اُردُو

پاکستان فوج کے متعدد جرائم پر احتجاج کرنے والے پشتون گروپ پر پابندی لگانے کے لیے "انسداد دہشت گردی" کا قانون استعمال کیا گیا ہے۔

یہ 9 اکتوبر 2024 میں انگریزی میں شائع ہونے والے “Pakistan uses 'anti-terrorism' law to ban Pashtun group protesting military’s manifold crimes اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

پاکستان کی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ جو ایک پشتون قوم پرست تنظیم ہے جس نے فوجی جبر کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کی قیادت کی ہے کو ملک کے انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت کالعدم قرار دے دیا ہے۔

پاکستانی حکام اب پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم کو اس جمعہ 11اکتوبر سے شروع ہونے والے پشتون اکثریتی صوبے خیبر پختونخوا میں تین روزہ پشتون قومی جرگہ (اسمبلی) بلانے سے روکنے کے لیے مختلف مقامات پر وسیع اور بڑھتے ہوئے پرتشدد کریک ڈاؤن کو بڑھا رہے ہیں۔ 

پی ٹی ایم کے مطابق بدھ کو اس کے تین کارکن ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے جب پولیس نے جرگہ کے کیمپ سائٹ پر لوگوں پر حملہ اور فائرنگ کی۔

سیکڑوں مزید افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور سڑکیں بلاک کر دی گئی ہیں کیونکہ سکیورٹی فورسز پی ٹی ایم کے حامیوں اور جرگے میں شرکت کے خواہشمند دیگر افراد کو جرگہ کے دیگر مقامات تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہیں جیسا کہ بنوں میں انہیں روکا جا رہا ہے۔ اس ریاستی کریک ڈاوُن کی مکمل تفصیل معلوم نہیں کی جا سکتی کیونکہ حکام موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز میں خلل ڈال رہے ہیں۔

تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ مزید پرتشدد جھڑپیں ہوں گی۔

پی ٹی ایم کی رہنما منظور پشتین 2018 میں خیبر پختونخوا کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر پشاور میں ایک ریلی سے خطاب کر رہے ہیں [تصویر: پشتون تحفظ/فیس بک] [Photo: Pashtun Tahaffuz/Facebook]

اتوار کے روز پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے پی ٹی ایم کو 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک 'غیر قانونی' تنظیم قرار دیا۔ وزارت داخلہ کے حکم نامے میں پی ٹی ایم کو غیر قانونی قرار دینے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ وہ ' اُن سرگرمیوں میں مصروف ہے جو ملک کے امن و سلامتی کے لیے نقصان دہ ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پی ٹی ایم پر پابندی کی مذمت کی ہے۔ اپنے بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا کہ پی ٹی ایم 'حقوق پر مبنی تحریک ہے جس نے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیا حکومت کا یہ انتہائی فیصلہ نہ تو شفاف تھا اور نہ ہی اس کی تصدیق کی گئی تھی۔'

پابندی کے نفاذ سے پہلے ہی حکام پی ٹی ایم کے خلاف بڑے پیمانے پر جبر میں مصروف تھے۔ گزشتہ ہفتے سیکورٹی فورسز نے گرفتاریوں کے لیے جرگہ کے کیمپوں پر متعدد چھاپے مارے اور ایک کیمپ کو آگ لگا دی۔

پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو بار بار حراست میں لیا گیا ہے۔ اب انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت پی ٹی ایم کے متعدد عہدیداروں اور کارکنوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان سے ملک سے باہر سفر کرنے کا قانونی حق چھین لیا گیا ہے۔

پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین نے گیلامن پشتین وزیر جو پشتون قوم پرست شاعر اور پاکستانی فوج اور ریاست پر سخت تنقید کرنے والے ناقدین میں سے ایک تھے اُس کے ایک لمبے اور بڑے جنازے کے جلوس کے اختتام پر جرگہ بلانے کا اعلان کیا تھا جس میں دسیوں ہزاروں افراد شامل تھے۔ 11 جولائی کو گلیلامن پشتین ایک وحشیانہ مار پیٹ کے دوران سر میں لگنے والی چوٹوں کی وجہ سے چل بسا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حملہ سیکورٹی فورسز کے ذریعے یا ان کے اکسانے پر کیا گیا تھا۔

