اُردُو
Perspective

محنت کش طبقہ کی سرمایہ دارانہ بربریت کے خلاف جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کی عالمی پارٹی کی تعمیر (حصہ دوئم)

یہ اس تناظر کا دوسرے حصے کا اردو ترجمہ ہے 'The working class, the fight against capitalist barbarism, and the building of the World Party of Socialist Revolution (Part Two)' جو 4 جنوری 2024 کو انگریزی میں شائع ہوا۔

کوویڈ-19 وبائی بیماری اور بڑے پیمانے پر اموات اور مصائب کو معمول پر لانے کے لیے

1. جیسے ہی نیا سال شروع ہوتا ہے کوویڈ-19 وبائی بیماری عالمی آبادی کی زندگیوں اور صحت پر بے تحاشا نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس وقت دنیا بڑے پیمانے پر انفیکشن کمزوری اور موت کی ایک اور لہر کو برداشت کر رہی ہے جو کہ بہت زیادہ تبدیل شدہ انتہائی متعدی اور مدافعتی مزاحمتی جیاین-1 قسم کی وجہ سے ہوا جو دسمبر میں تیزی سے عالمی سطح پر غالب ہو گیا ہے ہر سرمایہ دار حکومت اور کارپوریٹ میڈیا کے جھوٹ پر مبنی تھا جو ستمبر 2022 میں بائیڈن کے اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'وبائی مرض ختم ہو گیا ہے' پروپیگنڈے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

2. سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے جاری کردہ سب سے حالیہ گندے پانی کے اعداد و شمار کے مطابق جو کہ اب وائرس کے پھیلاؤ کو ٹریک کرنے کے لیے واحد قابل اعتماد پیمائش کا طریقہ کار ہے جو کہ تمام وبائی امراض کی نگرانی کے نظام کو ختم کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ پہلے ہی پوری وبائی بیماری کی وائرل ٹرانسمیشن کی دوسری اعلی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ اس سے پہلے تھا کہ 115 ملین امریکیوں نے تعطیلات کے لئے خاندان کے افراد سے ملنے کے لئے طویل فاصلے کا سفر کرتے ہوئے نادانستہ طور پر اپنے پیاروں میں وائرس پھیلایا۔

3. سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ یہ لہر جلد ہی تقریباً فی دن کے حساب سے 2 ملین انفیکشنز تک پہنچ جائے گی اور یہ کہ امریکی آبادی کا تقریباً ایک تہائی یعنی کہ 100 ملین افراد اس لہر کے دورانیے میں کوویڈ-19 سے متاثر ہوں گے۔ اُن تمام ممالک میں جہاں گندے پانی کے ڈیٹا کا ابھی تک پتہ لگایا جا رہا ہے اُس میں پچھلے مہینے کے دوران اسی طرح کے قریب ریکارڈ یا حتیٰ کہ ریکارڈ سطح کی ترسیل کو دستاویز کیا گیا ہے جس میں جے این-1 عالمی سطح پر غالب ہو گیا ہے۔

4. ہر وہ ختم یا پس پردہ کر دیے جانے والے اینڈیکیٹر جیسا کہ ہسپتال میں داخل ہونا اموات اور لانگ کوویڈ سے متاثر ہونا یہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں عالمی سطح پر مسلسل اور مزید خراب ہوتے جائیں گے۔ ریاستہائے متحدہ کے سب سے زیادہ متاثرہ شمال مشرقی اور مڈویسٹ علاقوں میں پہلے سے ہی اسپتالوں میں داخل ہونے کی تعداد بڑھ رہی ہے جس سے متعدد اسپتالوں کو مریضوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے زندہ رہنے کی مایوس کن کوشش میں ماسک مینڈیٹ کو دوبارہ نافذ کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ روم اور اٹلی کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے ہسپتال سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکہ میں باضابطہ کوویڈ-19 اموات پچھلے تین مہینوں سے ہر ہفتے 1,000 سے تجاوز کر گئی ہیں اور اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ڈبلیو ایچ او کے قدامت پسندانہ اندازے کے مطابق 10 فیصد انفیکشن لانگ کووڈ کا باعث بنتے ہیں آنے والے مہینوں میں کم از کم 10 ملین مزید امریکی اس خوفناک مصیبت کا شکار ہوں گے۔

