یہ 13 فروری 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے “Infighting in Pakistan’s ruling elite intensifies following shock election result' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
پاکستان میں گزشتہ جمعرات کے انتخابات کے نتائج جو دنیا کی پانچویں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے اسکی فوج کے لیے ایک بڑھ جھٹکا ہے جو اس کے سب سے طاقتور سیاسی اداکار ہیں۔
عدلیہ اور ریاستی بیوروکریسی کی حمایت سے اس نے انتخابی عمل میں ہیرا پھیری کے لیے غیر معمولی حد تک مداخلت کی ہے تاکہ جیل میں بند اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں اہم عوامل کے طور پر ختم کیا جا سکے۔
اس کے بجائے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 'آزاد' امیدواروں کو پارٹی کو اپنے بینر تلے انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں تھی اسکے باوجود قومی اسمبلی کے انتخابات میں سرفہرست رہے۔
سرکاری نتائج کے مطابق جن کا مقابلہ پی ٹی آئی اور متعدد دیگر جماعتیں کر رہی ہیں جمعرات کو ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حامی آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 266 نشستوں میں سے 93 حاصل کر لیں۔
انتخابات کے آغاز میں فوج اور عدالتوں نے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف اور ان کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اقتدار میں واپسی کے لیے راستہ صاف کر دیا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) نے صرف 75 نشستیں حاصل کیں۔ پی ایم ایل (ن) کی دیرینہ حریف پاکستان پیپلز پارٹی 53 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جب کہ بقیہ 45 آزاد اور تقریباً ایک درجن چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہیں۔
پاکستان کی فوج وسیع سیاسی اور معاشی طاقت کی حامل ہے اور امریکی سامراج اور پاکستان کے حکمران طبقے کے درمیان سات دہائیوں پرانے تعلقات جنکی بنیاد کلائنٹ اور انکی سرپرستی کے طور پر مبنی ہے۔
واشنگٹن کی آشیرباد سے فوج نے اپریل 2022 کے عدم اعتماد کے ووٹ میں خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ پاکستان کی پی ٹی آئی کی قیادت والی حکومت یوکرین پر روس کے ساتھ امریکہ-نیٹو کی اکسائی گئی جنگ پر 'غیر جانبداری' کی پالیسی اپنائے گی۔.
عمران خان جو ایک دائیں بازو کے اسلامی پاپولسٹ ہیں اور ان کی پی ٹی آئی گزشتہ مئی سے قانونی انتقام کا نشانہ بنی ہوئی ہے جب نیم فوجی دستوں نے انہیں عدالت میں پیشی کے دوران پکڑ لیا جسکا جواب ان کے حامیوں نے ملک گیر مظاہروں کے ساتھ دیا جس میں مظاہرین نے فوجی تنصیبات اور کم از کم ایک سینئر افسر کی رہائش گاہ پر زور دار حملہ بھی شامل تھا عمران خان اور پی ٹی آئی کے کئی دیگر سینئر رہنماؤں اور پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو جیل بھیج دیا گیا ہے ان میں سے کچھ پر 'دہشت گردی' کے جعلی الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
گزشتہ جمعرات کے انتخابات سے کچھ پہلے یہ جبر مزید شدت اختیار کر گیا۔ عمران خان کو تین الگ الگ مقدمات میں طویل قید کی سزا سنائی گئی اور الیکشن میں کھڑے ہونے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا اور جو لوگ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار تھے انہیں بیلٹ پر اس کے انتخابی نشان جو کہ کرکٹ بیٹ رہا ہے کو استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا جس ملک کی 40 فیصد آبادی ناخواندہ ہو یہ اقدام انتخابی عمل میں ایک بڑی روکاوٹ بن جاتا ہے۔
دھمکیوں اور پرتشدد حملوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے تقریباً مکمل طور پر آن لائن مہم چلائی۔ پولنگ کے دن ملک بھر میں سیل فون اور موبائل انٹرنیٹ سہولیات کو اچانک معطل کر دیا گیا تاکہ ووٹرز کو اپنے پولنگ اسٹیشنز کے بارے مییں آگہی اور دوسروں سے رابط کرنے میں دشواری رہے تاکہ ووٹز ووٹ ڈالنے سے بیزار ہو جائیں۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اگر انتخابات میں دھندلی اور دیگر بے ضابطگیاں نہ ہوتیں تو وہ 175 سیٹیں جیت چکی ہوتی۔
جو بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانیوں نے فوج کی وسیع طاقت اور رسائی اور مجموعی طور پر روایتی حکمران اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے غصے اور مخالفت کا اظہار اس انتخابات میں کیا۔
