اُردُو

تائیوان کے نئے صدر کے حلف اٹھانے کے بعد تائیوان کے قریب چین نے فوجی مشقیں شروع کر دیں۔

یہ24 مئی 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'China mounts military exercises near Taiwan after new president inaugurated' اس آرٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

چینی فوج یا پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے آبنائے تائیوان میں دو روزہ فوجی مشقیں کی ہیں جن میں تائیوان کے زیر کنٹرول جزائر کنمین، ماتسو، ووکیو اور ڈونگین کے قریب بھی مشقیں شامل ہیں جو چینی سرزمین سے صرف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

تائیوان گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر ما کانگ ڈی ڈی جی 1805 23 مئی 2024 کو تائیوان کے قریب دور دراز کے چینی ڈسٹرائر ژیان ڈی ڈی جی 15 کی نگرانی کر رہا ہے۔ [AP Photo/Taiwan Ministry of National Defense]

فوجی مشقیں ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) سے تعلق رکھنے والے لائ چنگ ٹے کے تائیوان کے نئے صدر کے طور پر افتتاح کے چند دن بعد ہوئی ہیں۔ لائی تائیوان کی آزادی کے حق میں اپنے موقف کے لیے جانا جاتا ہے۔ چین نے بارہا خبردار کیا ہے کہ وہ اس جزیرے کو چین کے ساتھ دوبارہ ضم کرنے کے لیے آزادی کے کسی بھی رسمی اعلان کا طاقت سے جواب دے گا۔

چین کی خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے رپورٹ کیا کہ یہ سال کی سب سے زیادہ بڑی مشقیں تھیں اور ان کا مقصد 'تائیوان کی آزادی کی قوتوں کی علیحدگی پسندانہ کارروائیوں کے لیے سخت سزا اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور اشتعال انگیزی کے خلاف سخت انتباہ کے طور پر عملی کام تھا۔'

پی ایل اے کے ترجمان لی ژی نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ 'مشترکہ تلوار 2024A' مشقیں 'سمندری فضائی جنگی تیاریوں کے گشت، جنگی میدانوں کے جامع کنٹرول پر مشترکہ قبضے اور نئے اہداف پر مشترکہ درست حملے' پر مرکوز تھیں۔

مشقوں میں بیجنگ کی قوم پرستانہ بیان بازیوں کے ساتھ ساتھ مغربی پریس میں مزید اضافہ کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشقیں 2022 اور 2023 میں ہونے والی مشقوں کے مقابلے میں چھوٹے پیمانے پر کی گئیں۔ تائیوان کی فوج کے مطابق، بیجنگ نے کسی نو فلائی زون کا اعلان نہیں کیا اور چینی سرزمین پر فوجی علاقوں کے علاوہ نہ ہی کوئی فائر کیا گیا۔

امریکی اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس میں ایسے نقشے دکھائے گئے ہیں جن میں چینی فوج تائیوان کو 'گھیرے' میں لے رہی ہے اور چینی وزارت دفاع کے تبصرے ہیں جن میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پی ایل اے 'اقتدار پر قبضہ کرنے' کی اپنی صلاحیت کو جانچ رہی ہے۔ حقیقت میں مشقیں زیادہ تر چینی سرزمین اور تائیوان کے درمیان آبنائے تائیوان تک محدود تھیں کچھ چینی کوسٹ گارڈ جہاز تائیوان کے مشرق میں شہری جہازوں کا فرضی معائنہ کر رہے تھے۔

جمعرات کو تائیوان کی فوج کو پی ایل اے بحریہ اور ساحلی محافظوں کے 35 جہازوں اور 49 طیاروں کا پتہ چلا اور جمعہ کو پی ایل اے بحریہ کے 27 جہاز اور پی ایل اے کے 62 ہوائی جہاز اور کچھ طیاروں نے آبنائے تائیوان کی درمیانی لکیر کو عبور کیا جسے امریکہ بین الاقوامی آبی اور فضائی حدود کے طور پر شمار کرتا ہے لیکن کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہوا جسے تائیوان اپنے فوری علاقائی پانیوں اور فضائی حدود کے طور پر مانتا ہے۔