قتل شدہ پشتون قوم پرست شاعر حضرت نعیم جنہوں نے قلمی نام گلیلامن پشتین وزیر استعمال کیا۔ گلیلامن پشتو زبان کا لفظ ہے "شکوہ"۔ [تصویر: ویکیپیڈیا] [Photo: Wikipedia]

2018 میں قائم ہونے والی پی ٹی ایم نے ان سفاکانہ اور واضح طور پر غیر قانونی طریقوں پر تنقید کر کے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے اسلام پسند باغیوں کے خلاف اپنی گھناؤنی جنگ چھیڑنے کے لیے استعمال کیے جانے والے بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کی ہے۔ امریکی سامراج کے ساتھ مل کر پاکستانی ملٹری انٹیلی جنس کے ذریعے پرورش پانے والی قوتوں کو جنہیں منظم، مالی امداد اور جدید اسلحوں سے لیس کیا گیا تھا انہیں دبانے کے لیے جنہیں افغانستان کی سوویت حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے استمعال کیا گیا تھا اور یہ کہ پاکستانی حکمران طبقہ طویل عرصے سے اسے اپنے استصالی اور خونخوار آلہ کار کو ملکی اور غیر ملکی ایجنڈا کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔

دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے خاص طور پر جسے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا تھا جس سے حال ہی میں 2018 میں خیبرپختونخوا میں شامل کیا گیا ہے دو دہائیوں سے زائد عرصے سے پاکستانی ریاست کی سیکورٹی فورسز اور ان کے امریکی اتحادی پاکستانی جاحارانہ اور پاگل پن کی حد تک طالبان کو دبانے کے نام پر پورے کے پورے گاؤں کو مسمار کرنے اور انسانی حقوق کی بے دریغ خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان کے متعدد دیہات مکمل طور پر زمینی فوجی کارروائیوں میں تباہ ہوچکے ہیں جہاں تما اشیا کو ختم کر دیا گیا ہے، امریکی ڈرون حملوں سے دہشت زدہ آبادی اور قبائل اور دیہات کو مختلف نوآبادیاتی طرز کی اجتماعی سزاؤں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جیسا کہ پاکستان بھر میں ان کا طریقہ کار ہے سکیورٹی فورسز نے حکومت کے مخالفین کے خلاف جبری گمشدگیوں اور سمری پھانسیوں کا بھی کثرت سے استعمال کیا ہے۔

ان مظالم کی وجہ سے لاکھوں لوگ شہری علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے بہت سے لوگ ناقص اور غیر انسانی عارضی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اگرچہ اب انہیں کراس فائر رینج میں رہنے کا خطرہ نہیں ہے لیکن اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے پشتونوں کو حکام کی جانب سے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں ریاستی نگرانی اور ہراساں کرنے کا سامنا ہے۔

خیبرپختونخوا میں حکومت اور فوج کے خلاف عوام کا غصہ پچھلے ایک سال کے دوران مزید بڑھتا چلا گیا۔ جسکی اہم وجوہات ہیں۔ 1– افغان مہاجرین کو نکالنے کے لیے پاکستانی حکام کی رجعتی مہم۔ 2– افغانستان کے ساتھ سرحد پار سفر اور تجارت میں ان کی رکاوٹ (بہت سے پاکستانی پشتونوں کے خاندان افغانستان کے زیادہ تر پشتو بولنے والے جنوب میں ہیں) 3– اور آخری یہ کہ پاکستانی طالبان کی بغاوت کے خاتمے کے لیے پاکستان حکوت کی ایک اور فوجی مہم کا آغاز ہے۔

نتیجے کے طور پر پی ٹی ایم کو 'دہشت گرد' تنظیم قرار دینے سے پہلے سیاسی قوتوں کے ایک وسیع حلقوں نے کہا تھا کہ وہ اس ہفتے کے جرگہ میں شرکت کریں گے۔ کچھ لوگوں نے یہ عہد کیا کہ وہ بھی شرکت کریں گے۔

جیل میں بند اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبرپختونخوا (کے پی) میں حکومت قائم کر رکھی ہے۔

