟ تب ہمارے پاس ہڑتال توڑنے والی کی تنظیم ہوگی، نہ کہ ٹریڈ یونین۔ ['مزدور نہیں اور بورژوا ریاست نہیں']
25. ٹراٹسکی کے معیار پر عمل کرتے ہوئے بڑی قومی ٹریڈ یونین تنظیمیں اور فیڈریشنز لفظ کے سب سے زیادہ لغوی معنی میں بھی 'ہڑتال توڑنے والی' تنظیموں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ بین الاقوامی کمیٹی کے سیکشنز کا کام مزدور طبقے کی ٹریڈ یونین بیوروکریسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر رینک اینڈ فائل کی بغاوت کی تیاری میں مدد کرنا ہے اور میلیٹنٹ کی نئی شکلیں تیار کرنا اور کارخانوں اور کام کی جگہوں پر رینک اینڈ فائل تنظیمیں بنانا ہے جس کے پاس تمام فیصلہ سازی کی طاقت مرکوز ہو کر ان میں منتقل ہو جائے گی۔ یہ نقطہ نظر عبوری پروگرام پر مبنی ہے جس میں ٹراٹسکی نے فورتھ انٹرنیشنل کے کیڈر پر زور دیا کہ 'ہر ممکن موقع پر ایسی آزاد میلیٹنٹ تنظیمیں بنائیں جو بورژوا سماج کے خلاف عوامی جدوجہد کے کاموں سے زیادہ قریب سے مطابقت رکھتی ہوں اور اگر ضروری ہو تو ٹریڈ یونینوں کے قدامت پسند ڈھانچہ کے ساتھ براہ راست ٹوٹنے کے باوجود بھی اور حواس باختہ ہوئے بغیر انکے سامنے نہیں جھکنا ہے۔'
26. چوتھی انڑنیشنل کی انڑنیشنل کمیٹی نے مزدوروں کو ٹریڈ یونین ڈھانچوں کی رکاوٹوں سے نجات دلانے کے لیے خود مزدوروں کے زیر کنٹرول تنظیموں کی بڑھوتی کے ذریعے جدوجہد کی ہے۔ جب اس نے اپریل 2021 میں انٹرنیشنل ورکرز الائنس آف رینک اینڈ فائل کمیٹیز (آئی ڈبلیو اے- آر ایف سی) کے لیے پہل شروع کی تو آئی سی ایف آئی نے وضاحت کی کہ وہ 'سرمایہ دار حکومتوں اور محنت کش طبقے کو متحارب دھڑوں میں تقسیم کرنے والی قومی، نسلی اور نسلی شاونزم اور شناختی سیاست کی لاتعداد شکلوں کے رجعتی حامی
کی ہر کوشش کی مخالفت کرتے ہوئے محنت کشوں کو ایک مشترکہ عالمی جدوجہد میں متحد کرنے کی کوشش کرے گی۔
قدرتی طور پر مزدوروں کو سامنا کرنے والے حالات ہر علاقے اور ملک کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں اور یہ طریقہ کار کے انتخاب کو متاثر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تمام ممالک میں موجودہ بیوروکریٹک ٹریڈ یونینیں ایک ادارہ جاتی پولیس فورس کے طور پر کام کرتی ہیں جو حکمران اشرافیہ اور ان کی حکومتوں کے کارپوریٹ اور مالی مفادات کو بڑھتی ہے اور محنت کشوں کی مزاحمت کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
27. ٹریڈ یونین بیوروکریسی رینک اور فائل کے درمیان سوشلسٹ اثر و رسوخ کی بڑھوتی کو روکنے کے لئے کسی بھی چیز سے باز نہیں آئے گی۔ لیکن وہ اپنے وسائل کے علاوہ سرمایہ دارانہ ریاست اور جعلی بائیں بازو کی بے پناہ حمایت کے باوجود یہ ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کی بڑھتی ہوئی میلیٹنسی امریکہ کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر سرمایہ داری کے معروضی بحران کی وجہ سے چل رہی ہے۔ پارٹی کو جو کام درپیش ہے وہ محنت کش طبقے کی جدوجہد میں مداخلت کرنا ہے اور اس میلیٹنسی کو ایک مکمل طور پر کام کرنے والے سوشلسٹ تناظر سے جوڑنا ہے جو شعوری طور پر سرمایہ داری کے خاتمے اور عالمی سطح پر محنت کشوں کے اقتدار کے قیام کی ایک تاریخی منزل ہے۔
28. چار سال قبل ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کا نئے سال کا بیان 3 جنوری 2020 کو اس عنوان کے ساتھ شائع کیا گیا تھا، 'سوشلسٹ انقلاب کی دہائی کا آغاز۔' اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی حالات کے اس جائزے نے متوسط طبقے کے سیاسی دیوالیہ جعلی بائیں بازو کی تنظیموں کو خوب ہنسایا۔ اس کے شمالی امریکہ کے قلعے میں سب سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ حکمرانی سے زیادہ ان کے لیے کوئی چیز ناقابل تسخیر نظر نہیں آتی۔ وہ نہ صرف 2020 کی دہائی میں انقلابی بحران کے آغاز کو ناقابل فہم سمجھتے ہیں۔ وہ اکیسویں صدی کے بقیہ 76 سالوں میں سوشلسٹ انقلاب کا شاید ہی تصور کر سکتے ہیں۔ ٹراٹسکی کے مستقل انقلاب کے نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے جعلی بائیں بازو کا سیاسی عمل سرمایہ داری کے مستقل ہونے پر غیر متزلزل ایمان پر مبنی ہے۔
