اُردُو

اسرائیلی حکومت لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ ​​کی تیاری کر رہی ہے۔

یہ 19 جون 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے  'Israeli regime preparing for all-out war with Hezbollah in Lebanon' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

اسرائیل اور لبنان میں حزب اللہ ملیشیا کے درمیان گزشتہ ہفتے کے دوران کشیدگی میں شدید اضافہ نے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے پھیلاؤ کے امکانات کو قریب تر کر دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر کے قتل کے جواب میں شمالی اسرائیل پر راکٹ فائر کیے جانے کے بعد اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے منگل کو ایک بیان جاری کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ لبنان میں جنگ کے آپریشنل منصوبوں کی منظوری دے دی گئی ہے۔

55 سالہ حزب اللہ کے کمانڈر طالب سمیع عبداللہ کے جلوس جنازہ کے دوران سوگوار نعرے لگا رہے ہیں جسے حج ابو طالب کے نام سے جانا جاتا ہے جو منگل کو دیر گئے بیروت، لبنان کے جنوبی مضافاتی علاقوں میں بدھ 12 جون 2024 کو اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ /بلال حسین] [AP Photo/Bilal Hussein]

غزہ پر اپنے نسل کشی کے آغاز کے بعد سے اسرائیل سرحد پار حزب اللہ کے ساتھ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر فائرنگ کا تبادلہ کرتا رہا ہے۔ اب تک اسرائیلی فضائی حملوں اور گولہ باری سے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے 340 ارکان اور درجنوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ حزب اللہ کے راکٹوں سے صرف 10 اسرائیلی شہری اور 15 آئی ڈی ایف فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن یہ تبادلے گزشتہ ہفتے واضح طور پر اس وقت شدت اختیار کر گئے جب اسرائیل نے اکتوبر سے حزب اللہ کے سب سے سینئر کمانڈر طالب عبداللہ کو قتل کر دیا۔ حزب اللہ نے ہفتے کے روز شمالی اسرائیل میں ماؤنٹ میرون ایئر ٹریفک کنٹرول بیس پر حملہ کرکے اسکا جواب دیا جس سے آئی ڈی ایف کو مجبورنہ یہ کہنا پڑھ کہ حملے کی وجہ سے 'یونٹ کی صلاحیتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا'۔

منگل کے روز حزب اللہ نے حیفہ میں فوجی مقامات اور سویلین انفراسٹرکچر کی ڈرون فوٹیج جاری کی جس میں شمال میں اسرائیل کے فضائی دفاع جسکی بہت تعریف کی جاتی ہے کے حدود کو نشانہ بناتے ہوئے دیکھایا گیا۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ایک بیان میں جواب دیا کہ'ہم حزب اللہ اور لبنان کے خلاف جنگ کے قوانین کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرنے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ ایک ہمہ گیر جنگ میں حزب اللہ تباہ ہو جائے گی اور لبنان کو سخت شکست دی جائے گی۔

اُسی دن کچھ دیر بعد آئی ڈی ایف نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ لبنان میں جارحیت عروج پر ہے۔ اس نے اعلان کیا کہ 'صورتحال کے ایک جائزے کے طور پر لبنان میں حملے کے آپریشنل منصوبوں کی منظوری دی گئی اور ان پر عمل درآمد کیا گیا ہے اور میدان جنگ میں فورسز کی تیاری کو تیز کرنے کے لیے فیصلے کیے گئے ہیں'۔ 

بائیڈن انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ کے لیے اپنے خصوصی ایلچی آموس ہوچسٹین کو خطے میں روانہ کیا ہے جہاں انہوں نے منگل کو لبنان کا سفر کرنے سے پہلے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور صدر اسحاق ہرزوگ سے بات چیت کی۔ ہرزوگ نے ​​مبینہ طور پر ہوچسٹین کے ساتھ 'شمالی سرحد پر سیکورٹی بحال کرنے کی فوری ضرورت' پر تبادلہ خیال کیا جو حزب اللہ کو تباہ کرنے کے لیے ایک خوش فہمی ہے۔