ابتدا میں اس نے پی ٹی ایم کے خلاف ہونے والے جبر سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن حالیہ دنوں میں یہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا ہے اور اس کا تعلق گزشتہ ہفتے کے آخر میں کے پی کے پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور کی 24 گھنٹے کی 'گمشدگی' (فوج کی طرف سے حراست) سے ہے۔ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے قومی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے انہیں اور پی ٹی آئی کے کئی دیگر رہنماؤں کو پکڑ لیا گیا۔

منگل کے روز کے پی حکومت نے تمام سرکاری افسران اور ملازمین کو جرگے میں شرکت سے منع کیا اور خبردار کیا کہ وہ اور عوام کا کوئی بھی ممبر جو ایسا کرے گا ان کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ پی ٹی ایم کی قیادت پاکستان طالبان (ٹی ٹی پی) کی مخالف ہے- درحقیقت یہ ملٹری انٹیلی جنس اپریٹس کے کچھ حصوں پر اس کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگاتی ہے۔ کے پی حکومت کے حکم نامے میں دعویٰ کیا گیا کہ ٹی ٹی پی جرگہ کی حمایت کر رہی ہے اور 'اس لیے اس میں کسی بھی قسم کی شرکت خوا وہ ظاہری یا خفیہ ہو اُس فرد کو دہشت گرد تنظیم کا اس طرح حصہ لینے والا ایک سہولت کار حامی سمجھا جائے گا۔

یہ جھوٹا دعویٰ کہ پی ٹی ایم کا ٹی ٹی پی کے ساتھ اتحاد ہے اور یہ ہی دعوی وفاقی حکومت بھی کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے پی ٹی ایم پر پابندی اور سرمایہ دارانہ ریاست کے دفاع میں فوج کے وحشیانہ اور مجرمانہ طریقوں کی مکمل حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایک تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ہم پاکستان اور اس کے پرچم اور آئین کے محافظ ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف دفاعی اداروں کے اقدامات اور قربانیوں پر فخر ہے۔

کثیر جہتی بحران پاکستانی سرمایہ داری کو جھنجھوڑ رہا ہے۔

پی ٹی ایم اور اس کے پشتون قومی جرگے کا پرتشدد طریقے سے دبانا پاکستانی بورژوازی اور اس کی ریاست کے کثیر جہتی بحران کا نتیجہ ہے۔

ریاستی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے پی ایم ایل (این) کی وفاقی حکومت کو وحشی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی آسٹریٹی کے ایک اور دور کو نافذ کرنا ہے اور نجکاری کی ایک وسیع مہم کو تیز کرنا ہے۔

عمران خان اور ان کی دائیں بازو کی اسلامی پاپولسٹ پی ٹی آئی کو اقتدار میں واپس آنے سے روکنے کے لیے فوج اور ریاستی بیوروکریسی کی طرف سے واضح طور پر جوڑ توڑ کے ذریعے گزشتہ فروری میں ہونے والے انتخابات کے ذریعے اقتدار میں لانے کے بعد حکومت کو بڑے پیمانے پر غیر آئینی سمجھا جاتا ہے یہ اور حکمران طبقہ مجموعی طور پر بڑے پیمانے پر ماس اپوزیشن کے اچانک پھٹنے سے خوفزدہ ہے سب سے بڑھ کر محنت کش طبقے کی جانب سے جیسا کہ 2022 میں سری لنکا کی صدارت سے گوٹوبیا راجا پاکسے کا اقتدار سے بھاگنا اور اگست کے آغاز میں بنگلہ دیش کی عوامی لیگ کی حکومت کا خاتمہ۔

دریں اثنا فوج جو طویل عرصے سے ریاست کی مضبوطی اور امریکی، پاکستان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی بنیاد ہے اس کی بدعنوانی، ناجائز دولت اور طاقت، جمہوریت سے دشمنی، انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں اور امریکی سامراج کے ساتھ رجعتی سازشوں کی وجہ سے اسے اب کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ابھرتی ہوئی پاکستانی طالبان کی شورش کے علاوہ پاکستانی ریاست کو وسائل سے مالا مال اسکے باوجود پھر بھی غریب ترین صوبے بلوچستان میں ایک دیرینہ اور بڑھتے ہوئی مضبوط قوم پرست بغاوت کا سامنا ہے۔ اس شورش کو حقیقی اور گہری جڑوں والی عوامی شکایات سے تقویت ملتی ہے لیکن یہ ایک رجعت پسند سامراج نواز اور نسلی امتیاز کے پروگرام پر مبنی ہے۔ امریکی سامراجی سرپرستی حاصل کرنے کے مقصد سے بلوچی باغی چینی کارکنوں اور انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی جانب سے کیے گئے تازہ ترین حملے میں اتوار کو کراچی ایئرپورٹ پر بس پر بم حملے میں دو چینی کارکن مارے گئے۔