لانگ کوویڈ کی کچھ سب سے زیادہ عام علامات

5. وبائی مرض کی موجودہ حالت سے متعلق تمام حقائق اور اعداد و شمار عالمی آبادی سے پوشیدہ رکہے گے ہیں جو نہ ختم ہونے والے جھوٹ دوسروں پر الزام ترشی اور پروپیگنڈے کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جو اب خاموشی کے پردے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ حکومت، کارپوریشنز، میڈیا اور ٹریڈ یونین بیوروکریسیوں کے ذریعے نافذ کردہ بحران کی اصل سنگینی کو ایک منظم انداز میں اسکی پردہ پوشی کی گی ہے۔ سرکاری پالیسی محض وبائی مرض کی حقیقت کو نظر انداز کرنے اس سیانکار کرنے اور اسے غلط ثابت کرنے میں تبدیل ہو گئی ہے چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں کیونکہ لاکھوں لوگ بیمار ہیں اور ہزاروں لوگ روزانہ عالمی سطح پر مر رہے ہیں۔

6. سرمایہ دار طبقے نے 'ہمیشہ کے لیے کوویڈ' کی پالیسی کا انتخاب کیا ہے جس سے ہر سال اربوں لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے وائرس کو مفت لگام کا موقع فراہم کیا گیا ہے جس سے لاکھوں افراد کمزوری کا شکار اور ہلاک ہو رہے ہیں اور غیر جانچ شدہ وائرل ارتقا کے لیے بہترین حالات اور ماحول پیدا کیے جاتے ہیں۔ اصولی سائنسدان خبردار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی چیز روک تھام نہیں کر سکتی اصولی کوویڈ-19 کو کہیں زیادہ پیتھوجینک اور مہلک بننے سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ہے، اور تمام تخفیف کو ختم کر دینے سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ وائرس کی اس طرح کی مختلف شکلیں اور تیار ہوسکتی ہیں۔

7. جس طرح حکمران اشرافیہ نے نسل کشی اور ایٹمی جنگ کو معمول بنایا ہے اسی طرح انہوں نے کوویڈ-19 کے بلا روک ٹوک پھیلاؤ کے ذریعے جان بوجھ کر جاری اجتماعی موت اور انسانی مصائب کو معمول بنایا ہے۔ انسانی زندگی کے بارے میں وہی بے حسی اب اقتدار کے ایوانوں میں پھیلی ہوئی ہے سب سے بڑھ کر سامراجی مراکز میں جو 21 وی صدی کی قیادت کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو بربریت کی طرف لے جا رہے ہیں۔

8. وبائی امراض کی وجہ سے موت کی حقیقی سطح کا سب سے درست پیمانہ وبائی امراض سے پہلے کی بنیادوں سے زیادہ اموات ہیں۔ 2020 میں اکانومسٹ کے ٹریکر کے مطابق وبائی مرض سے 5,460,000 اموات ہوئیں۔ 2021 میں وبائی مرض کا سب سے مہلک سال جس میں ڈیلٹا ویریئنٹ نے صرف ہندوستان میں ہی لاکھوں افراد کو ہلاک کیا جس سے حیرت انگیز طور پر 12,540,000 اضافی اموات ہوئیں۔ 2022 میں مزید 6,900,000 اضافی اموات ہوئیں۔ پچھلے سال کے دوران 18 نومبر تک 2,500,000 سے زیادہ اموات ہوئیں یہ آخری تاریخ تھی جب دی اکانومسٹ نے اپنے ٹریکر کو اپ ڈیٹ کیا تھا۔ مجموعی طور پر اب 27.4 ملین مجموعی اضافی اموات ہیں جو 7 ملین کے سرکاری اعداد و شمار سے چار گنا زیادہ ہیں۔

9. ان اموات میں سے زیادہ تر براہ راست کوویڈ-19 سے منسوب ہیں یا تو انفیکشن کے شدید مرحلے کے دوران یا جسم پر وائرس کے بے شمار منفی اثرات کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں۔ جیسا کہ 2020 سے ہزاروں مطالعات میں دستاویز کیا گیا ہے کہ ایک کوویڈ-19 انفیکشن سے دل کا دورہ، فالج، گردے کی بیماری، ذیابیطس، مدافعتی کمزوری، مختلف اعصابی عوارض اور بہت کچھ کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔

