اُردُو

پاکستان میں حکومت کے آئی ایم ایف کی طرف سے اسٹریٹی کے اقدامات کے خلاف مقبول مظاہرے جاری ہیں۔

یہ 30 مئی 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے  'Popular protests mount in Pakistan against government’s IMF-dictated austerity measures' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے 

پاکستان بھر میں اسٹریٹی کی ان وحشیانہ پالیسیوں کی مخالفت بڑھ رہی ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف کی فوجی حمایت یافتہ مسلم لیگ (پی ایم ایل-نواز) حکومت کی طرف سے نافذ کی جا رہی ہیں۔ 

2022 میں عمران خان اور ان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی یکساں طور پر اسٹریٹی کی حامی نجکاری کی حامی حکومت کو تبدیل کرنے کے بعد سے، شریف نے اسلام آباد کی پوری اسٹیبلشمنٹ بشمول فوج اور اعلیٰ ججز کی حمایت کے ساتھ 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے حکم نامے کو آگے بڑھایا ہے۔

اپریل 2022 میں عمران خان جو ملک کی خارجہ پالیسی کو سنبھالنے میں امریکہ کے لیے ناقابل اعتبار اور مخالف سمجھے جاتے تھے کو پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ میں معزول کر دیا گیا تھا جسے فوج نے ترتیب کرتے ہوئے اسکی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد شریف ایک مخلوط حکومت کی سربراہی میں اقتدار میں آئے جس میں دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی یا پی پی پی شامل تھیں۔

حکمران طبقے کے سب سے طاقتور طبقوں کی حمایت سے فوج اور ریاستی بیوروکریسی نے گزشتہ جنوری کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں شہباز کے بھائی کثیر مدت کے وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو اقتدار میں لانے کی سازش کی۔ لیکن انتخابات میں دھاندلی کرنے کی ان کی کوشش جس میں عمران خان کو کرپشن اور 'دہشت گردی' کے الزامات میں جیل بھیجنا اور پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے سے روکنا بھی شامل ہے تباہ کن طور پر ناکام ہو گی۔ فوج کی واضح انتخابی دھاندلی کی مخالفت سے پیدا ہونے والے ہمدردی کے ووٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی کے 'آزاد امیدواروں' نے قومی اسمبلی کی کثرت سے نشستیں جیت لیں۔

عوامی مشکلات کے خوف سے اور پاکستان کی تباہ کن معاشی صورتحال کو تسلیم کرتے ہوئے نئی حکومت کو سرمائے کی تسکین کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی، نواز شریف نے وزارت عظمیٰ اپنے بھائی کو چھوڑ دی اور پی پی پی نے حکومت میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ اس کے بجائے اس نے 'باہر' سے اس کی حمایت کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد پاکستان میں پارلیمنٹ میں قانون سازوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ] [AP Photo/Press Information Department]

مسلم لیگ (ن) کی اقلیتی حکومت اب دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے لیے نیا بجٹ تیار کر رہی ہے۔ لیکن بجٹ کا خاکہ امریکہ کے زیر تسلط آئی ایم ایف نے پہلے ہی بیان کر دیا ہے۔

مزید برآں واشنگٹن جس نے شریف اور فوج کی جن کی قیادت اب جنرل عاصم منیر کر رہے ہیں امریکہ سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا مثبت جواب دیا ہے، بلاشبہ پاکستان کے نئے ملٹی بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پر ہونے والے تگ و دَو کے لیے جغرافیائی سیاسی رعایتیں حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔

اگرچہ پاکستان عوامی طور پر اس کی تردید کرتا ہے لیکن اس بات کے بہت سے ثبوت موجود ہیں کہ واشنگٹن کی جانب سے عمران خان کی سابقہ حکومت کو دیے گے آئی ایم ایف کے قرض کی آخری قسط پی ڈی ایم کی حکومت کو جو جاری کی گئی تھی اسے اسلام آباد کو یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے کے خفیہ معاہدے کے بدلے میں دیا گیا تھا جیسے امریکہ اور نیٹو نے یوکرین کو روس کے خلاف جنگ ​​پر اکسایا۔

جیسا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے اور جیسے شریف نے پہلے ہی توانائی کے شعبے میں مزید سبسڈی دینے اور ملک کی کرنسی کو آزادانہ طور پر گرنے کی اجازت دینے کا عہد کر رکھا ہے یہ دونوں اقدامات مہنگائی کو مزید ہوا دیں گے اور ساتھ ہی ضروری اشیا پر ٹیکسوں میں اضافہ کریں گے۔

