یہ 2 جون 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Stop the US-NATO escalation toward nuclear war! Unite the international working class against imperialist war and genocide!' اس بیان کا اردو ترجمہ ہے۔
1. انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل (آئی سی ایف آئی) روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ کے تازہ ترین اضافے کی مذمت کرتی ہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کے درمیان تیزی سے مکمل جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ کسی بھی امریکی حکومت کا اب تک کا سب سے لاپرواہ فیصلہ ہے۔ جہاں تک اس کے یورپی اتحادیوں کا تعلق اس کشیدگی میں ان کے تعاون کو 1914 میں پہلی عالمی جنگ اور 1939 میں دوسری عالمی جنگ کی لاپرواہی کے تباہ کن آغاز اور پھیلاؤ سے مماثلت دی جا سکتی ہے۔ امریکی حکمران طبقے اور اس کے سامراجی اتحادیوں کی کوئی 'سرخ لکیریں' نہیں ہیں جسے وہ پار نہیں کریں گے. جسطرح کہ وہ سیاسی طور پر اسرائیلی ریاست کے 35,000 سے زیادہ غزہ کے باشندوں کی نسل کشی کی حمایت کرتے ہوئے ہتھیار فراہم کر رہے ہیں وہ یوکرین میں ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں جوہری تباہی ہو سکتی ہے جو کرہ ارض کی تمام زندگی کو تباہ کر سکتی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام جس کا ناقابل حل عالمی بحران نسل کشی اور جنگ کی بنیادی وجہ ہے بربریت میں داخل ہو چکا ہے۔
2. جمعہ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے خفیہ طور پر یوکرین کو اجازت دی کہ وہ اپنے اقدامات کی وجوہات کی وضاحت کیے بغیر یوکرین کے شہر خارکیف کے قریب روسی سرزمین پر امریکی طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے حملے کرے۔ اس کے فوراً بعد جرمنی نے اعلان کیا کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ 24 گھنٹوں کے اندر یوکرین پہلے ہی امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے روس بشمول خارکیف اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر حملے کر چکا ہے۔ یہ فیصلہ اس کی یوکرینی پراکسی فورس کے فوجی خاتمے کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔
3. امریکہ، جرمنی اور برطانیہ نے یوکرین کو 300 میل سے زیادہ کی رینج والے کروز اور بیلسٹک میزائل فراہم کیے ہیں۔ جب ان میزائل کو یوکرین کی سرزمین سے داغا جائے گا تو یہ ہتھیار روس کے کچھ بڑے شہروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جن میں کرسک، بیلگوروڈ، وورونز، روستوف اور وولگوگراڈ شامل ہیں۔
4. دوسری عالمی جنگ میں جرمن نازی کی روس کے خلاف تباہ کن جنگ اور امریکہ کے حوالے سے 1917 کے انقلاب کی خانہ جنگی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ سامراجی طاقتوں نے براہ راست روسی سرزمین کو نشانہ بنایا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سرد جنگ کے عروج پر بھی نہیں کیے گئے کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان سے پورے پیمانے پر ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی۔
5. امریکی میڈیا ان اعلانات سے بھرا ہوا ہے کہ روس کا اپنی سرزمین پر حملوں کا جواب دینے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا سرکاری فوجی نظریہ ایک کھلم کھلا فریب ہے۔ دلیل یہ ہے کہ چونکہ روس نے ماضی میں امریکی اشتعال انگیزیوں کا جواب نہیں دیا ہے اس لیے نیٹو بغیر کسی نتیجے کے روس کی ’’سرخ لکیریں‘‘ عبور کر سکتا ہے۔ سابق ریپبلکن کانگریس مین ایڈم کنزنگر نے گزشتہ ہفتے سی این این میں ایک مضمون میں اعلان کیا کہ 'پیوٹن کو چیلنج کرنے کا وقت آگیا ہے۔' ریٹائرڈ جنرل فلپ بریڈلو، سابق سفیر مائیکل میک فال، اسٹینفورڈ کے پروفیسر فرانسس فوکویاما اور درجنوں سابق امریکی عہدیداروں نے وائٹ ہاؤس کو لکھے گئے ایک خط میں لکھا ہے کہ 'روس کی واضح طور پر خالی دھمکیاں امریکہ کو کامیابی سے روک رہی ہیں۔'