10. روکی جانے والی موت کی اس بے پناہ سطح سے آگے وبائی بیماری نے انسانی تاریخ میں سب سے بڑی کمزوری کی بیماری کو بھی پیدا کیا ہے۔ دنیا بھر میں اب کروڑوں لوگ طویل عرصے سے اسی علامات کا شکار ہیں جسے لانگ کوویڈ کہا جاتا ہے جو جسم کے تقریباً ہر عضو کو متاثر کر سکتی ہے۔ متعدد مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ لانگ کوویڈ ہونے کا خطرہ ہر ایک دوبارہ انفیکشن کے ساتھ بڑھ جاتا ہے، کینیڈا میں پچھلے مہینے شائع ہونے والی شماریات میں ایک تحقیق کے ساتھ پتہ چلا ہے کہ لانگ کوویڈ میں مبتلا ہونے والے کینیڈینوں کا 14۔6 فیصد ان کے پہلے کوویڈ-19 انفیکشن کے بعد اب بڑھ کر تیسرے انفیکشن کے بعد 38 فیصد ہو گیا ہے۔ 

'ہمیشہ کے لیے کوویڈ' پالیسی کا ارتقا

11. وبائی مرض کے پہلے سال میں مختلف ممالک اور ہر ملک کے حکمران طبقے کے مختلف حصوں میں کوویڈ کے حوالے سے تین متبادل حکمت عملی سامنے آئی: خاتمہ، تخفیف اور 'اجتماعی مدافعت۔' بغیر کسی پبلیک ہیلتھ کے اقدامات کے صرف وائرس کو پھیلنے کی اجازت دینے کی مؤخر الذکر پالیسی سب سے پہلے سویڈن، برطانیہ، برازیل، امریکہ کے کچھ حصوں اور دیگر ممالک میں نافذ کی گئی۔ اس پالیسی نے تیزی سے آبادیوں کے خلاف جنگ کی شکل اختیار کر لی اور جو لفظ کے مکمل معنی میں مجرمانہ تھیں۔

12. سرمایہ دارانہ منافع خوری کے خام حساب کتاب نے ان ممالک کو اپنی پالیسی فیصلوں کا حکم دیا کہ اسٹاک مارکیٹوں میں ایک ارب ڈالر کے نقصان سے بہتر ہے کہ دس لاکھ لوگ مر جائیں۔ مارچ اور اپریل 2020 میں عالمی مالیاتی دارالحکومتوں میں کیئرز ایکٹ اور دیگر بیل آؤٹ حاصل ہونے کے بعد حکمران طبقے کا رویہ فوری طور پر صحت عامہ کے لیے پہلے سے زیادہ دشمنی اور لانگ کوویڈ کے ساتھ بڑے پیمانے پر موت اور کمزوری سے لاتعلق ہو گیا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اس قتل عام کے نقطہ نظر کے خلاصہ کا جواب اس طرح دیا جب انہوں نے کہا کہ کوویڈ-19'بوڑھے لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا صرف فطرت کا طریقہ تھا'، جیسا کہ حالیہ برطانوی کوویڈ انکوائری میں انکشاف ہوا ہے۔

وزیر اعظم بورس جانسن (بائیں) 10 اکتوبر 2020 کو چانسلر آف دی ایکسکیور، رشی سنک کے ساتھ ایک کوویڈ-19 پریس کانفرنس کر رہے ہیں [Photo by Pippa Fowler/No 10 Downing Street / CC BY 2.0]

13. امریکہ میں نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس فریڈمین نے سویڈن کی لاپرواہی کی پالیسی کو اپنایا اور اس فقرے کو تیار کر کے پیش کیا، 'علاج بیماری سے بدتر نہیں ہو سکتا'، جو جلد ہی ڈونلڈ ٹرمپ کا ان کے بیک ٹو ورک، لاک ڈاؤن مخالف پروپیگنڈے کے لیے منتر بن گیا۔ کوویڈ سرمایہ داری اور طبقاتی جنگ کے تعارف میں: وبائی امراض کی ایک سماجی اور سیاسی تاریخ ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے لکھی:

خلاصہ یہ کہ اس فقرے نے مالیاتی طبقہ کے طبقاتی مفادات کا اظہار کیا جو دو ہفتوں سے بھی کم عرصے کے بعد لاک ڈاؤن یا صحت عامہ کے دیگر ضروری اقدامات کو برداشت نہیں کرے گا جس نے وائرل ٹرانسمیشن کو سست کردیا لیکن کارپوریشنوں کو اس افرادی قوت سے محروم کردیا جس کی انہیں یہ مزدوری استحصال کے لیے درکار تھی جو شرح منافع کو بڑھنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ 