انتخابات میں فوج کی ہیرا پھیری سے بیزاری کی وجہ سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ووٹر ٹرن آؤٹ میں تیزی سے کمی آئے گی۔ تاہم ابتدائی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ٹرن آؤٹ 48 فیصد تھا جو 2018 کے انتخابات کے 51 فیصد سے معمولی طور پر کم تھا۔ خوف اور ڈر سے کوسوں دور دسیوں لاکھوں لوگ اپنی مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے انتخابات کے لیے نکلے۔ یہ شہری متوسط طبقے جو عمران خان کی روایتی حمایت کی بنیاد تھے سے بہت آگے نکل گے اور اس میں لاکھوں محنت کش طبقے کے لوگ اور دیہی محنت کشوں کا ایک حصہ شامل تھا۔
عمران خان کو بے دخل کرنے اور سزا دینے کی اسٹیبلشمنٹ کی کوششوں کا واضح طور پر رد عمل سامنے آیا جس سے عوامی ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی اور عمران کو یہ موقع فراہم کیا ایک وہ 'سیاسی طور پر باہر کے شخص' یعنی کے وہ اسٹبلیشمنٹ کے ٹولے میں سے نہیں ہے کے طور پر اپنی احتیاط سے تیار کردہ امیج کا فائدہ اٹھا سکے۔
پاکستان کے ' حیران کن الیکشن' کے بارے میں مغربی میڈیا کی رپورٹس میں اس کا زیادہ تر اعتراف کیا گیا ہے۔ جو بات انہوں نے نہیں کہی نہیں وہ یہ ہے کہ انتخابی نتائج میں جو چیزیں ابھرئیں ان میں امریکی سامراج اور اس کی جنگوں کے خلاف عوامی مخالفت کا مسخ شدہ اظہار شامل تھا جس نے پڑوسی ملک افغانستان کو تباہ اور برباد کر دیا اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں لاکھوں لوگوں کو برسوں کی ڈرون نگرانی اور حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
غزہ میں فلسطینیوں کی امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی نسل کشی پر پاکستانیوں میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
خان امریکی سامراج یا اس معاملے میں پاکستانی فوج کے مخالف نہیں ہیں جس نے انہیں 2018 میں اقتدار میں آنے میں سہولت فراہم کی تھی۔ لیکن ملک کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے اندر اپنے حریفوں کے برعکس انہوں نے کبھی کبھی واشنگٹن پر غنڈہ گردی اور پاکستانی خودمختاری کو پامال کرنے کے الزام لگاتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے۔ اور عمران خان نے پچھلی دہائی کے پہلے نصف میں پاکستان میں اوباما-بائیڈن انتظامیہ کی ڈرون جنگ کی مذمت کرتے ہوئے اپنی حمایت کو نمایاں طور پر بڑھایا جس نے اس وقت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی آبادی کو ڈرون حملوں سے خوفزدہ کیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔
فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو دباو میں لانے کے لیے عمران خان نے بار بار عوامی طور پر یہ الزام لگایا کہ واشنگٹن نے ان کی معزولی میں انکی مدد کی ہے لیکن بعد میں اُس نے ان لگے ہوئے الزامات سے رُو گردانی بھی کی۔ اگرچہ وہ اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں لیکن عمران خان اور ان کے سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے ڈپٹی چیئرمین شاہ محمود قریشی کو گزشتہ ماہ کے آخر میں 'ریاستی راز' فاش کرنے کے جرم میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس سائفر جس میں پاکستان کے امریکی سفیر کی جانب سے واشنگٹن کی دھمکیوں کا بیان کیا گیا ہے کہ اگر عمران خان اگر ملک میں برسرائے اقتدار رہے تو اسلام آباد کو منجمد کر دیں گے۔
انتخابی نتائج نے پاکستان کی اشرافیہ کے اندر اندرونی اور عالمی سرمائے کی جانب سے مانگے گئے اسٹریٹی اور معاشی 'تنظیم نو' کے اقدامات کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ایک کمزور حکومت کی صلاحیت کے بارے میں خدشات جسے زیادہ تر غیر قانونی سمجھا جاتا ہے کو مزید تیز کر دیا ہے۔
ہفتے کے روز انتخابی نتائج کے بڑی حد تک واضح ہونے کے بعد پاکستان کے چیف آف آرمڈ سروسز جنرل سید عاصم منیر نے دوٹوک انداز میں اعلان کیا کہ قوم کو انتشار اور پولرائزیشن کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے 'مستحکم ہاتھوں اور ایک شفا بخش رابطے کی ضرورت ہے۔'
پی ایم ایل (این) اور پی پی پی کے لیے یہ اتنی دقیق اپیل نہیں تھی کہ وہ اپنی لڑائی بند کریں اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی مخلوط حکومت بنائیں ماسوائے پی ٹی آئی کے۔ اس پر عمل کے لیے بات چیت اب جاری ہے حالانکہ پیپلز پارٹی نواز شریف اور پی ایل ایم(ن) کے ساتھ صف بندی کر کے خود کو مزید سمجھوتہ کرنے کے بارے میں فکر مند ہے جسے فوج کنٹرول کرتی ہے۔