6. یہ دعویٰ کہ روس کا فوجی نظریہ ایک 'بلف' ہے جو بغور جائزے کے اپنے دفاع اور جوابی کاروائی سے عاری ہے۔ اس مفروضے کی بنیاد صرف اس پر استوار ہے کیونکہ روسی حکومت نے ماضی میں نیٹو کی اشتعال انگیزیوں کا جواب نہیں دیا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ مستقبل میں بھی ایسا ہی کرے گا۔ مثال کے طور پر کیا کوئی یہ شک کر سکتا ہے کہ اگر روس یا چین نے امریکی سرزمین پر حملے کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ امریکی حکومت جواب دینے کی 'جرأت نہیں کرے گی' تو یہ ناگزیر ہو جائے گا کہ امریکہ زبردست طاقت کے ساتھ جوابی حملہ کرے گا؟
7. فوجی نقطہ نظر سے اسکی بہت سی حقیقی وجوہات موجود ہیں کیوں کہ روسی فوج اپنی سرزمین پر نیٹو کے حملوں کا مجبوری میں جواب دینے کا احساس محسوس کرے گی۔ مزید یہ کہ کون کہے گا کہ نیٹو میں اضافے سے پیدا ہونے والے بحران کے دوران پیوٹن کی جگہ ایک ایسا دھڑا نہیں آئے گا جو نیٹو کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے فوجی اقدامات کے لیے اور بھی زیادہ تیار ہے؟
8. امریکی حکام کے یہ دعوے کہ اگر حملہ کیا گیا تو روسی فوج جوابی کارروائی نہیں کرے گی اس لیے یہ امکان ہے کہ ان دعوؤں پر یقین کرنے والوں کو یقین نہ آئے اور اصل مقصد روسی حکومت کی طرف سے کسی قسم کی سخت فوجی کارروائی کو اکسانا ہے۔ جو بدلے میں امریکہ کی طرف سے جوہری جوابی کارروائی کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
9. اپنی 2021 کی کتاب (The Strategy of Denial) میں 2018 کی امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے مصنف ایلبرج کولبی لکھتے ہیں کہ امریکی پروپیگنڈے کے لیے امریکی فوج کے اہداف کو 'پہلی گولی چلانے' پر مجبور کرنا کتنا ضروری ہے اور اس طرح پھر اسے حملہ آوروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے:
شاید اس بات کو یقینی بنانے کا سب سے واضح اور بعض اوقات سب سے اہم طریقہ [ مخالف یا دشمن ] کو اس طور پر دیکھا جاتا ہے صرف اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ سب سے پہلے حملہ کرنے والا ہو۔ بہت کم انسانی اخلاقی وجدان چیزوں اور واقعات کے محرکات کو گہرائی کی وسعت میں پرکھتے ہیں جبکہ اسکے مقابل زیادہ تر اس تصور سے اَخذ کرتے ہیں جس نے اسے شروع کیا وہ حملہ آور ہے اور اس وجہ سے اخلاقی ذمہ داری کا زیادہ حصہ حاصل کرتا ہے۔
10. بائیڈن انتظامیہ نے پبلیک بیان دینے کی زحمت کیے بغیر یہ کارروائیاں شروع کی ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے 29 مئی کو لکھا کہ 'اہلکار تسلیم کرتے ہیں کہ [بائیڈن] غالباً کبھی بھی [اس اقدام] کا اعلان نہیں کریں گے اس کے بجائے امریکی توپ خانے کے گولے اور میزائل روسی فوجی اہداف پر برسنا شروع کر دیں گے۔' ٹائمز کے ایک پہلے مضمون میں کہا گیا تھا کہ امریکہ نے 'مسٹر بائیڈن ' کا تیسری عالمی جنگ سے بچنے کے مینڈیٹ کی وجہ سے حملوں کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن سابق پالیسی کے بارے میں اتفاق رائے ختم ہو رہا ہے۔ کسی بھی موقع پر بائیڈن انتظامیہ نے یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ یوکرین میں جو کچھُ ہو رہا ہے اس کی اتنی بڑی اہمیت کیوں ہے کہ وہ ممکنہ طور پر تہذیب کو ختم کرنے والی جوہری جنگ کا خطرہ مول لینے کے لیے بھی تیار ہے۔
11. نیٹو طاقتیں جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روسی رولیٹی کھیل رہے ہیں۔ وہ جنگ میں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں یہاں تک کہ بات چیت کے ذریعے تصفیہ یا ذرا بھر پیچھے ہٹنے کے امکان کا زکر کیے بغیر جس سے اس خون ریز حکمت عملی کو ترک کیا جا سکتا ہے۔