اس سے بھی زیادہ غیر مستحکم عالمی جغرافیائی سیاسی صورتحال ہے جیسا کہ امریکی سامراج عالمی جنگ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک چین اور ایران واشنگٹن کے دو اہم فوجی سٹریٹیجک اہداف ہیں اور اسلام آباد کے تاریخی حریف بھارت کو امریکہ جدید ہتھیاروں اور دیگر سٹریٹجک نعمتوں سے نواز رہا ہے جس کے بدلے میں وہ اُسے چین کے خلاف امریکی جنگی مہم میں مزید بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔

پی ٹی ایم کا قوم پرست پروگرام اور اس کے 'پشتون قومی جرگہ' کے اقدام کا مقصد

اگرچہ پی ٹی ایم کا ابھرنا سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور خاص طور پر اس کے پھولے پھلے ہوئی امریکی تربیت یافتہ ملٹری-سیکیورٹی اپریٹس کے ساتھ بڑھتے ہوئے عوامی عدم اطمینان کا اشارہ ہے اس کی پشتون قوم پرست سیاست پاکستانی مزدوروں اور دیہی غریب آبادی کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ پیش نہیں کرتی ہے۔

 پی ٹی ایم اس رجعتی تصور کو فروغ دیتی ہے کہ پشتون 'پنجابی جبر' کا شکار ہیں اور اس کا مقابلہ تمام پشتونوں کے اتحاد کو مل کر کرنا ہے یہ اقدام عملی طور پر مزدوروں اور محنت کشوں کو پشتون بورژوازی کے ماتحت کرنا ہے۔

اس طرح یہ دائیں بازو کے پشتون سیاست دانوں اور جماعتوں کی اپنے جرگہ میں شرکت کی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہا ہے جنہوں نے افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کی حمایت کی اور آئی ایم ایف کی آسٹریٹی پالسیوں کے نافذ کرنے والی حکومتوں میں شرکت کی۔

اگرچہ پی ٹی ایم دو ٹوک الفاظ میں پاکستانی فوج کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتی ہے لیکن یہ افغانستان اور پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو قتل گاہوں میں تبدیل کرنے میں امریکی سامراج کے کردار کے بارے میں بہت کم کہتی ہے۔

یہ واشنگٹن-اسلام آباد فوجی-اسٹریٹیجک اتحاد کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کرتی اور نہ ہی سامراج کے خلاف بڑھتی ہوئی عالمی جنگ مخالف تحریک جو تمام بڑی طاقتوں کے استصالی خونخوار عزائم کے خلاف ہے اس پر کچھ نہیں کہتی۔

اب تک پی ٹی ایم نے 'جبری گمشدگیوں' اور فوج کی دیگر زیادتیوں سے متعلق مطالبات پر اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے ایک بڑے حصے کے ساتھ یعنی جے یو آئی (ف) سے لے کر بلوچی قوم پرستوں تک جو فوج کی نئی انسداد بغاوت کی مخالفت پر توجہ مرکوز کی ہے

تاہم جرگہ کے ساتھ اس کا مقصد ایک وسیع تر سیاسی ایجنڈے پر بحث شروع کرنا تھا جس میں ایک عظیم پشتون قوم کے لیے چاہے وہ پاکستان کے اندر ہو یا اس کے بغیر اس پر بحث کو مرکوز کرنا ہے۔

