یہ 10 جون 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'For a mass demonstration on July 24 in Washington D.C. to protest congressional invitation for Netanyahu' اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔
ہفتے کے روز اسرائیلی افواج نے غزہ میں پوری نسل کشی کے دوران اجتماعی قتل کی سب سے ہولناک کارروائی کی۔ وسطی غزہ میں نوسیرت پناہ گزین کیمپ پر حملے میں کم از کم 274 افراد مارے گئے۔ مرنے والوں میں کم از کم 64 بچے 57 خواتین اور 37 بوڑھے شامل ہیں۔ جبکہ مزید 680 افراد زخمی ہوئے۔
امدادی کارکنوں کے بھیس میں اسرائیلی فوجیوں نے پورے کیمپ میں فائرنگ کی اور چھاپوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ یہ قتل عام بظاہر 'یرغمالیوں کو بچانے' کے آپریشن کے طور پر کیا گیا۔ تاہم بازیاب کرائے گئے ہر یرغمالی کے بدلے 68 افراد کو ہولناک طریقے سے قتل کیا گیا جن میں خاص طور پر تین اسرائیلی یرغمالی اور ایک امریکی شہری شامل ہے۔
یہ قتل عام کانگریس کے دونوں ایوانوں کے رہنماؤں کی طرف سے 24 جولائی کی تاریخ مقرر کرنے کے بعد ہوا جب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ یہ ہٹلر کو دوسری عالمی جنگ کے دوران ہولوکاسٹ کے عروج پر تقریر کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے مزدوروں اور نوجوانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واشنگٹن ڈی سی میں اس کا ایک بڑے مظاہرے کے ساتھ جواب دیں وقت کی مناسبت سے جب نیتن یاہو کانگرس کے مشترکہ ایوان میں خطاب کریں گے۔ تاہم اس مظاہرے کا مقصد صرف نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کرنا نہیں ہے بلکہ نسل کشی کو ہدایت، مالی امداد اسے مسلح کرنے اور سیاسی طور پر جواز فراہم کرنے میں امریکی سامراج اور پوری سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے۔
نیتن یاہو کا دعوت نامہ جس پر 'امریکہ کے ایوان نمائندگان اور امریکی سینیٹ کی دو طرفہ قیادت' نے دستخط کیے۔ یہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف امریکہ اور پوری دنیا میں ایک سیاسی اشتعال انگیزی ہے۔ یہ ایک ایسے قاتل کے ساتھ سیاسی اور اخلاقی یکجہتی کا اعلان ہے جس پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اعلیٰ پراسیکیوٹر نے جنگی جرائم کا الزام لگایا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ دعوت امریکی حکومت اور اسرائیلی حکومت کے درمیان حقیقی تعلق کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ نیتن یاہو سے کہا جاتا ہے کہ وہ پیش رفت کی رپورٹ پیش کریں۔ اس میں کہا گیا ہے ’’ہم آپ کو جمہوریت کے دفاع، دہشت گردی سے نمٹنے اور خطے میں منصفانہ اور دیرپا امن کے قیام کے لیے اسرائیلی حکومت کے وژن کو شیئر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘
اسرائیلی حکومت ’’دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر رہی‘‘۔ بلکہ یہ پوری قوم کا قتل عام کر رہی ہے اور یہ سب کچھ امریکی اور یورپی سامراج کے آلہ کار کے طور پر کر رہی ہے۔
درحقیقت ہفتہ کا قتل عام امریکی افواج کی براہ راست شمولیت کے ساتھ ہوا۔ نیویارک ٹائمز نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل میں زمین پر تعینات امریکی فوجی اہلکاروں نے حملے کے لیے 'انٹیلی جنس اور دیگر مدد' فراہم کی تھی، جب کہ فلسطینی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جس امدادی گاڑی میں اسرائیلی فورسز چھپے ہوئے تھے وہ امریکی ساختہ 'انسان دوستی' گاڑی کے پنڈال سے اترے تھے جس سے ایک دن پہلے لگایا گیا تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ 'کیا امریکہ اسرائیل کی اسی طرح مزید کارروائیوں کی حمایت کرتا ہے چاہے اتنی تعداد میں عام شہری مارے جائیں؟' قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اعلان کیا 'ہم ایسا کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔'
نیتن یاہو کو مدعو کرتے ہوئے امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ واضح کر رہی ہے کہ اسرائیلی حکومت کو فلسطینیوں کو قتل کرنے کی کوئی حد نہیں ہے اس کے لیے کوئی 'سرخ لکیریں' نہیں ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد اب 50,000 کے قریب ہے۔ بڑے پیمانے پر آبادی کو جو فاقہ کشی کا سامنا ہے اُس سے سینکڑوں ہزاروں افراد مزید ہلاک ہو سکتے ہیں مگر اس سے امریکہ کی حمایت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس تمام فیکٹریوں اور دیگر کام کی جگہوں پر مزدوروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مظاہرے میں شرکت کے لیے وفود کو منظم کریں۔ ہم طلباء اور نوجوانوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ 24 جولائی کو احتجاج کے لیے واشگنٹن ڈی سی آئیں۔