مہنگائی کی سالانہ شرح جو 2021 میں 8.9 فیصد تھی 2023 میں بڑھ کر 29.2 فیصد ہوگئی۔ اسلام آباد اور آئی ایم ایف نے یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بڑھتے ہوئے اخراجات اور عالمی پیداوار میں خلل کی وجہ سے کوئی فکر کیے بغیر اپنی آسٹریٹی کی پالیسیاں نافذ کیں۔ کوویڈ -19 کی وبا کے نتیجے میں 2023 میں عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق غربت صرف ایک سال کے اندر 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.4 فیصد تک پہنچ گئی۔

آزار کشمیرمیں زبردست پرزور احتجاج

حالیہ ہفتوں میں عوام میں بڑھتے ہوئے غصے کے سب سے نمایاں اظہار میں وہ مظاہرے تھے جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پھوٹ پڑے جسے سرکاری طور پر آزاد جموں و کشمیر (آے جے کے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برائے نام طور پر پاکستان کا ایک خود مختار علاقہ آزاد جموں و کشمیر اسلام آباد اور فوج کے مضبوط کنٹرول کے تحت ہے۔

بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف 11 مئی کو آزاد جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تک احتجاجی مارچ کی کال ابتدائی طور پر جموں و کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) کی طرف سے جاری کی گئی تھی، جو چھوٹے تاجروں کی قیادت میں ایک تنظیم تھی جس میں نوجوان اور سرکاری ملازمین کے نمائندے شامل تھے۔ مطالبات جس میں میں خطے کی اشرافیہ کے مراعات یافتہ وجود کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے احتجاج م شروع ہونے سے چند دن قبل اے اے سی کے 70 سے زیادہ کارکنوں کو گرفتار کر کے اس کو پہلے سے روکنے کی کوشش کی۔ اس سے 10 مئی سے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال شروع ہو گئی۔

اے اے سی کے خلاف حکومت کے جمہوریت مخالف اقدامات نے غربت زدہ عوام میں ہمدردی کی ایک لہر حاصل کی جو آسمان چھوتی قیمتوں سے ریلیف کے لیے بے چین ہیں۔ اس سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں 40 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں۔ متوقع طور پر آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے اسکا جواب مزید پرتشدد پولیس کریک ڈاؤن کے ساتھ دیا جسے بلاشبہ اسلام آباد کی مکمل آشِیرباد حاصل تھی ۔ دوسری جانب پرامن مظاہرین کے ساتھ پولیس کی جھڑپوں کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ متعدد مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔

احتجاج کے تیسرے دن آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے اسلام آباد کی مدد سے مظاہرین کے خلاف نیم فوجی رینجرز تعینات کر کے اسے دبانے کی کوشش کی۔ مقبول اپوزیشن کے بڑھنے سے فکرمند اور گبھرائے ہوئے شریف نے 13 مئی کو آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انور حق کے ساتھ ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جس کے نتیجے میں آزاد جموں و کشمیر کے لیے 23 بلین روپے (83 ملین ڈالر) کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا۔

اسی دن رینجرز کا ایک قافلہ جو مبینہ طور پر آزاد جموں و کشمیر سے نکل رہا تھا نے فائرنگ کر کے تین مظاہرین کو ہلاک کر دیا، جب کہ کم از کم چھ دیگر کو زخمی کر دیا۔ اگلی دوپہر ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات ادا کی گئیں لوگوں کے ایک بڑے اجتماع نے نماز جنازہ میں شرکت کے لیے مظفرآباد کی طرف مارچ کیا 15 مئی بروز بدھ کو سوگ منایا گیا اور مرنے والوں کو شہید قرار دیا گیا۔

زبردست احتجاجی تحریک کے پھوٹ پڑنے سے اور حالات پر اس کا کنٹرول محدود ہونے کے خوف سے اے اے سی کے رہنماؤں نے احتجاج کے خاتمے کا اعلان کرنے کے لیے شریف کے 'ریلیف' پیکیج پر چھلانگ لگا دی اور اے اے سی نے فائرنگ سے متعلق اپنے ردعمل کو موت کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے حکومت سے اپیل تک محدود رکھا۔

آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے مزید بڑے پیمانے پر نقل و حرکت کو روکنے کے لیے زیادہ تر علاقے میں اسکول بند کر دیے اور موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کر دیا۔ موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ تک آبادی کی رسائی حالیہ برسوں میں حکومت کے لیے ایک بنیادی ہدف بن گئی ہے کیونکہ وہ اپنی پالیسیوں کی مخالفت کو روکنا چاہتی ہے۔

