اُردُو
Perspective

بائیڈن نے رفح پر اسرائیل کے حملے کی حمایت کر دی۔

یہ 8 مئی 2024 کے انگریزی میں شائع ہونے والے 'Biden endorses Israel’s assault on Rafah' اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

سموار کے روز اسرائیل نے غزہ کے سب سے جنوبی شہر رفح پر اپنے طویل منصوبہ بند حملے کا آغاز کیا آبادی کو انخلاء کے احکامات جاری کیے اور شہر پر شدید بمباری شروع کر دی۔

1.2 ملین سے زیادہ پناہ گزین جن میں سے 600,000 سے زیادہ بچے ہیں اس وقت رفح میں نامساعد حالات سے دوچار ہیں جو مناسب خوراک، پانی، حفظان صحت یا ادویات کے بغیر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان مہاجرین کی اکثریت متعدد بار بے گھر ہو چکی ہے۔

اسرائیل نے سموار کے روز پورے غزہ میں رہائشی مکانات پر بمباری کی جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے- اور جن میں درجنوں زخمی ہوئے اور ملبے تلے دب گئے۔ منگل کے روز اسرائیل نے رفح بارڈر کراسنگ پر قبضہ کر لیا اور اسے بند کر دیا اس اقدام سے غزہ کی بھوک سے مرنے والی آبادی کے لیے خوراک کی ایک اہم لائف لائن بند ہو گئی۔

صدر جو بائیڈن واشنگٹن میں منگل 7 مئی 2024 کو یو ایس کیپیٹل میں یو ایس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی یادگاری ایام کی سالانہ تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ آزادی کا مجسمہ اسکے پیچھے ہے۔ [اے پی فوٹو/ایوان ووکی] [AP Photo/Evan Vucci]

منگل کے روز ایک تقریر میں صدر جو بائیڈن نے شہر پر اسرائیل کے حملے کی مؤثر انداز میں تائید کی جس نے گھٹیا طور پر ہولوکاسٹ سے فائدہ اتھاتے ہوئے اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے امریکی حمایت کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔

اپنے ریمارکس میں بائیڈن نے اعلان کیا:

یہودیوں کی یہ قدیم نفرت ہولوکاسٹ سے شروع نہیں ہوئی تھی یہ نفرت اب بھی بہت سارے لوگوں کے دلوں میں پیوست ہے اس نفرت کو 7 اکتوبر 2023 کو زندہ کیا گیا۔

ہولوکاسٹ کو یورپ کی سب سے طاقتور سرمایہ دارانہ ریاست نازی جرمنی کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کی صنعتی تباہی 7 اکتوبر کے واقعات کے ساتھ مشابہ کرنے کی بائیڈن کی کوشش تاریخ کا ایک مکمل جھوٹ ہے۔

ہولوکاسٹ اور گزشتہ چھ مہینوں کے دوران واحد مُماثلت وہ طریقہ ہے جس میں انتہائی دائیں بازو کی صیہونی حکومت جرمن فاشزم کے ذریعے یہودیوں کے خلاف کیے گئے جرائم کی بازگشت کر رہی ہے جو اس بار غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف ہے۔ 

فلسطینیوں پر کسی طور پر ہولوکاسٹ کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے۔ اور 7 اکتوبر کے واقعات ایک اسیر، قید اور بے گھر لوگوں کی بغاوت تھی جو نازی قبضے کے خلاف 1943 کی وارسا یہودی بستی کی بغاوت سے کہیں زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔

اپنے ریمارکس میں بائیڈن نے غزہ کے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مصائب اور اموات یا فلسطینیوں کے خلاف 75 سال سے قبضے اور اسرائیلی جرائم کا ایک بھی حوالہ نہیں دیا، جس میں اسرائیلی ریاست کی 1948 سے لے کر اب تک غزہ کے عوام کے قتل عام کی متعدد کارروائیاں شامل ہیں۔

بائیڈن کی تقریر تمام ضروری نقطوں سے بینجمن نیتن یاہو کے جمعہ کو ہولوکاسٹ کی یادگاری تقریب میں دیے گئے ریمارکس کی آئینہ دار تھی جس میں انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیرِ اعظم نے رفح پر حملہ کرنے اور غزہ کو زیر کرنے کا واحد ذریعہ کے طور پر 'ہمارے وجود اور ہمارے مستقبل کے وجود کی ضمانت دینے کا وعدہ کیا تھا۔'

منگل کو اپنے ریمارکس میں بائیڈن نے غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے لیے اپنی انتظامیہ کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 'اسرائیل کی سلامتی کے لیے میری وابستگی اور ایک آزاد یہودی ریاست کے طور پر اس کے وجود کے حق کو ہم آہنی عزم کے طور پر لیتے ہیں یہاں تک کہ جب ہم متفق نہ بھی ہوں۔ '

درحقیقت بائیڈن کا رفح پر حملے سے 'اختلاف' کا دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے۔ کھلے عام یہ اعلان کرتے ہوئے کہ اسرائیلی حکومت جو کچھ بھی کرے ہمارے لیے اہم نہیں ہے وائٹ ہاؤس مؤثر طریقے سے غزہ کی آبادی کے قتل عام کے لیے بلینک چیک دے رہا ہے۔