چینی وزارت دفاع کے ترجمان وو کیان نے کہا کہ تائیوان کے نئے صدر نے 'اون چین کے اصول کو سنجیدگی سے چیلنج کیا ہے اور تائیوان میں ہمارے ہم وطنوں کو جنگ اور خطرے کی خطرناک صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔' انہوں نے تائی پے کی طرف سے مزید اشتعال انگیزیوں کے جواب میں 'جوابی اقدامات' سے خبردار کیا۔

سموار کو اپنے افتتاح کے دوران لائی جو ڈی پی پی کے زیادہ سخت گیر علیحدگی پسند ونگ کی نمائندگی کرتے ہیں، آزادی کے کسی بھی رسمی اعلان پر اشارہ کرنے سے باز رہے۔ انتخابی مہم کے دوران چین کے ساتھ جنگ ​​کے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے خوف سے بخوبی واقف لائ نے اپنے پیشرو تسائی انگ وین کی زیادہ اعتدال پسند لائن کی طرف اشارہ کیا کہ تائیوان پہلے سے ہی ایک خودمختار ملک ہے اور اسے آزادی کا اعلان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اس کے باوجود لائی کی تقریر جو 'امن' اور 'جمہوریت' کے نعروں سے بھری ہوئی تھی، انتہائی اشتعال انگیز تھی۔ یہ اعلان کرنے کے بعد کہ تائیوان اور چین 'ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہیں،' انہوں نے کہا کہ 'تائیوان کے تمام لوگوں کو اپنی قوم کی حفاظت کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ الحاق کی مخالفت کریں اور خودمختاری کا تحفظ کریں۔ اور کسی کو بھی سیاسی طاقت کے بدلے اپنی قومی خودمختاری سے دستبردار ہونے کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔

یہ بیان نہ صرف 'اون چائنہ پالیسی' کی مکمل تردید ہے جو چین کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط بناتی ہے۔ یہ اپوزیشن کومینتانگ (کے ایم ٹی) اور بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے والی یا چین کے ساتھ پرامن دوبارہ اتحاد کے لیے مذاکرات میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والی کسی دوسری جماعت کے خلاف بھی ایک خطرہ ہے۔

1949 کے چینی انقلاب کے بعد نفرت انگیز کے ایم ٹی حکومت نے امریکی بحریہ کے تحفظ میں تائیوان کی طرف پسپائی اختیار کی اور ایک ظالمانہ فوجی آمریت قائم کی۔ تائی پے اور بیجنگ دونوں نے 'اون چائنا' کی قانونی حکومت ہونے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ مقامی تائیوانی اشرافیہ کی ایک پرت جس کی اب ڈی پی پی نمائندگی کرتی ہے جزیرے کی 'آزادی' کے لیے زور دے رہی ہے۔

جب کہ باضابطہ طور پر جنتا کو ختم کر دیا گیا ہے اور ایک جھوٹی لنگڑی جمہوریت کو کھڑا کر کے پیش کیا گیا ہے لیکن زیادہ تر پرانا جمہوریت مخالف ریاستی اپریٹس برقرار ہے جس کی طاقت صدر کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ لائ زبردست عوامی حمایت حاصل کرنے سے کوسوں دور ہے اس نے جنوری کے انتخابات میں صرف 40 فیصد ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور 33.5 فیصد پر کے ایم ٹی جبکہ 26.5 فیصد پر تائیوان پیپلز پارٹی (ٹی پی پی) ہے کے امیدواروں سے آگے۔ تائیوان کے انتخابی نظام کے تحت کم ووٹ حاصل کرنے کی شرح کے باوجود انتخابات کا کوئی دوسرا مرحلہ نہیں تھا جس میں لائی کی شکست کا امکان تھا۔

ڈی پی پی نے تائیوان کی قانون سازی یوآن یا پارلیمنٹ کا کنٹرول بھی کھو دیا۔ یہ جزیرے کو سیاسی بحران میں دھکیلا رہا ہے کیونکہ صدر اور ان کی انتظامیہ کے ایم ٹی، ٹی پی پی کی حمایت سے پارلیمانی جانچ پڑتال کے تحت قانون سازی کرتا ہے۔ کے ایم ٹی اور ٹی پی پی قانون سازوں نے جمعہ کے روز قوانین کے ذریعے انتظامیہ کے اہلکاروں سے تعاون کو یقینی بنانے اور پارلیمانی تفتیشی اختیارات کو وسعت دینے کے لیے بشمول خفیہ فوجی معلومات تک رسائی کا کہا ہے جبکہ دسیوں ہزار ڈی پی پی حامیوں نے سڑکوں پر اس پر احتجاج کیا ہے۔