اتوار کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات کے لیے اسلام آباد پہنچے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ واشنگٹن ایک ایسی حکومت کو اکٹھا کرنے کے لئے پردے کے پیچھے کام کر رہا ہے جو اس کے مفادات کی بہترین ترجمانی اور بشمول اس کی متعدد جنگوں میں اسے تحفظ فراہم کرے اس کے باوجود انکے انتخابی بے ضابطگیوں کے بارے میں تشویشی بیانات جو صرف دیکھلاوئے کے لیے جاری کیے ہیں۔
اگرچہ اسلام آباد کھلے عام اس کی تردید کرتا چلا آرہا ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تجدید کا ایک اہم عنصر اسلام آباد کی طرف سے بیک چینل کے ذریعے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی تھی۔
پی ٹی آئی انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے جنرل منیر کے جواب میں کہا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے تمام قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ہی حکومت کی قیادت کرنے کے لئیاسٹیبلشمنٹ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے پاس مقبول مینڈیٹ ہے. لیکن پارٹی کے ترجمان گوہر علی خان نے کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی قومی حکومت بنانے کی کوششیں ناکام ہوتی ہیں تو وہ اپوزیشن میں چلی جائے گی یہ تجویز کرتے ہوئے کہ اسٹبلشمنٹ انتخابی نتائج کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ فوجی قیادت والی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حتمی مفاہمت ہو سکے۔
سیاسی تصادم کا ممکنہ طور پر ایک اور مقصد قومی اسمبلی کی تقریباً 70 نشستوں جو خواتین اور 'مذہبی اقلیتوں' کے لیے 'مخصوص' ہیں پر ہے۔ یہ نشستیں پارٹیوں کو ان نشستوں کے تناسب سے دی جانی تھیں جو انہوں نے جیتی ہیں لیکن چونکہ پی ٹی آئی کے اراکین 'آزاد امیدوار' کے طور پر منتخب ہوئے ہیں اس لیے ممکنہ طور پر ایسی تمام نشستوں سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان معاشی، سیاسی اور جیو پولیٹیکل بحرانوں سے گھرا ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں نے اہم سماجی جدوجہد کی لہر دیکھی ہے۔ ان میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن سمیت نجکاری کی لہر کی مخالفت کے علاوہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی طرف سے 'گمشدگیوں' اور سمری پھانسیوں کے خلاف 'لانگ مارچ' جو کہ نسلی اور قوم پرست شورش کی دیرینہ آماجگاہ ہے۔
حکمران طبقے کے حلقوں کے اندر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگلی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی اسلام آباد کو مزید قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اس وقت ملک کے پاس صرف 8 بلین ڈالر کے ذخائر ہیں جو دو ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے برابر ہیں۔
تاہم جمعہ کے روز سے ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے گرنے کی عکاسی دیکھی جا رہی ہے آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ کاروں کے ڈریکولا کو مطمئن کرنے کے لیے درکار اسٹریٹی اور نجکاری کے اقدامات کو نافذ کرنے کی اگلی حکومت کی اہلیت پر خدشات موجود ہیں۔
سابق پاکستانی سفارت کار ملیحہ لودھی نے پیر کے روز ڈان کے آپشن ایڈ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، 'ایک کمزور اتحادی حکومت وسیع پیمانے پر معاشی اصلاحات کے امکانات کو کم کر دے گی جس کی پاکستان کو اسے پائیدار ترقی اور سرمایہ کاری کے راستے پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اگلی حکومت کمزور آتی ہے جس کی بقا کا انحصار پارٹیوں کے ایک متمول گروپ کو خوش کرنے پر ہو گا تو کیا وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سخت اور سیاسی طور پر تکلیف دہ فیصلے لے سکے گی؟'
پاکستانی سرمایہ داری کو درپیش جغرافیائی سیاسی بحران بھی دھماکہ خیز صورت حال سے دوچار ہے کیونکہ امریکہ چین کے خلاف اپنی ہمہ جہتی اقتصادی اور فوجی سٹریٹجک جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے جو اسلام آباد کے ' ہر موسم' کا سٹریٹیجک اتحادی ہے اور پاکستان کے تاریخی حریف بھارت کو سٹریٹجک فوائد کے ساتھ نوازتا ہے تاکہ اسے چین کے ساتھ جنگ کی تیاریوں کے لیے مزید مضبوطی سے استعمال کیا جا سکے اور ساتھ ہی پاکستان کے مغربی پڑوسی ایران کے خلاف جارحیت کی مہم چلا رہا ہے جو تیزی سے بڑی جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہے۔