شریف نے اسلام آباد میں بے چینی کا انکشاف اس وقت کیا جب انہوں نے آزاد جموں و کشمیر میں ہونے والی پیش رفت کو 'تشویش ناک' قرار دیا۔ اس نے بغیر ثبوت فراہم کیے مظاہرین کے درمیان 'خطے کو غیر مستحکم کرنے' کی کوشش کرنے والے 'عناصر' کی موجودگی کا دعوی کرتے ہوئے مظاہرین پر پرتشدد حملوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح کے حوالہ جات کا مقصد عموماً پاکستان کے روایتی حریف بھارت کی طرف ہوتا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کو جس آزمائش کا نشانہ بنایا وہ اقدامات کہ اگر وہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی طویل عرصے سے جبر کا شکار آبادی کے خلاف ہندوستان کی طرف سے کیا جاتا تو وہ بین الاقوامی سطح پر اسکی مذمت کرتا یہ سب سے بڑھ کر اسلام آباد کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس کی واحد تشویش خطے میں انڈیا کے خلاف اپنے رجعتی جیوسٹریٹیجک مقابلے کو آگے بڑھانے کے لیے کشمیری عوام کی حقیقی مشکیلات اور شکایات کا فائدہ اٹھانا ہے۔

آئی ایم ایف کی سخت اسٹریٹی پر یا آزاد جموں و کشمیر پر اسلام آباد کی سخت گرفت پر کوئی اعتراض نہ کرنے کی بجائے اسلام آباد کے اسٹیبلشمنٹ میڈیا نے کم و بیش آزاد جموں و کشمیر میں مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن پر سرکاری لائن کی پیروی کی ہے۔

بدھ کے روز پاکستانی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ احمد فرہاد جو ایک کشمیری صحافی اور شاعر جسے ریاستی کارندوں نے دو ہفتے قبل اُس کے گھر کے باہر سے اغوا کیا تھا ان کو 'مل گیا' تھا اور وہ آزاد جموں و کشمیر کی ایک مقامی جیل میں تھا۔ فرہاد کی اہلیہ کی جانب سے اسکے وکلاء نے 15 مئی کو سب سے پہلے عدالت میں شکایت درج کرائی تھی جس میں حکام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس کے مقام کا انکشاف کرے کہ وہ کہاں ہے اور کس جگہ ہے۔پاکستانی فوج اور اس کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی تشدد، 'گمشدگی' اور ماورائے عدالت قتل کا ایک طویل خونی ریکارڈ رکھتی ہے۔

کسانوں کے احتجاج کی لہر

اسٹریٹی اور آسمان چھوتی قیمتوں پر احتجاج کا بھڑکنا صرف آزاد جموں و کشمیر تک محدود نہیں رہا۔ کسانوں اور کھیت مزدوروں کے احتجاج حالیہ ہفتوں میں پاکستان بھر میں بھی پھیل چکے ہیں خاص طور پر ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں۔ اس صوبے کو اپنی فصلوں پر ملک کے انحصار کی وجہ سے پاکستان کی 'روٹی کی ٹوکری' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں کسان اپریل سے حکومت کی جانب سے ان سے گندم کی خریداری میں ناکامی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور وہ اپنی پیداوار کو کم قیمتوں پر بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں جس سے اگلی فصل سے پہلے وہ دیوالیہ ہو جائیں گے۔

جبکہ حکومت نے گندم کی خریداری اور اس کی مارکیٹ قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے سبسڈی میں کمی کی ہے اور اس نے گندم کا بڑا ذخیرہ درآمد کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے فصلوں کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ ان درآمدات نے گندم کی مارکیٹ قیمت کو کم کر کے گرا دیا ہے جس سے کسانوں کی آمدنی میں مزید کمی آئی ہے۔ کسانوں کے احتجاج نے مظاہروں اور بھوک ہڑتالوں کی شکل اختیار کر لی لیکن انہیں اکثر پولیس کی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔ لاہور میں پولیس کے تشدد میں لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے راؤنڈ شامل تھے جس کا اختتام متعدد کسانوں کی گرفتاری پر ہوا۔

احتجاج کے محدود مطالبات کے باوجود یہ آبادی کے بڑے حصوں میں بڑھتی ہوئی عدم اطمینان کی نشاندہی کرتے ہیں جو زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ جب 2022 میں موسمیاتی تبدیلی سے منسلک بے مثال سیلاب نے فصلوں کو تباہ کر دیا تو حکومت نے بحالی میں مدد کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ پاکستان میں کم از کم 37 فیصد مزدور زراعت میں کام کرتے ہیں جو مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 23 فیصد بنتا ہے۔ ملک کی تقریباً 70 فیصد برآمدات زرعی مصنوعات پر مشتمل ہیں۔

