اُردُو

ایرانی صدر ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جاں بحق ہو گے

یہ 20 مئی 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Iranian president killed in helicopter crash' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر حکام کو لے جانے والا ایک ہیلی کاپٹر اتوار کو دارالحکومت تہران سے تقریباً 600 کلومیٹر شمال مغرب میں پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اتوار 19 مئی 2024 کو ایران اور آذربائیجان کی سرحد پر واقع آذری میں قز قلعی یا گریل کے قلعے کے ڈیم کی افتتاحی تقریب کے دوران اپنے آذری ہم منصب الہام علییف کے ساتھ ایک میٹنگ میں شرکت کر رہے ہیں۔ (ایرانی ایوان صدر کے دفتر کے ذریعے اے پی) [اے پی فوٹو] [AP Photo/ Det iranske presidentskapskontoret]

ایرانی خبر رساں ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ رئیسی اور امیر عبداللہ دونوں کی موت کی تصدیق ہو گئی ہے۔

رئیسی اور ان کا وفد ایران کے مشرقی آذربائیجان صوبے سے دریائے آراس پر اپنی سرحد کے قریب پڑوسی ملک آذربائیجان کے صدر الہام علییف کے ساتھ ایک ڈیم کا افتتاح کر کے واپس آ رہے تھے۔ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے ہمراہ دو اور ہیلی کاپٹر بھی تھے جو بحفاظت واپس لوٹ رہے تھے۔

سرکاری ٹی وی پر تبصرے میں وزیر داخلہ احمد واحدی نے کہا کہ 'محترم صدر اور اسکی ٹیم کے ارکن کچھ ہیلی کاپٹروں پر سوار ہو کر واپس جا رہے تھے اور ایک ہیلی کاپٹر کو خراب موسم اور دھند کی وجہ سے ہارڈ لینڈنگ کرنا پڑا۔' ان کا کہنا تھا کہ مشکل موسمی حالات کے باعث امدادی ٹیموں کو علاقوں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق یہ 'حادثہ' آذربائیجان کی سرحد پر واقع شہر جولفا کے قریب پیش آیا۔

آئی آر این اے نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ 60 سے زیادہ ریسکیو ٹیموں اور انکے ساتھ تلاش کا کام کرنے والے کتوں اور ڈرونز کے استمعال کے زریعے ورزغان قصبے کے قریب پہاڑی جنگلاتی علاقے میں بھیج دیا گیا ہے اسکے علاوہ سپاہی، پولیس اور ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کارپوریشن (آئی آر جی سی) کے اہلکار بھی بھیجے گئے ہیں۔

رئیسی کی موت ایک سیاسی بحران کو جنم دے سکتی ہے اور ملک کی اسلامی بورژوا علما کی حکومت میں شدید لڑائی کا باعث بن سکتی ہے۔ انہیں نام نہاد اعتدال پسند حسن روحانی کی جگہ صدر کے طور پر نصب کیا گیا تھا جو دو مرتبہ صدرات پر فرائض رہے تھے جمہوریت مخالف انتخابات میں جو مٹھی بھر امیدواروں تک محدود تھے جنہیں نامزد کیا گیا تھا۔

رئیسی جو قدامت پسند ہیں کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ وہ 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل 2004 سے ایک دہائی تک جوڈیشل اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل رہے۔

ان کا انتخاب امریکہ اور یورپی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کے ٹوٹنے کے دوران ہوا جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے اور روحانی اس کا چیمپئن سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ کی زیرقیادت پابندیوں کی حکومت نے ایک شدید معاشی اور سماجی بحران پیدا کیا تھا جس میں کوویڈ-19 وبائی بیماری نے بڑھتے ہوئے سیاسی بے چینی کو ہوا دی تھی۔

پابندیوں کا ایک اہم عنصر ایران کے پرانے ہوائی جہازوں کے بیڑے اور ہیلی کاپٹروں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے انتہائی ضروری اسپیئر پارٹس کی برآمد پر امریکی پابندی تھی۔ رئیسی اور دیگر اہلکار ایک سویلین بیل 212 ہیلی کاپٹر میں پرواز کر رہے تھے جو بنیادی طور پر امریکہ میں تیار کیا گیا تھا۔