12. یہ تازہ ترین اقدامات ایک خاص نمونے کی پیروی کرتے ہیں۔ بار بار بائیڈن انتظامیہ نے جنگ میں امریکی شمولیت کو محدود کرنے کے لیے مقرر کردہ ہر 'سرخ لکیر' کو عبور کیا ہے۔ مارچ 2022 میں بائیڈن نے زور دے کر کہا تھا کہ 'یہ خیال کہ ہم جارحانہ ساز و سامان بھیجنے جا رہے ہیں، ہوائی جہاز، ٹینک اور ٹرینیں امریکی پائلٹوں اور امریکی عملے کے ہمراہ جائیں گی ' کا مطلب ہوگا کہ 'تیسری عالمی جنگ '۔ مئی 2022 میں بائیڈن نے نیویارک ٹائمز میں ایک ایڈیٹوریل میں کہا 'ہم یوکرین کو اس کی سرحدوں سے باہر حملہ کرنے کی حوصلہ افزائی یا اس کے قابل نہیں بنا رہے ہیں۔' جون 2022 میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا 'ہم روس کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے اس لیے کچھ ہتھیاروں خاص طور پر حملہ آور ہوائی جہاز یا ٹینک۔' کی فراہمی نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے،
13. یہ تمام 'سرخ لکیریں' نیٹو نے عبور کی ہیں۔ پہلے نیٹو نے بکتر بند گاڑیاں پھر اہم جنگی ٹینک اور پھر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھیجے۔ اس کے بعد نیٹو کے ارکان نے خفیہ طور پر سینکڑوں فوجیوں کو یوکرین کے اندر تعینات کر دیا، یہ سب اقدامات اپنے شہریوں کو بتائے بغیر کیے گے۔ یہ اعلان کرنے کے بعد کہ یوکرین کی جنگ میں براہ راست امریکی شمولیت ' تیسری عالمی جنگ' اور 'جوہری تباہی ' کا باعث بنے گی بائیڈن نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے کبھی بھی یہ بتائے بغیر کہ ایسا کرنے پر کس نے اُسے اکسایا ہے،
14. اس میں کوئی شک نہیں کہ روس کے خلاف جنگ کی شدت میں اگلا قدم یوکرین میں دسیوں ہزار نیٹو افواج کا داخلہ ہوگا۔ یہ مزید اضافہ یقینی طور پر جولائی میں واشنگٹن ڈی سی میں نیٹو کے آئندہ سربراہی اجلاس میں خفیہ بات چیت کا موضوع ہوگا۔ برطانیہ میں فوری انتخابات 4 جولائی کو سربراہی اجلاس سے پہلے بلائے گئے ہیں تاکہ جنگ کی بڑھتی ہوئی مخالفت کو روکا جا سکے اور یورپی سطح پر جنگ کے نئے مرحلے کے لیے سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکے۔
15. یوکرین میں جنگ میں اضافہ جس کی سربراہی بائیڈن انتظامیہ کر رہی ہے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکی سامراج کی عالمی سطح پر دہائیوں سے جاری پھیلتی ہوئی جنگ کا انتہائی مظہر ہے۔ اپنے مفادات کے حصول کے لیے حکمران اشرافیہ بڑے پیمانے پر موت اور تباہی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہی حکومتیں غزہ کی نسل کشی کی مالی امداد اعانت اسے مسلح کرنے اور سیاسی طور پر اسکی حمایت کر رہی ہیں جس سے پہلے ہی دسیوں ہزار ہلاک ہو چکے ہیں اور 20 لاکھ سے زیادہ کی پوری آبادی کو فاقہ کشی کا سامنا ہے۔
16. روس کی محکومیت ایک وسیع تر عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد نہ صرف سابق سوویت یونین کو تقسیم کرنا ہے اور بالآخر چین کو بھی زیر کرنا ہے۔ تعزیری پابندیاں جن کا مقصد روس کو معاشی طور پر کمزور کرنا تھا وہ چین کے ساتھ تجارت میں بڑے اضافے اور اور کسی حد تک ایران اور شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے حصول سے اسے گھٹنے ٹیکنے پر ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا روس کے خلاف بڑھتے بڑھتے یوکرین کے تنازعے کا یہ عمل حقیقی معنوں میں عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گا۔
17. سامراج کی جیوپولیٹیکل ضروریات کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ ایک دور رس سماجی اقتصادی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے جس کا امریکی حکمران طبقے کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ امریکی معیشت کا انحصار فوجی ہتھیاروں پر بے لگام حکومتی اخراجات اور بڑی کارپوریشنوں کے مسلسل بیل آؤٹ کے ذریعے برقرار ہے۔ وفاقی قرضہ ہر دہائی میں دوگنا ہو رہا ہے اور کرنسی کی قدر میں کمی اور قرضوں کی منیٹائزیشن کے ذریعے اس کی مالی اعانت کی جا رہی ہے۔