بحران سے دوچار پاکستان میں احتجاج کی لہر اس وقت سامنے آئی جب حکومت آئی ایم ایف سے ایک اور قرض کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔ گزشتہ جولائی میں حکومت کو آئی ایم ایف کے موجودہ قرض کے تحت فنڈز تک رسائی اور ریاست کے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کی اسٹریٹی کے ایک اور دور سے اتفاق کرنا پڑا۔ اب اسلام آباد اس سے کہیں زیادہ رقم کی درخواست کر رہا ہے جو ممکنہ طور پر 6 بلین ڈالر سے زیادہ کی ہے۔ ڈان اخبار سے بات کرنے والے عہدیداروں کے مطابق آئی ایم ایف نے مبینہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ اقلیتی حکومت نئے قرض کے معاہدے سے پہلے 'غیر متوقع سیاسی ماحول کے پیش نظر' 'پہلے اقدامات' پر عمل درآمد کرے۔

ان 'پہلے اقدامات' میں پیٹرولیم سمیت نئے ٹیکس اور توانائی کی مصنوعات کی قیمتوں میں عمومی اضافہ شامل ہے۔ ایک نئے پروگرام کے تحت آئی ایم ایف 'مالی فریم ورک کو بہتر بنانے کے لیے وسیع البنیاد اصلاحات' کا بھی مطالبہ کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے سماجی اخراجات میں مزید کمی ٹیکس ریونیو کو بڑھانا بشمول پنشن پر ٹیکس عائد کر تے ہوئے نجکاری کے عمل کو فوری طور پر لاگو کرنا۔ ڈان اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'معاشی استحکام کا اگلا مرحلہ زیادہ تر آبادی کے لیے بہت مشکل ہوگا۔'

مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اسلام آباد کی اشرافیہ کی دو روایتی بورژوا جماعتوں میں سے ایک بڑی کاروباری پارٹی پی پی پی نے شریف کی اقلیتی حکومت کو اقتدار میں رکھے ہوا ہے اور ان غیر مقبول اصلاحات سے مکمل طور پر جعلی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے اپنی 'مشروط' حمایت کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ ایک مقبول مینڈیٹ کی کمی کے باعث حکومت تاہم، حکمرانی کی ہمیشہ سے آمرانہ شکلوں کو اپنائے گی کیونکہ وہ آبادی پر ایک اور اسٹریٹی کے پروگرام کو لاگو کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

مزدوروں کی مزاحمت کی وجہ سے یکے بعد دیگرے حکومتیں ملک کے کچھ بڑے اداروں کی نجکاری کرنے میں ناکام رہی ہیں جن میں پاکستان ایئر لائنز، توانائی کے شعبے کی کمپنیاں اور ریلوے شامل ہیں۔ تاہم ٹریڈ یونین کی قیادت اور اپریٹس کی غداری کے نتیجے میں جس نے محنت کشوں کی مخالفت اور طاقت کو الگ تھلگ اور کمزور کرنے کے لیے کام کیا ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں کافی حد تک تنظیم نو کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر ملازمتوں کا نقصان ہوا ہے اور مزدوروں کے لیے اجرتوں اور فوائد میں مداخلت ہوئی ہے۔

آزاد کشمیر میں حالیہ احتجاجی مظاہرے برفانی تودے کا سرہ ہیں۔ پاکستان بھر کے لوگوں میں ان کے بنیادی جمہوری حقوق سے محرومی پر ناراضگی اور غصہ اور شدید سماجی اقتصادی بحران کی وجہ سے لاکھوں افراد کی حالت زار ایک ایسے آتش فشاں کو ہوا دے رہی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ 

یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ محنت کش طبقے کو بورژوازی کے تمام دھڑوں کی مخالفت میں دیہی محنت کشوں اور اس کے پیچھے مظلوموں کو اکٹھا کرنا چاہیے۔ اسے ایک سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر ہندوستان اور پورے خطے میں محنت کشوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا چاہیے جس کا مقصد سماجی و اقتصادی زندگی کو دوبارہ منظم کرنا اور تمام لوگوں کی دوستانہ اور مساوی ترقی کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا ہے جو جنوبی ایشیا کی متحدہ سوشلسٹ ریاستہائے پر منتج ہو گا

Loading