نئی قانون سازی کا جواز پیش کرتے ہوئے وو تسنگ-ہسین، کے ایم ٹی کے عدلیہ کمیٹی کے کنوینر نے بیان بازی سے کہا یہ کیسی حیران کن بات کہ 'دنیا کے کس ملک میں ایگزیکٹو کی نگرانی کسی کے زیر ماتحت نہ ہو؟' البتہ انہوں نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ کے ایم ٹی نے اپنی آمریت کو ختم کرنے کے بعد موجودہ صدارتی نظام قائم کیا ہے اس یقین کے ساتھ کہ صدارت ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہے گی۔

لائ کے اس تبصرے کی بازگشت کہ تمام تائیوانیوں کو 'قوم' کی حفاظت کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے، ڈی پی پی کے قانون ساز کوو پو وین نے فوجی دستاویزات کے کسی بھی انکشاف کو چیلنج کیا اور کے ایم ٹی کو مؤثر طریقے سے غدار قرار دیا۔ 'کیا آپ ایسی ذہانت حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ اگلی بار جب آپ چین جائیں گے تو آپ اسے تحفے کے طور پر پیش کریں گے؟'

آبنائے تائیوان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی جو تائی پے میں سیاسی انتشار کو ہوا دے رہی ہے جان بوجھ کر اسے امریکی سامراج کی طرف سے بھڑکایا جا رہا ہے۔ واشنگٹن نے 1970 کی دہائی میں ون چائنا پالیسی کو اپنایا اور مؤثر طریقے سے بیجنگ کو تائیوان سمیت تمام چین کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کیا جب اس نے بیجنگ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے اور تائی پے کے ساتھ تمام رسمی تعلقات منقطع کر لیے۔

اب بائیڈن نے ٹرمپ کی پیروی کرتے ہوئے عملی طور پر ون چائنا کی پالیسی کو ترک کر دیا تھا - دیرینہ سفارتی پروٹوکول کو توڑنا، تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت بڑھانا اسکے علاوہ جزیرے پر فوجی 'مشیر' بھیجنا اور آبنائے تائیوان کے ذریعے بحری اشتعال انگیزی کرنا- اس لیے کیونکہ چین کے ساتھ ان کی انتظامیہ جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔

بائیڈن انتظامیہ تائیوان اور مشرقی چین اور جنوبی چین کے سمندروں کی طرف چینی 'جارحیت' اور 'توسیع پسندی' کی مذمت کرتی ہے - یعنی چینی سرزمین کے قریب پانیوں اور فضائی حدود میں فوجی مشقیں جسے وہ اپنا سمجھتا ہے۔ اس کے باوجود امریکی فوج معمول کے مطابق اپنے قریبی علاقے سے ہزاروں کلومیٹر دور بحری کارروائیوں میں مصروف رہتی ہے۔

جب جمعرات اور جمعہ کو چینی فوجی مشقیں ہو رہی تھیں نیوکلیئر طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس رونالڈ ریگن اور اس سے منسلک جنگی گروپ بحیرہ فلپائن میں تائیوان کے قرب و جوار میں 'معمول کی' کارروائیاں کر رہے تھے۔ بدھ کے روز امریکی بحریہ اور رائل نیدرلینڈ کی بحریہ نے بحیرہ جنوبی چین میں مشترکہ کارروائیاں کیں جو کہ مغربی بحرالکاہل میں یورپی نیٹو اتحادیوں پر مشتمل مشترکہ فوجی مشقوں کو بڑھانے میں تازہ ترین ہے۔

یہاں تک کہ جب وہ نیٹو اتحاد کے ایک حصے کے طور پر یوکرین میں روس کے خلاف جنگ چھیڑ رہا ہے اور مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف ایک وسیع تنازعہ کے طور پر غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی حمایت کرتا ہے، امریکی سامراج چین کو اپنے عالمی تسلط کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ جو بیجنگ کے خلاف پہلے ہی اقتصادی جنگ میں مصروف ہے واشنگٹن ایٹمی جنگ کے خطرات کے باوجود چین کو کمزور اور ماتحت کرنے کے لیے فوجی قوت سمیت تمام ذرائع استعمال کرے گا۔

Loading