جب کہ میڈیا رپورٹس نے ہوچسٹین کے سفر کو تنازعہ کو 'کم کرنے' کی کوشش کے طور پر پیش کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی سامراج مشرق وسطیٰ کو ایک تباہ کن خطے کی وسیع جنگ کی طرف دھکیلنے میں سب سے زیادہ اشتعال انگیز کردار ادا کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن عارضی طور پر اپنے اتحادی اسرائیلی پر تیز رفتار جنگ کی جانب ہلکی بریک لگا رہا ہے کیونکہ اُسے کچھ وقت درکار ہو گا کہ وہ ایران مخالف اتحاد جس میں تہران کے خلاف جنگ کے لیے عرب خلیجی ریاستوں کو بھی شامل کرئے۔ برحال اگر اس کا حملہ آور کتا لبنان میں جنگ شروع کرتا ہے تو امریکی سامراج بلاشبہ اس کی پشت پناہی کرے گا۔

پوری اسرائیلی سیاسی اسٹیبلشمنٹ لبنان میں جنگ چاہتی ہے۔ غزہ میں نسل کشی اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی مزید توسیع کے ذریعے عظیم تر اسرائیل کا صیہونی ایجنڈے کے لیے لبنان میں حزب اللہ کو کچلنے کی بھی ضرورت ہے۔ نیتن یاہو اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت غزہ میں نسل کشی جاری رکھنے اور اس کے ساتھ ہی شمالی محاذ پر جنگ شروع کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اپنے فاشسٹ اتحادیوں بیزلیل سموٹریچ اور ایتامار بین گویر کو بیلگام حکومت دیتے ہوئے نیتن یاہو نے مغربی کنارے میں آباد کاروں کے خلاف تشدد میں ایک دھماکے اور چھاپوں اور گرفتاریوں کے فوجی دستے کی نگرانی کی ہے جس میں 500 سے زیادہ فلسطینیوں کی جانیں گئی ہیں اور ہزاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔.

9 جون کو نیتن یاہو کی جنگی کابینہ سے سبکدوش ہونے والے قومی اتحاد کے رہنما بینی گینٹز لبنان میں جنگ چھیڑنے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے حامی ہیں۔ ایک اور قومی اتحاد کے رکن چیلی ٹراپرُ جنہوں نے گانٹز کے ساتھ جنگی کابینہ چھوڑ دی ہے نے حال ہی میں نیویارکر میگزین کو بتایا کہ 'ہم یہودیہ اور سامریہ [مغربی کنارے] میں فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور اسے حکومت کی طرح تباہ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ میں ہم نے غزہ کی مقامی فورسز کے ساتھ کام کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ہم نے یرغمالیوں کو گھر واپس لانے کے لیے انتہائی دور رس معاہدے کی تجویز پیش کی ہے نہ صرف اس لیے کہ ایسا کرنا صحیح ہے بلکہ اس لیے کہ ہم جنگ کی توجہ غزہ سے ہٹ کر شمال کی طرف منتقل کرنا چاہتے ہیں۔'

نیتن یاہو جسے اقتدار میں رہنے اور مجرمانہ کارروائی سے بچنے کے لیے اپنے فاشسٹ اتحادیوں کی مسلسل حمایت کی ضرورت ہے اُس کا مقصد جنگ کو وسعت دے کر اپنے حریفوں کی حمایت کا خاتمہ کرنا ہے۔ 'زمینی حقائق' کو بنیاد بنا کر وہ اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

گینٹز گزشتہ اکتوبر میں نیتن یاہو کے نسل کشی کے قاتلوں کے گروہ میں شامل ہونے سے بہت پہلے ایک جنگی مجرم تھا غزہ کی نسل کشی کی مکمل حمایت کرتا رہا ہے۔ جنگی کابینہ کے قومی اتحاد کے ارکان نے گزشتہ ماہ رفح پر حملے کی حمایت کی جس نے 700,000 سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا۔ ان کے دھڑے نے کبھی بھی فلسطینیوں میں ہلاکتوں کی ہولناک تعداد پر تنقید نہیں کی جن میں سے 37,000 سے زائد کا آئی ڈی ایف نے قتل عام کیا ہے۔ جیسا کہ ٹراپرُ کے تبصرے واضح کرتے ہیں وہ لبنان میں جنگ کے بارے میں کچھ کم پرجوش نہیں ہیں۔