14. دیگر ممالک میں تخفیف کی حکمت عملی کے تحت ماسک پہننے کے ساتھ ساتھ 2020 میں مزید سخت لاک ڈاؤن نافذ کیے گئے تھے۔ 2021 میں ویکسین کے آنے کے ساتھ یہ نقطہ نظر وسیع ہو گیا کہ ویکسینیشن، ماسکنگ اور دیگر محدود تخفیف کے اقدامات کے ذریعے وبائی مرض کو بتدریج ختم کر دیا جائے گا۔ یہ ایک خیالی پلوا ہی ثابت ہوا جو مئی 2021 میں زیادہ پیتھوجینک ڈیلٹا قسم اور خاص طور پر نومبر 2021 میں انتہائی متعدی اومیکرن جیسی قسم کے ارتقاء کے ساتھ یہ حکمت عملی ہوا میں تحلیل ہو گی۔

15. جیسا کہ اومیکرون نے تیزی سے اربوں افراد کو متاثر کیا اور پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا وبائی مرض کے خلاف عالمی سرمایہ دارانہ ردعمل نے کوویڈ-19 کے پھیلاؤ کو کم کرنے کی تمام کوششوں کو کھلے عام کمزور کرنے اور انکار میں تبدیل کردیا۔ اومیکرن اور اس کی تمام اقسام کو 'ہلکے'، 'مقامی' اور موسمی فلو سے موازنہ کرنے کے لیے ایک بے لگام پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ 2022 کے دوران اسکولوں اور دیگر پبلیک مقامات سے ماسک کے تمام مینڈیٹ کو ہٹا دیا گیا مفت پی سی آر ٹیسٹنگ سائٹس کو ختم کر دیا گیا اور کیسز کی تعداد جو ہسپتال میں داخل ہو رہے تھے انکی رپورٹینگ بند کر دی اور اسکے ساتھ ہی اموات کی ڈیٹا رپورٹنگ کو بتدریج ختم کر دیا گیا۔

16. یہ مہم صرف 2023 کے دوران مزید گہری ہوئی گزشتہ مئی میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) بائیڈن انتظامیہ اور دیگر قومی صحت کے اداروں نے اپنے کوویڈ-19 پبلک ہیلتھ ایمرجنسی (پی ایچ ای) کے اعلانات کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا جس میں قانون میں ضابطہ بندی کی گئی۔ ایک صدی سے زیادہ عرصے میں صحت عامہ کے سب سے بڑے بحران کے بارے میں تمام سرکاری ردعمل کو پہلے ہی درحقیقت عملی طور پر ترک کر دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی آبادی کے بڑے حصے غیر مسلح ہو گئے ہیں اور وبائی امراض کے جاری خطرات سے بے خبر ہیں۔

17. ایک ہی وقت میں پی ایچ ای کے خاتمے نے تمام وبائی نگرانی کو ختم کرنے میں سہولت فراہم کی بشمول کیسز اور اموات کی رپورٹنگ نیز ہسپتالوں میں ٹیسٹنگ، سرکاری اعدادوشمار کو مکمل طور پر غلط قرار دیے دیا گیا۔ اس پالیسی تبدیلی کی وجہ سے تمام ٹیسٹنگ، ویکسین اور علاج کی نجکاری کو بھی حتمی شکل دے دی۔ فائزر اور موڈرنا اب مریضوں اور انشورنس کمپنیوں سے ان کی ویکسین کے لیے 1000 ڈالر سے زیادہ وصول کرتے ہیں۔ ممکنہ طور پر آنے والے سال میں جب حکومتی سپلائی ختم ہو جائے گی اور فائزر اپنے جان بچانے والے علاج پکسلویڈ کی قیمت 1390 ڈالر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 2023 میں 13.4 ملین سے زیادہ امریکیوں کو میڈیکیٹ سے خارج کر دیا گیا ہے اور 2024 میں لاکھوں مزید اس اہم صحت بیمہ سے محروم ہوں گئے۔ ملک بھر کے ہسپتالوں نے ماسک مینڈیٹ کو ختم کر دیا ہے جو سب سے زیادہ خطرے میں پڑنے والی آبادیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے جس کی وجہ سے ہسپتالوں سے حاصل کیے جانے والے اخراجات میں ایک بڑا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال کوویڈ-19 انفیکشن اور اموات کا یہ عمل پورے یورپ میں بھی اسی طرح سامنے آئے ہیں جبکہ پوری دنیا میں اپڈیٹ شدہ بوسٹر ڈوز اور پکسلویڈ جیسے علاج کی سہولیت آبادی کی اکثریت کے لیے بھی دستیاب نہیں ہیں۔