18. یہ سب کچھ 2024 کے صدارتی انتخابات سے قبل ایک زبردست سیاسی بحران اور گروہی جنگ کے تناظر کیدوران میں ہو رہا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جو اس وقت انتخابات میں آگے ہیں نے ساڑھے تین سال قبل ایک فاشسٹ بغاوت کے ذریعے انتخابات کو الٹنے کی کوشش کی تھی۔ ایک گہرے سماجی بحران اور غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی امریکی حمایت پر بڑھتے ہوئے غصے اور غم و غصے کے دوران دونوں سرمایہ دار جماعتوں کو وسیع عوامی مخالفت کا سامنا ہے۔
19. تمام بڑے سرمایہ دار ممالک میں اسی طرح کے ملتے جلاتے حالات موجود ہیں۔ حکمران اشرافیہ کو امید ہے کہ بیرون ملک جنگ منتقل کرتے ہوئے جنگ کے وقت 'قومی اتحاد' کے نام پر جمہوری حقوق کو دبانے کے حالات پیدا کرے گی۔ بحران کا یہ ماحول غلیظ عسکریت پسندی اور ایک قسم کے اندرونی تشدد کو جنم دے رہا ہے جو پہلے صرف فاشسٹ حکومتوں اور فوجی پولیس آمریتوں سے وابستہ تھا۔
20. اپنی طرف سے پیوٹن حکومت نے یک بعد دیگر غلط حساب کتاب لگایا ہے۔ 1917 کے اکتوبر انقلاب کے بعد ریاستی اثاثوں کو قومیا لینے کے بعد 1991 میں سوویت یونین کے تحلیل ہونے اوراس کی نجکاری اور لوٹ مار کی بنیاد پر اقتدار میں آنے والے غاصب روسی سرمایہ دار طبقے کے مفادات میں کریملن کی طرف سے شروع کیے گئے 'خصوصی فوجی آپریشن' میں دور دور تک کچھ بھی ترقی پسند نظر نہیں آتا۔
21. پیوٹن نے 2022 میں یوکرین پر رجعتی حملے کا آغاز کیا تاکہ وہ اپنے مغربی 'شراکت داروں' کے ساتھ طاقت کی پوزیشن کی زبان پر مذاکرات کر سکیں۔ لیکن نیٹو نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ مذاکرات میں مکمل طور پر دلچسپی نہیں رکھتا اور نیٹو کے لیے قابل قبول جنگ کا واحد نتیجہ روس کی فوجی شکست اور یوگوسلاویہ کی طرح روسں کا بٹوارا چاہتا ہے۔ اس کے دیوالیہ پن قوم پرستانہ نقطہ نظر کی بنیاد پر پیوٹن حکومت اور اس کی نمائندگی کرنے والے روسی اشرافیہ کے دھڑے کو خود سے زیادہ لاپرواہ اور اشتعال انگیز فوجی اضافہ کی طرف راغب کیا گیا ہے۔
22. سامراجی جنگ میں عالمی سطح پر اضافہ بڑے پیمانے پر اندرونی طور پر جبر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ امریکہ میں حکومت نے غزہ کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو مجرمانہ قرار دیا ہے اور ہزاروں طلباء اور نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں۔ مظاہروں پر ہونے والا تشدد حکمران اشرافیہ کے خوف کی عکاسی کرتا ہے کہ محنت کش طبقے میں ایک وسیع تر تحریک کہیں پھوٹ نہ جائے جو زندگیوں میں جنگ اور سماجی پروگراموں کی تباہی کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوں گے۔
23. یوکرین میں جنگ کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور جنگ کے مسودے کے خلاف زیلنسکی حکومت نے یوکرین کے سوشلسٹ بوگڈان سیروتیوک کو روس کے مفادات کی خدمت کے دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ درحقیقت بوگڈان سرمایہ دار پیوٹن حکومت اور یوکرین پر اس کے حملے کا ایک متضاد مخالف ہے۔ بوگڈان کی گرفتاری زیلنسکی حکومت اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے اندر انتہائی بے چینی کو ظاہر کرتی ہے کیوں کہ جنگ کی مخالفت میں یوکرائنی محنت کش طبقے کے اندر بڑھتا ہوا ردعمل صاف نظر آ رہا ہے۔
24. دس سال پہلے اپنے بیان میں، 'سوشلزم اور سامراجی جنگ کے خلاف لڑائی میں،' آئی سی ایف آئی نے خبردار کیا تھا کہ:
ایک نئی عالمی جنگ کا خطرہ سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی تضادات سے پیدا ہوتا ہے - ایک عالمی معیشت کی مربوط ترقی اور اس کی مخالف قومی ریاستوں کے درمیان تقسیم جس میں ذرائع پیداوار کی بنیاد نجی ملکیت پر مبنی ہے۔ اس کا سب سے شدید اظہار امریکی سامراج کی یوریشیائی لینڈ ماس پر غلبہ حاصل کرنے کی مہم میں پایا جاتا ہے سب سے بڑھ کر ان علاقوں سے جہاں سے اسے روسی اور چینی انقلابات نے دہائیوں تک خارج کر دیا تھا۔ مغرب میں امریکہ نے جرمنی کے ساتھ مل کر یوکرین کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے فاشسٹ کی قیادت میں بغاوت کا منصوبہ بنایا ہے۔ لیکن اس کے عزائم یہیں نہیں رکتے۔ حتمی مقصد روسی فیڈریشن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے اسے نیم کالونیوں کے سلسلے میں کم کر کے اس کے وسیع قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا راستہ کھولنا ہے۔ مشرق میں اوباما انتظامیہ کی ایشیا کے لیے گھیرا تنگ کرنے کا مقصد چین کو گھیرنا اور اسے نیم کالونی میں تبدیل کرنا ہے۔ یہاں مقصد سستی محنت کے تسلط کو یقینی بنانا ہے جو محنت کش طبقے سے حاصل کی جانے والی قدر زاید ہے جو کلیدی عالمی ذرائع میں سے ایک ہے اور جو سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی آکسیجن ہے۔
25. پچھلی دہائی نے اس انتباہ کی تصدیق کی ہے۔ روس کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی بڑھتی ہوئی کھلی جنگ اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات کے درمیان عالمی جنگ کو ایک غیر معمولی واقعہ کے طور پر دیکھنا ناممکن ہے بلکہ یہ سرمایہ داری کی بنیادی محرک قوتوں کا اظہار ہے۔
26. وہی تضادات جو سامراج کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لے جاتے ہیں سماجی انقلاب کی معروضی بنیاد بھی مہیا کرتے ہیں۔ بین الاقوامی محنت کش طبقہ ایک بہت بڑی سماجی قوت ہے جس کے مفادات سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی بربریت سے ٹکراتے ہیں۔ سامراجی جنگی منصوبہ بندی کا سازشی کردار اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ حکمران طبقہ خود اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس کی پالیسیوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔
27. غزہ کی نسل کشی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کے باوجود آبادی کے وسیع تر حصے روس کے ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی جنگ سے بے خبر ہیں۔ حکمران اشرافیہ اور ان کے سیاسی وابستگان بشمول ٹریڈ یونینوں کے آپریٹس محنت کش طبقے کو سامراجی جنگی پالیسی کے تابع کرتے ہوئے مزدوروں کو خطرے کی سنگینی کو سمجھنے سے روکنے کی منظم کوششوں میں مصروف ہیں۔
28. تباہی کی طرف بڑھنے سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے محنت کش طبقے کی شعوری مداخلت اور طاقت کے ذریعے اس جنگ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مطالبے کو اسرائیل کے خلاف غزہ کی نسل کشی کے خاتمے کے لیے جدوجہد کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔ مزدوروں کو یوکرین سے تمام امریکی اور نیٹو افواج اور ہتھیاروں کے فوری انخلا کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسے پیوٹن حکومت کی رجعتی قوم پرست پالیسیوں کے لیے ہر طرح کی حمایت سے انکار کرنا چاہیے جو کسی بھی طرح سے سامراجی طاقتوں کی جنگی پالیسیوں کے ترقی پسند متبادل کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔
29. محنت کش طبقے کو اس جنگ کو روکنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرنا چاہیے جو تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس طاقت کو متحرک کرنے کے لیے عالمی سیاسی بحران کے ترقی یافتہ مرحلے اور ماس سیاسی شعور کی موجودہ سطح کے درمیان موجود خلیج پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اس تاریخی مسئلے کے حل کے لیے مارکسسٹ ٹراٹسکی قیادت کی ترقی اور سوشلسٹ پالیسیوں کی بنیاد پر بین الاقوامی مزدوروں کی تحریک کی انقلابی تجدید کی ضرورت ہے۔؟؟؟ اونچے
30. انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل روس، یوکرین، اور تمام سابق سوویت یونین کے محنت کشوں کو یورپ، ایشیا اور امریکہ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد ہونے کا مطالبہ کرتی ہے جو کہ جنگ کی بنیادی وجہ ہے۔ ابھرتی ہوئی تباہی سے نکلنے کا واحد راستہ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی فتح ہے۔