امریکی سامراج نے شروع ہی سے نسل کشی کی مکمل حمایت کی ہے اور اس میں شریک ہے۔ یہ اسرائیل کے فلسطین کے مسئلے کے 'حتمی حل' کو ایران کو نشانہ بنانے والی خطے کی وسیع جنگ کی تیاری کے ایک اہم جز کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اپریل کے اوائل میں دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کے اشتعال انگیز حملے کی منظوری دی تھی جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سینیئر ارکان کی جانیں گئیں اور اسلامی جمہوریہ کو اسرائیلی اڈوں پر ڈرون حملے سے جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا گیا جس سے بچنے کے لیے تہران نے حملے سے پہلے انہیں آگاہ کر دیا تھا تاکہ جنگ کہیں قابو سے باہر نہ ہو جائے۔ واشنگٹن کو امید ہے کہ اس جنگ سے توانائی سے مالا مال مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط برقرار رکھے گا اور اس کے جیوسٹریٹیجک حریفوں کے خلاف بشمول روس اور سب سے بڑھ کر چین پر کاری ضرب لگائے گا۔

ٹرمپ اور بائیڈن دونوں کی انتظامیہ کے تحت واشنگٹن نے خطے میں تہران مخالف ریاستوں کے ایک محور کو اکٹھا کرنے کے لیے کام کیا ہے جس میں اسرائیل، سعودی عرب، اردن اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہیں۔ یہ وسیع حکمت عملی نیتن یاہو اور اس کے فاشسٹ اتحادیوں کی طرف سے پیچیدہ شکل اختیار کر گی ہے جن کا مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے لیے علامتی کردار کو بھی قبول کرنے سے انکار اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے سے واشنگٹن کے لیے سعودی عرب کو قائل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس سے امریکہ کے لیے متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کا ایران مخالف اتحاد کی جانب پیش رفت میں مشکل کا سامنا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ اس لیے اپنے تمام آپشنز کو کھلا رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے اپنے دورے کے دوران ہوچسٹین نے نہ صرف نیتن یاہو اور دیگر حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی بلکہ گینٹز اور اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ سے بھی ملاقات کی جو جنگی کابینہ سے باہر رہے ہیں مگر نسل کشی کی باقاعدہ حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔

اگرچہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ چھیڑنے کے بہترین ہتھکنڈوں پر دھڑے بندیوں کے تنازعات کیسے ترتیب پائیں گے اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ امریکی سامراج خطے میں ہنگاموں کو پھیلنے کی جانب دھکیل رہا ہے- جو کہ جلد یا بدیر پھوٹ سکتا ہے اگر اس کے اسرائیلی حملہ آور کتے نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ جب ہوچسٹین خطے میں موجود تھے اُسے بتایا جا رہا تھا کہ اسرائیل کس طرح اپنی شمالی سرحد پر ایک خونریز حملہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اُسی دوران کانگریس میں ڈیموکریٹس نے صیہونی حکومت کو 18 بلین ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان بھیجنے کی منظوری دی۔ اس مالیت کے پیکج میں 50 ایف-15 لڑاکا طیارے شامل ہیں۔

ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے اعلیٰ ترین ڈیموکریٹ نمائندے گریگوری میکس نے اس معاہدے کے لیے اپنی حمایت کی وضاحت کی جسے اس نے پہلے ہی سے یہ کہہ رکھا تھا کہ وہ 'ایران اور حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل کو درپیش حقیقی خطرات کے خلاف وہ اسرائیل کے دفاع کے حق کے حامی ہیں۔ '

لبنان اور پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلنے والی جنگ کا شدید خطرہ پورے خطے کے محنت کش طبقے کو تمام مذہبی، نسلی اور قومی خطوط سے بالا تر ہو کر بشمول شمالی امریکہ اور یورپ کے سامراجی مراکز میں محنت کشوں کے ساتھ متحد کرتے ہوئے ایک فوری لڑائی کی ضرورت پر زور دیتا ہے تاکہ جنگ اور جنگی جنون کو فروغ دینے والوں کو روکا جا سکے۔ غزہ میں اسرائیل اور اس کے سامراجی حامیوں کی طرف سے بربریت کا مظاہرہ اور لبنان اور ایران کے خلاف جنگ کو ہوا دینا ایک بحران زدہ سماجی نظام کا اظہار ہے۔ عالمی سرمایہ داری بڑی طاقتوں کو کلیدی وسائل اور جیوسٹریٹیجک اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لیے دنیا کی دوبارہ تقسیم پر مشغول ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کو سرمایہ داروں کی جنگ اور فاشزم کا مقابلہ کرنے کے لیے محنت کش طبقے کی قیادت میں ایک عالمی جنگ مخالف تحریک قائم کی جانی چاہیے۔

Loading