18. 'ہمیشہ کے لیے کوویڈ' کے آفاقی اختیار نے حکمران طبقے کے تمام طبقوں کے اندر یوجینسٹ تصورات کے احیاء کو فروغ دیا ہے۔ بڑے پیمانے پر انفیکشن، کمزوری اور موت کی دائمی لہروں کا جواز پیش کرنے کے لیے بوڑھوں اور سب سے زیادہ کمزوروں کو سرکاری طور پر معاشرے کے لیے بے کار سمجھا جاتا ہے۔

19. اس فاشسٹ آئیڈیالوجی کی سب سے واضح شکلوں کو بائیڈن انتظامیہ کے تحت امریکہ میں صحت عامہ کے دو اعلیٰ عہدیداروں روچیل والینسکی اور انتھونی فوکی نے پروان چڑھایا تھا۔ 7 جنوری 2022 کو اومیکرن کے مختلف قسم کے ظہور کے چند ہفتوں بعد اور بڑھتے ہوئے کوویڈ-19 میں مبتلا ہسپتالوں میں داخل ہونے اور ان اموات کے حالات میں والینسکی نے اے بی سی ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ 'حوصلہ افزا خبر' ہے کہ 'بڑی تعداد میں اموات' اُن 'لوگوں میں جو شروع ہونگی جو صحت کے اعتبار سے بہتر نہیں ہیں۔' تقریباً دو سال بعد 28 اگست 2023 کو فوکی نے بی بی سی کو بتایا کہ 'کمزور لوگ راستے میں گریں گے وہ انفکشن سے متاثر ہو جائیں گے اور وہ ہسپتال میں داخل ہوں گے اور کچھ مر جائیں گے۔'

ڈاکٹر انتھونی فوکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشن ڈیزیز کے ڈائریکٹر۔ [اے پی فوٹو/سارہ سلبیگر] [AP Photo/Sarah Silbiger]

20. وبائی امراض کے چوتھے سال کے دوران سائنس پر حملے اپنے بلند ترین مقام پر پہنچ گئے جس میں ماسکنگ کی حوصلہ شکنی اور مخالفت کرنے کی مہم میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی بنیاد یہ تھی کہ 'وبائی بیماری ختم ہو چکی ہے' جو کہ عالمی سطح پر اس وبا کو اپنانے کے جھوٹے دعوے کی بنیاد پر استوار کیے گے تھے۔ عالمی سطح پر تمام حکومتوں اور کارپوریٹ میڈیا آؤٹ لیٹس سے پھیلنے والی یہ منظم غلط معلومات کی مہم سائنس اصولوں کے لیے کوئی بنیاد نہیں رکھتے۔

21. آخر میں طاقتور مالیاتی اور اقتصادی مفادات نے جان بوجھ کر متوقع عمر کو کم کرنے کی دانستہ کوشش کے حصے کے طور پر تخفیف کو ترک کرنے کو فروغ دیا ہے۔ اس یوجینسٹ پالیسی کو بائیڈن انتظامیہ میں صحت عامہ کے سرکردہ حکام نے نافذ کیا تھا۔ بائیڈن خود، جو 'سائنس کی پیروی' کرنے اور وبائی بیماری کو روکنے کے اپنے مہم کے وعدے کی وجہ سے جزوی طور پر منتخب ہوئے تھے نے 700,000 کوویڈ سے زیادہ امریکیوں کی اموات کی نگرانی کی ہے جس میں اس نے اعتراف کیا کہ یہ اسی ھلاکتیں ہیں کہ اس نے اس کے بارے میں جنوری 2023 ' تک سوچنا چھوڑ دیا'۔ 

22. وبائی مرض کے خلاف جنگ کو سائنسی برادری پر ایک بے لگام حملے نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور اس عمل میں پیٹر ہوٹیز جیسے سائنسدانوں کی زندگیوں کو لاحق جسمانی خطرات سے دوچار کیا ہے اس مہم کو ڈیموکریٹک پارٹی نے فروغ دے کر خود کو اس میں ڈھال لیا ہے۔ اسی وقت پبلیک تعلیم کئی دہائیوں کے بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد آزادانہ زوال کی حالت میں ہے جو کہ اب وبائی امراض کی تمام اضافی فنڈنگ ​​کے ختم ہونے کے بعد مزید پیچیدہ ہو رہی ہے۔ روشن خیالی کے بعد سے ہر ترقی پسند ترقی بشمول صحت عامہ کے تمام بنیادی اصولوں کو حکمران طبقے کی طرف سے فسطائیت اور جوہری جنگ کی جانب بڑھتے ہوئے ان میں پنجے گاڑ دیے ہیں۔