29. لیکن جنوری 2020 سے اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے اس نے انڑنیشنل کمیٹی کی سیاسی تشخیص کو ثابت کیا ہے۔ نئی دہائی کا پہلا مہینہ ختم ہونے سے پہلے کوویڈ-19 پوری دنیا میں پھیل رہا تھا۔ اس بیان کے شائع ہونے کے تقریباً ایک سال بعد ٹرمپ اور اس کے ہجوم کی طرف سے آئین کو ختم کرنے اور فاشسٹ آمریت قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تین اور چار سال کے اندر جنگ میں اضافہ اور ساتھ ہی محنت کش طبقے کی بڑھتی ہوئی سماجی مزاحمت کا غلبہ چھیا رہا۔
30. یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ عالمی سرمایہ داری کا بحران ختم ہو جائے گا اور اس کی علامات مختصر مدت کے فلو کی طرح کم ہو جائیں گی۔ اس کے برعکس بحران شدت اختیار کرے گا اور محنت کش طبقے کی عالمی مزاحمت مزید پرعزم اور سیاسی طور پر باشعور ہو جائے گی۔ مؤخر الذکر عمل میں انڑنیشنل کمیٹی اس میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔
31. یہ کوئی فضول شیخی نہیں ہے۔ فورتھ انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی تاریخ کی ایک جماعت ہے۔ اس کا نظریاتی، سیاسی اور عملی کام ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط سامراجی دور میں انقلابی جدوجہد کے وسیع تجربے پر مبنی ہے۔ صرف اور صرف یہ پارٹی اکیلے مارکسزم کے تسلسل کی نمائندگی کرتی ہے جس سے ٹراٹسکی نے 1923 میں تعمیر کیا تھا جس نے سٹالنزم، سوشل ڈیموکریسی، پابلوائٹ ترمیم پرست، بورژوا قوم پرستی اور پیٹی بورژوا بنیاد پرستی کے خلاف اس کے قیام کے بعد سے اس کا دفاع اور جدوجہد کرتے ہوئے اسکی بڑھوتی کی ہے۔
32. انڑنیشنل کمیٹی نہ تو محنت کش طبقے کو درپیش خطرات کو کم پیش کرتی ہے اور نہ ہی انقلابی ہراول کیڈرز کو درپیش بڑے پیمانے پر چیلنج کے سامنا کو نظر انداز کرتی ہے۔ آئی سی ایف آئی ابھی تک کسی عوامی تحریک کی قیادت نہیں کرتی ہے۔ اس کے لیے محنت کش طبقے کی ماس جدوجہد میں بڑھوتی کی ضرورت ہے۔ تاہم یونائیٹڈ آٹو ورکرز کی صدارت کے لیے ول لیہمن کی حالیہ مہم میں مزدوروں میں مارکسی اثر و رسوخ کے بڑھنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ ایک انڑنیشنل سوشلسٹ کے طور پر کھل کر مہم چلاتے ہوئے اور بین الاقوامی ورکرز الائنس آف رینک اینڈ فائل کمیٹیوں کے پروگرام کی وکالت کرتے ہوئے لیہمن نے تقریباً 5,000 آٹو ورکرز کے ووٹ حاصل کیے۔ یہ کامیابی سب سے زیادہ اہم تھی کیونکہ بیوروکریسی مزدوروں کو الیکشن کے بارے میں آگاہ کرنے میں ناکام رہی لیکن ووٹنگ کو یو اے ڈبلیو ممبرشپ کے 10 فیصد سے کم تک محدود کرنے میں کامیاب رہی۔
33. آئی سی ایف آئی کے کیڈر کی نمایاں بڑھوتی اور نئے سیکشنز کی تعمیر کی بنیادیں رکھی گئی ہیں۔ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے ایک چوتھائی صدی کی مسلسل روزانہ اشاعت کے دوران عالمی سطح پہ ایک بڑی تعداد میں پڑھنے والوں کو پیدا کیا ہے۔ مسلسل سنسر شپ کے باوجود ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کو روزانہ دسیوں ہزار لوگ پڑھتے ہیں اور بین الاقوامی محنت کش طبقے اور طلباء نوجوانوں میں اس کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
34. مزید یہ کہ ٹراٹسکی تحریک کا کام سیاسی خلا میں نہیں ہوتا۔ عالمی بحران دسیوں اور سیکڑوں کروڑوں کو ریڈیکلیز کر رہا ہے۔ عوام کے ضروری مفادات اور حکمران طبقے کے مراعات کے درمیان خلیج روز بروز واضح ہوتی جا رہی ہے۔ سامراج کی طرف سے جنگ، نسل کشی، وبائی امراض اور فاشزم کو معمول پر لانا ماس شعور کو انقلابی سمت دے رہا ہے جو کہ محنت کش طبقے کے سیاسی نقطہ نظر میں سوشلزم کو معمول پر لانے کے لیے ایک زبردست تحریک فراہم کرے گا۔
35. ہم ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے تمام قارئین سے ناگزیر نتیجہ اخذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جو اس تناظر سے ابھرتا ہے۔ بربریت کی جانب گرتے ہوئے سماج کو روکو! آمریت، عدم مساوات اور جنگ کے خلاف محنت کش طبقے کی طاقت کو متحرک کریں! اکیسویں صدی کے مارکسزم، ٹراٹسکی ازم کے لیے جدوجہد کریں! سوشلسٹ ایکولیٹی پارٹی میں شامل ہوں اور سوشلسٹ انقلاب کی عالمی پارٹی بنائیں!