بائیڈن کے ہولوکاسٹ کے حوالے کا مقصد بھی اسی طرح ہے جو نسل کشی مخالف مظاہروں پر اپنی انتظامیہ کے کریک ڈاؤن کو جائز بنانا تھا جس میں غزہ کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے سینکڑوں یہودیوں کی گرفتاری بھی دیکھی گئی ہے۔ بائیڈن نے کہا:

ہم نے امریکہ اور پوری دنیا میں یہود دشمنی کا زبردست اضافہ دیکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر شیطانی پروپیگنڈہ۔ یہودیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کپاہوں کو بیس بال کی ٹوپیوں کے نیچے اور اپنے یہودی ستاروں کو اپنی قمیضوں کے تلے چھپائیں۔ کالج کیمپس میں یہودی طلباء کو کلاس میں جاتے وقت روکا جاتا ہے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے اور ان پر حملہ کیا جاتا ہے۔ یہود دشمن پوسٹرز اور نعرے دنیا کی واحد یہودی ریاست اسرائیل کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ہولوکاسٹ اور 7 اکتوبر کی ہولناکیوں کو جھٹلاتے اور کم کرتے اور جواز پیش کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔

یہ بیان ایک بار پھر مکمل بیہودگی کا اظہار ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھر میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں میں یہودیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر شرکت کی گئی ہے۔ بہت سے لوگوں نے جن میں مسلمانوں، عیسائیوں اور ملحدوں کی برادرانہ شرکت کے ساتھ یہودی مذہبی عبادت گاہوں کی نمایاں شراکت داری کو دکھایا گیا ہے۔ 

یہ دعویٰ کہ بائیڈن کا غزہ کی نسل کشی کا دفاع اور جنگ مخالف مظاہروں پر ان کا کریک ڈاؤن یہود دشمنی کی مخالفت سے محرک ہے صاف جھوٹ ہے۔ امریکہ میں بائیڈن نے جنگ مخالف مظاہرین پر پولیس حملوں کی پشت پناہی کرنے میں میجری ٹیلر گرین اور 6 جنوری کی بغاوت کے رہنماؤں جیسے بدنام زمانہ یہود دشمنوں کے ساتھ کھلے عام اتحاد کیا ہے۔ یوکرین میں بائیڈن فاشسٹ زیلنسکی حکومت کی مالی اعانت اور اسے مسلح کر رہا ہے جس کا قومی ہیرو ہولوکاسٹ کے ساتھی اسٹیپن بنڈیرا ہے۔

جن لوگوں کو واقعی تشدد سے خطرہ ہے وہ مظاہرین ہیں جن میں سے سینکڑوں کو بائیڈن کے پولیس کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا مارا پیٹا گیا آنسو گیس پھینکی گئی اور ربڑ کی گولیوں سے گولی مار دی گئی۔ ہفتے کے آخر میں نیویارک شہر کے میئر ایرک ایڈمز نے غزہ کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو 'ختم' کرنے کی دھمکی دی جب کہ سینیٹر ٹام کاٹن نے مظاہروں کو 'چھوٹا غزہ' کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس کو مظاہرین کے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہیے جیسا کہ اسرائیل کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

نسل کشی کی مخالفت کو یہود دشمنی قرار دیتے ہوئے بائیڈن صہیونی جھوٹ کو دہرا رہا ہے جو یہودی شناخت کو اسرائیل کی حمایت کے برابر قرار دیتا ہے۔ اس دائیں بازو کے بیانیے کے مطابق امریکی یہودیوں کی تعریف ان کے مذہب سے کی گئی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست سے متصادم ہے۔

صہیونی ریاست سامراج کا آلہ کار ہے اور ہمیشہ رہی ہے۔ تاریخی طور پر صیہونیت ایک رجعتی نظریے کے طور پر ابھری جس کی بنیاد اس جھوٹے دعوے پر تھی کہ یہود دشمنی معاشرے کی ایک ناگزیر اور مستقل خصوصیت ہے جس کا مقابلہ صرف ایک یہودی نسل پرست ریاست کے قیام کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔

یہ سوشلسٹ تحریک اور اس کے سرمایہ دارانہ اور بین الاقوامیت مخالف پروگرام کے خلاف تلخ دشمنی پر مبنی ایک نظریہ تھا اور ہے اور اس سوشلسٹ اور سرمایہ دار مخالف پروگرام کو یہودی عوام کی زبردست حمایت حاصل تھی۔ اپنے نظریاتی اور تاریخی ماخذ میں صیہونیت خود فاشزم اور یہود دشمنی کی اہم خصوصیات کی عکاسی کرتی ہے جو جدید دور میں سوشلسٹ محنت کش طبقے کی تحریک کے خلاف ردعمل کے طور پر سب سے بڑھ کر ابھری۔

ہولوکاسٹ کی اپیل کر کے امریکی سامراج کے استصالی مفادات کو جواز بخشنے کی بائیڈن کی کوششوں کو دنیا بھر کے لاکھوں لوگ بجا طور پر ایک شفاف دھوکہ دہی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بائیڈن کی تقریر کا اصل مواد دنیا کی معروف سامراجی طاقت کی طرف سے ریاستی پالیسی کے ایک آلہ کے طور پر نسل کشی کی کھلی توثیق ہے، جو 20 ویں صدی کے سب سے بڑے جرائم کو دہرانے کے سامراج کے ارادے کو بے نقاب کرتی ہے۔

Loading