2024 میں کوویڈ کے خاتمے کے لیے عالمی لڑائی

23. وبائی مرض کے خاتمے کے لیے تیسری حکمت عملی چین اور دیگر ممالک میں تجربے کے ذریعے شروع سے ہی ممکن ثابت ہوئی جس نے یہ ظاہر کیا کہ اجتماعی موت کی پالیسی اور پروگرام کا متبادل موجود ہے۔ صحت عامہ کے طریقوں کے درست اطلاق کے ذریعے جو صدیوں سے تیار کیے گئے اور اس شعبے کے ماہرین کے لیے معروف ہیں کوویڈ-19 کی منتقلی کو روکا جا سکتا ہے اور جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

24. چین میں وبائی مرض کے بارے میں اس کی ابتدائی غلط پالیسی نے آبادی میں بڑھتی ہوئی مخالفت کو بھڑکا دیا جس کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے جنوری 2020 میں تیزی سے راستہ بدل دیا اور ضروری لاک ڈاؤن نافذ کر دیا، جس میں بڑے پیمانے پر جانچ، سخت رابطے کا پتہ لگانے اور تمام متاثرہ مریضوں کی محفوظ تنہائی میں رکھنا شامل تھا اس سے وائرل ٹرانسمیشن کی تمام راستوں کو روکنے کے مقصد کے ساتھ 76 دنوں کے بعد آبادی لاک ڈاؤن سے نکلی اور وبائی امراض سے پہلے کے نسبتاً معمول کے حالات میں واپس آگئی۔ چین کی سرحدوں سے داخل ہونے والے وائرس کے خطرے پر کڑی نظر رکھی گئی اور ہر ایک پھلتی وبا کو روک کر ختم کیا گیا۔ نیوزی لینڈ، ویتنام، آسٹریلیا اور دیگر ممالک نے چین کے ماڈل کی پیروی کی اور اسی طرح طویل عرصے تک زیرو کوویڈ کو برقرار رکھنے کے قابل رہے۔

25. وبائی بیماری کے پہلے سال کے دوران جب کہ بین الاقوامی سطح پر لاکھوں افراد ہلاک ہوئے چین میں ابتدائی وباء میں صرف 4,634 جانیں ضائع ہوئیں جس کے بعد اگلے سال صرف چار اموات ہوئیں۔ تاہم اس خاتمے کی حکمت عملی کی طویل مدتی عملداری اس کے بین الاقوامی اطلاق پر منحصر رہی ہے۔ چین کی معاشی حکمت عملی میں یہی بنیادی تضاد اور قوم پرست بنیادوں پر ملک کی پوری ترقی وبائی مرض کے دوران المناک طور پر ظاہر ہوئی ہے۔

26. اگلے ڈھائی سالوں کے لیے سامراجی طاقتوں نے جنگ کی اپنی دیرینہ تیاریوں کے حصے کے طور پر چین کے خلاف وبائی بیماری کو ہتھیار بنایا۔ اس چین مخالف پروپیگنڈے کے مرکزی محور 'ووہان لیب جھوٹ' پر مبنی تھا - ایک سازشی نظریہ جو ٹرمپ کے فاشسٹ مشیر اسٹیو بینن نے جنوری 2020 میں کوویڈ وبائی مرض کی اندرون ملک سنگینی کی صورت حال اور حقیقت سے توجہ ہٹنے کے لیے چین پر وبائی امراض کے تمام الزامات تیار کر کے عائد کیے گے اور زیرو کوویڈ پالیسی کے خلاف برسراے پیکار رہے۔ یہ ایپل، نائیکی اور دیگر بڑی مغربی کارپوریشنوں کی طرف سے 2022 کے موسم خزاں میں اپنی پیداواری سہولیات کو چین سے باہر منتقل کرنے کے لیے واضح دھمکیوں پر منتج ہوا جس نے عارضی لاک ڈاؤن کے جواب میں اومیکرن قسم کے پھیلاؤ کو روکا۔ درحقیقت سامراج نے سستی مزدوری کی ضمانت کے بدلے چینی آبادی کی زندگیوں اور صحت کو نقصان پہنچایا۔