2021 کے انتخابات نے سخت گیر یا اصول پرست دھڑے نے آئی آر جی سی کے ساتھ یکجا ہو کر لڑا جو ریاستی مشینری کی تمام شاخوں پر مضبوط کنٹرول رکھتی ہے۔ رئیسی کے تحت حکومت نے احتجاج اور ہڑتالوں کا جواب وحشیانہ جبر کے ساتھ دیا جس میں پھانسی بھی شامل تھی۔

امریکہ کے جریدے اٹلنٹیک میں ایک تبصرہ جس کا عنوان تھا 'ابراہیم رئیسی کی موت سے کس کو فائدہ ہوگا؟' بالواسطہ طور پر تجویز کیا کہ حادثہ اگر تصدیق ہو جائے تو حادثاتی نہیں ہو سکتا۔ یہ نوٹ کرنے کے بعد کہ ایران کے ہیلی کاپٹر کی حالت، خطہ اور خراب موسمی حالات کے پیش نظر حادثہ یقینی طور پر ممکن تھا مصنف نے لکھا کہ 'اس کے باوجود شکوک و شبہات لامحالہ حادثے کو گھیر لیں گے' اور سوال یہ کہ 'کس کا فائدہ' ہے۔

مضمون بذات خود ایران کے اندر مسابقتی سیاسی دھڑوں کے جائز تک محدود ہے۔ رئیسی کو نہ صرف نام نہاد اعتدال پسندوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے مارکیٹ میں اصلاحات اور مغرب کے ساتھ قریبی تعلقات کی حمایت کی ہے بلکہ زیادہ سخت گیر دھڑے جو رئیسی کے سخت اقدامات نہ اٹھانے پر تنقید کرتے ہیں۔

تاہم اس سوال کو ’’فائدہ کسے‘‘ ہوا کو بھی مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ کے تناظر میں رکھا جانا چاہیے جسے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی نسل کشی۔ اسرائیل، امریکہ اور اس کے اتحادی لبنان، شام اور یمن میں ڈی فیکٹو فوجی تنازع میں مصروف عمل ہیں جسکا سب سے بڑا ہدف ایران ہے اور وہ نیم فوجی گروپ ملیشیا، جماعتیں یا حکومتیں جو تہران کے ساتھ منسلک ہیں۔

غزہ میں اپنی وحشیانہ جنگ کے دوران اسرائیل نے لبنان اور شام کے اندر متعدد فضائی حملے کیے ہیں نہ صرف حماس اور حزب اللہ ملیشیا کے سرکردہ ارکان کے خلاف بلکہ اعلیٰ ایرانی حکام کے خلاف بھی حملے شامل ہیں۔ سب سے زیادہ اشتعال انگیز 1 اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ایک فضائی حملہ تھا جس میں آئی آر جی سی کے تین سینئر رہنما مارے گئے تھے۔

سفارتی اصولوں کے نقط نظر سے ایرانی اہلکاروں کا قتل بین الاقوامی کنونشن کے مطابق ایرانی سرزمین پر حملہ ہے، جو ایران کے ساتھ تناؤ کو ہوا دینے اور تنازعات کو ہوا دینے کے لیے جنگ کا ایک عمل تھا۔ اس واقعہ میں ایران نے 13 اپریل کو اسرائیلی ہوائی اڈوں پر ڈرونز کروز اور بیلسٹک میزائلوں کے فائر شروع کر کے جواب دیا، لیکن اس نے اپنے حملے ایک دن پہلے ہی اپنی جوابی کاروائی کی اطلاع دے دی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اسرائیل، امریکہ اور اس کے اتحادی زیادہ سے زیادہ میزائلوں مار گرانے میں کامیاب رہیں اس لیے اس سے تھوڑا سا نقصان ہوا۔

اگرچہ یہ فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر کو آگے بڑھاتے ہوئے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ہلاکت اور تباہی پھیلا رہا ہے فاشسٹ صیہونی حکومت جسے امریکی سامراج کی پشت پناہی حاصل ہے مزید اشتعال انگیزی کرنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایران کے اندر تخریب کاری اور قتل و غارت سمیت اپنی لاقانونیت کے لیے پورے مشرق وسطیٰ میں بدنام ہے۔

ایران کے اندر سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں اسرائیل اور امریکہ کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

Loading