عوامی طور پر اعلان کردہ ایجنڈے کے مطابق اس کا پہلا دن 'جنگی نقصانات، فوجی کارروائیوں، اور متاثرہ کمیونٹیز کی لائیو شہادتوں کے اعداد و شمار کی پیشکش' کے لیے مختص کرنا ہے۔ دوسرے دن جو عوام کے لیے بند رہے گا '80 کیمپوں کے مندوبین' کو 'گورننس، انسانی حقوق اور سماجی و اقتصادی حالات پر بات چیت میں شامل ہونے' اور تیسرے دن کے دوران 'پشتون قومی جرگہ آرگنائزنگ کمیٹی 'منتخب ہونا ہے اور' اجتماعی کارروائی کے لیے قراردادیں پیش کی جائیں گی“۔

ایجنڈے میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ جرگہ اس بات پر غور کرے گا کہ کس طرح 'پشتون سرزمین کی خود مختاری' کو آگے بڑھایا جائے 'پشتونوں کے اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے کرنے کے حق کا تحفظ کیا جائے،' اور 'پشتون زمینوں کی علاقائی سالمیت' کی حفاظت کی جائے۔

ایک بیان میں جو کہ مجموعی طور پر پشتون اور پاکستانی عوام میں پایا جانے والا غیر فعال سامراج مخالف جذبات کی واضح طور پر نشاندہی کرتا ہے وضاحتی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 'جرگہ کا بنیادی مقصد غیر ملکی مسلط کردہ تنازعات کا ایک بار پھر سے فعال ہونے کو روکنا ہے خاص طور پر پشتون سرزمین پر ایک نئی 'ڈالر سپانسرڈ جنگ' کے منڈلاتے ہوئے بھوت کو روکنے کے لیے خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ کئی دہائیوں کی جنگوں سے متاثر ہونے کے بعد جو تباہی اور نقل مکانی کا باعث بنی ہیں جرگہ ایک بار پھر خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والی بیرونی قوتوں کے لیے ایک متفقہ پشتون جواب پیش کرے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے عوام کو جس بحران کا سامنا ہے بلا تفریق نسلی یا مذہب کے وہ دراصل ان وجوہات کی پیداوار ہے: 1) عالمی سرمایہ داری کا مستقل بحران؛ 2) سامراجی جبر کا تسلسل اور 3) رجعتی فرقہ پرست پاکستان کا منصوبہ ہے اس کو عملی جامہ نوآبادیاتی بورژوازی کے حریف دھڑوں کی مشترکہ کارروائیوں کے ذریعے کیا گیا جس کی نمائندگی انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے کی جو 1917 سے شروع ہونے والی تین دہائیوں تک برصغیر کو مسخر کرنے والی وسیع سامراج مخالف تحریک کو دبانے کا نتیجہ تھی۔

اس حقیقی خطرے کا کہ جنوبی ایشیاء اور دنیا کو 'ڈالر سپانسرڈ' جنگ میں گھسیٹا جائے گا یہ ایک ایسی جنگ ہے جو بحران زدہ امریکی سامراج کی جانب سے عالمی بالادستی کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہیاور ایک سرمایہ دارانہ قوم پرستی کی بنیاد پر اس کی مخالفت نہیں کی جا سکتی۔ 

بلکہ جنوبی ایشیا کے مزدوروں اور دیہی آبادای کے محنت کشوں کو مستقل انقلاب کا پروگرام اٹھانا چاہیے جس سے پہلے لیون ٹراٹسکی نے ترتیب دیا تھا جس نے 1917 کے اکتوبر انقلاب اور اس کے نتیجے میں اس کے سٹالنسٹ انحطاط کے خلاف جدوجہد کو متحرک کیا تھا۔

سامراجی جنگ کو روکا جا سکتا ہے اور عوام کے سماجی اور جمہوری حقوق، بشمول تمام قومی گروہوں کے درمیان حقیقی اور مکمل برابری کو صرف اسی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے جب مزدور طبقہ اس کے پیچھے دیہی محنت کشوں کو بورژوا طبقے کے تمام دھڑوں کے خلاف اکٹھا کرتے ہوئے نوآبادیت، سامراج اور ڈرپوک لالچی قومی بورژوازی کے خلاف لڑتے ہوئے اور انکی طرف سے بنائی گئی رجعتی ریاستی سرحدوں کی مخالفت میں جنوبی ایشیاء کی سوشلسٹ ریاستہائے متحدہ کی بنیاد پر تکمیل کے زریعے ہی ہوسکتی ہے جو ایک حقیقی سنجیدہ معروضی اقدام ہے۔

Loading