27. آخر کار ان دباؤ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے چینی حکومت نے نومبر اور دسمبر 2022 کے درمیان تمام زیرو کوویڈ اقدامات کو تیزی سے ختم کرنے کا بالکل سفاکانہ اور رجعتی فیصلہ کیا۔ جو چینی آبادی کے لیے یہ تباہ کن نتائج سے کچھ کم نہیں تھے۔ متعدد سائنسی مطالعات کا اندازہ ہے کہ اس پالیسی کی تبدیلی کے نتیجے میں گزشتہ موسم سرما میں 1-2 ملین چینی لوگ کوویڈ-19 سے ہلاک ہوئے۔ تب سے چین کو عالمی 'ہمیشہ کے لیے کوویڈ' پالیسی میں ضم کر دیا گیا ہے۔ پچھلے سال انفیکشن اور موت کی متعدد لہروں کے بعد ملک کی 1.4 بلین آبادی میں سے 100 ملین سے زیادہ چینی باشندے اب لانگ کوویڈ میں مبتلا ہیں۔

چین میں ایک ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ 3 جنوری 2023۔ [اے پی فوٹو/اینڈی وونگ] [AP Photo/Andy Wong]

28. چین میں زیرو کوویڈ کے ساتھ دیرینہ کامیابی نے کم ترقی یافتہ اور گنجان آبادی والے ممالک میں بھی کوویڈ-19 کے خاتمے کی حکمت عملی کو ثابت کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی حتمی موت نے سامراج کے عہد میں کسی بھی قومی سطح پر مبنی پروگرام کے ناقابل عمل ہونے کی پرزور تصدیق کی ہے۔ جو چیز ناقابل عمل ثابت ہوئی وہ قومی فریم ورک تھا نہ کہ پالیسی۔ خاتمہ قابل عمل اور ضروری دونوں ہی رہتا ہے لیکن اب یہ صرف درج ذیل اصولوں کے لیے لڑنے والی بڑی تحریک کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

  • وبائی مرض کے خلاف جنگ ایک سیاسی اور انقلابی سوال ہے جس کے لیے سوشلسٹ حل کی ضرورت ہے۔
  • صحت عامہ کی تنظیم سماجی ضرورت کی بنیاد پر ہونی چاہیے نہ کہ کارپوریٹ منافع کی۔
  • منافع کے مقصد کو تمام صحت کی دیکھ بھال، دواسازی اور انشورنس کمپنیوں سے مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہئے.

29. وبائی مرض کو روکنے کا واحد طریقہ عالمی سطح پر مربوط خاتمے کی حکمت عملی ہے جس میں پوری دنیا کی آبادی یکجہتی کے ساتھ کام کرتی ہے اور ایک وسیع البنیاد صحت عامہ کے پروگرام کو نافذ کرنے کے اجتماعی عزم کے ساتھ کام کرتی ہے۔ یہ حکمت عملی بڑے پیمانے پر جانچ، رابطے کا پتہ لگانے، تمام متاثرہ مریضوں کی محفوظ تنہائی اور علاج اعلیٰ معیار کے ماسک کے عالمی استعمال اور ایچ ای پی اے فلٹرز کے ذریعے اندر کے لیے صاف ہوا فراہم کرنے کے لیے تمام عوامی عمارتوں کی تزئین و آرائش اور فار- یو وی سی آلات کے محفوظ نفاذ پر مرکوز ہونی چاہیے۔ 

30. وبائی بیماری کے چار سالوں کے بعد یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ عالمی سرمایہ داری کے تحت ایسی عالمی حکمت عملی کبھی پیدا نہیں ہو سکتی جو صحت عامہ کے تمام اخراجات کو پیسے کے دیوانے مالیاتی اشرافیہ کے ناقابل تسخیر منافع بخش مفادات کے کنٹرول سے چھین لے۔ یہ خیال کہ کسی بیماری کو ختم یا خاتمہ کیا جانا چاہیے صحت عامہ کا یہ مرکزی تصور ترک کر دیا گیا ہے۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس وبائی مرض کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور ساتھ ہی سرمایہ دارانہ بربریت اور تیسری عالمی جنگ کی جانب حرکت کو روکا جا سکے گا۔