اس مظاہرے کا مقصد جنگی مجرموں کو اپنی سوچ بدلنے پر آمادہ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی وہ کریں گی۔ اس احتجاج کو سامراجی جنگ کے خلاف ایک حقیقی حکمت عملی کی بنیاد پر ایک طاقتور جنگ مخالف تحریک کو متحرک کرنا ہے۔
یہ حکمت عملی درج ذیل اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے۔
سب سے پہلے غزہ کی نسل کشی امریکی قیادت میں عالمی سامراج کے عالمی سطح پر پھیلاوُ اور پھٹنے سے جڑی ہوئی ہے جو روس اور چین کے خلاف بڑھتی ہوئی امریکی جنگ کا ایک اہم حصہ ہے۔
نیتن یاہو کو یہ دعوت یوکرین میں جنگ کی ایک بڑی شدت کے دوران ہوئی ہے، جس میں نیٹو طاقتیں براہ راست شریک کے طور پر جنگ میں داخل ہو رہی ہیں۔ پچھلے ہفتے بائیڈن نے اعلان کیا کہ انہوں نے یوکرین کو نیٹو ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے روس کے اندر حملے کرنے کا اختیار دیا ہے اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان ممالک کا اتحاد بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں جو یوکرین میں فوج بھیجیں گے۔
وہی حکومتیں جو غزہ میں نسل کشی کی پشت پناہی کر رہی ہیں یوکرین میں پراکسی حکومت کو مسلح کر رہی ہیں۔ اور جیسا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں لوگوں کی گرفتاری کی نگرانی کی ہے یوکرین کی حکومت نے جس کا عملہ سراسر فاشسٹوں کے ہمراہ ہے اُس نے بوگڈان سیروتیوک کو گرفتار کر لیا ہے جو کہ یوکرین اور روس دونوں میں جنگ اور سرمایہ دارانہ حکومتوں کے سخت سوشلسٹ مخالف ہیں۔
دوسرا، جنگ کے خلاف تحریک محنت کش طبقے میں ہونی چاہیے۔
یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو جنگ میں لڑے گا اور مرے گا اور یہ محنت کش طبقہ ہے جو اس جنگ کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوگا۔ وہی سرمایہ دارانہ بحران جو جنگ کو جنم دیتا ہے جنگ کے خاتمے کی بنیاد بھی پیدا کرتا ہے۔ عدم مساوات، غربت اور اجرتوں، ملازمتوں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور محنت کش طبقے کے تمام سماجی حقوق پر حملے کے خلاف بڑھتی ہوئی حکمران اشرافیہ کے استصال کی صورت میں۔
تیسرا، جنگ کے خلاف تحریک کو سرمایہ دار طبقے کی تمام سیاسی جماعتوں اور تنظیموں سے مکمل طور پر آزاد اور مخالف ہونا چاہیے۔
بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس شروع سے ہی اس نسل کشی میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے 2024 کے انتخابات میں بائیڈن کے ریپبلکن مخالف، ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ 'اسرائیل کو کام ختم کرنا ہوگا۔' ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز نے نسل کشی کو مسلح کرنے اور اس کی مخالفت کو 'یہودی دشمن' قرار دینے میں ہاتھ ملایا ہے۔
جیسے جیسے وہ بیرون ملک جنگ کو بڑھا رہے ہیں حکمران اشرافیہ اندرون ملک فاشسٹ اور آمرانہ طرز حکمرانی کی طرف مزید کھلے عام بڑھ رہے ہیں۔ ان اقدامات سے محنت کش طبقے کا رخ کارپوریٹ اور مالیاتی طبقے کی پالیسیوں کی مخالفت میں ہے۔
چوتھی، نسل کشی کے خلاف اور جنگ کے خلاف تحریک بین الاقوامی ہونی چاہیے جو ہر ملک اور ہر براعظم میں مزدوروں کو ان کے مشترکہ طبقاتی مفادات کی بنیاد پر متحد کرے۔
یہ بڑھتی ہوئی عالمی جنگ پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ جیسے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات سے جنم لیتی ہے۔ ایک نئے پرتشدد عالمی ہنگامے کو صرف عالمی محنت کش طبقے کے متحرک ہونے سے ہی روکا جا سکتا ہے جو معاشرے کی تمام دولت پیدا کرتا ہے اور اس وجہ سے سرمایہ دارانہ حکمران اشرافیہ کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی سماجی اور معاشی طاقت رکھتا ہے۔
پانچویں، جنگ کے خلاف لڑائی سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ مخالف ہونی چاہیے کیونکہ جنگ کے خلاف سنجیدہ جدوجہد اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اسے مالیاتی سرمائے کی آمریت اور معاشی نظام کے خاتمے کی لڑائی کے ساتھ جوڑا نہیں جاتا جو جنگ کی بنیادی وجہ ہے۔
اپنے مفادات اور سرمایہ دارانہ منافع بخش نظام کے دفاع میں کارپوریٹ اور مالیاتی طبقہ نوع انسانی کو گہری کھائی کی جانب دکھیل رہا ہے۔ حکمران طبقے کی مستقل جنگ کا جواب محنت کش طبقے کے مستقل انقلاب کے تناظر میں دینا چاہیے، جس کا اسڑیجک ہدف قومی ریاستی نظام کا خاتمہ اور عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ہے۔