31. وبائی مرض کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے وجودی خطرے پر اور بھی زیادہ طاقت کے ساتھ لاگو ہوتا ہے جس کا اثر دنیا کے وسیع حصوں میں پہلے سے زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں تقریباً روزانہ درجہ حرارت کے ریکارڈ ٹوٹنے اور متعدد شدید موسمی واقعات کا مشاہدہ کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر جنگل کی آگ گرمی کی لہریں اور فضائی آلودگی ہر براعظم پر پھیل چکی ہے جب کہ عالمی سطح پر برف کے تودوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے میں تیزی آرہی ہے۔ متعدد مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور غیر منصوبہ بند شہری کاری کے ذریعے زمین کے ماحولیاتی نظام کا عدم استحکام ہزاروں پرندوں اور جانوروں کو ان کے آبائی رہائش گاہوں سے باہر دھکیل رہا ہے اس طرح شدید واقعات اور مستقبل میں وبائی امراض کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

کیوبیک کینیڈا کے جنگل میں لگی آگ کا دھواں 7 جون 2023 کو نیو جرسی اور نیو یارک سٹی کا احاطہ کرتا ہے۔ [تصویر از انتھونی کوئنٹانو] [Photo by Anthony Quintano]

32. سائنس کی ترقی اور معاشرے کے وسائل کی ان اہم سماجی ضروریات کو پورا کرنے کا عمل صرف عالمی سوشلسٹ معاشرے میں ہی ممکن ہے۔ جنگ کے خلاف جدوجہد وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جدوجہد کے لیے ایک بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ فورتھ انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی دنیا کی واحد حقیقی سوشلسٹ تحریک ہے جو ان پالیسیوں کے لیے لڑ رہی ہے۔

33. یہ حیرت انگیز حقیقت ہے کہ وبائی امراض کے موضوع پر عالمی سوشلسٹ ویب سائٹ نے جو کوریج کی ہے اس کے برابر کسی نے بھی نہیں کی ہے۔ وبا کے خلاف واحد منظم متحد مہم آئی سی ایف آئی اس سے منسلک سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹیز اور ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے پوری دنیا میں چلائی ہے۔ متوسط ​​طبقے کے مختلف بائیں بازو کے رجحانات نے یا تو وبائی مرض کو نظر انداز کر دیا ہے یا کھلے عام 'ہمیشہ کے لیے کوویڈ' کو قبول کر لیا ہے۔ ٹریڈ یونین بیوروکریسیوں نے مسلسل حکمران طبقے کے مفادات کی خدمت کی ہے۔ ہر صنعت میں رینک اور فائل ورکرز کی طرف سے اٹھائے گئے بے پناہ خدشات کے پیش نظر اور سب سے بڑھ کر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے مزدوروں اور اساتذہ کے درمیان جو انتہائی خطرناک حالات میں تحفظ کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں - یونین بیوروکریٹس ٹاسک ماسٹر کے طور پر کام کرتے ہیں جو مزدوروں کو کمزوری اور موت کی جانب دکھیلتے ہوئے

بڑے پیمانے پر انفیکشن کے لیے قربان کرتے ہیں،

34. وبائی مرض کے خلاف جنگ ایک مکمل انقلابی سوال ہے۔ آئی سی آیف آئی واحد سیاسی تنظیم ہے جس نے شروع سے ہی اس بات کو سمجھا ہے اس کے لیے جدوجہد کی ہے اور محنت کش طبقے کے اندر تعلیم اور وضاحت کے ساتھ ایک منظم مہم چلائی ہے۔ وبائی مرض پر 6,000 سے زیادہ مضامین ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس پر شائع ہو چکے ہیں۔ خصوصی سائنسی جرائد اور نیوز لیٹرز کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی دوسری خبر کی اشاعت، بورژوا یا جعلی بائیں بازو کے پریس میں سے وبائی امراض کی شدت اور اٹھان کو دیانتداری اور منظم طریقے سے کور کرنے کے لیے کچھ بھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔

35. وبا کے خلاف جنگ کو آنے والے سال میں محنت کش طبقے کی جدوجہد کے محور میں رکھا جانا چاہیے جو صرف معاہدہ کے مسائل تک محدود نہیں رہے گا۔ گہرے سماجی مسائل اس جنگ کے مرکز میں ہیں بشمول زندگی اور صحت کے بنیادی حقوق اور صحت عامہ کے لیے صدیوں سے جاری جدوجہد صرف آئی سی آیف آئی جو محنت کش طبقے کے تاریخی مفادات کا اظہار کرتی ہے عالمی سطح پر ان اصولوں کے لیے لڑی ہے اور لڑتی رہے گی۔

Loading