یہ 16 اکتوبر 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Three weeks before the US election: The conspiracy of silence on the war abroad and the war at home' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں تین ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے میڈیا میں کوریج اور ہیریس اور ٹرمپ کے بیانات معمولی باتوں، ذاتی حملوں اور بدتمیزی کے جھوٹ کا غلبہ ہیں۔ ریاستہائے متحدہ میں آبادی کو درپیش سب سے بنیادی مسائل سمید عالمی صورت حال پر کوئی بھی بات نہیں کی جا رہی ہے اور درحقیقت شعوری طور پر ان پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔
سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جنگ کے بڑے پیمانے پر اضافے کے دہانے پر ہے۔
اس ہفتے کے آخر میں بائیڈن روس کے خلاف امریکی نیٹو جنگ کے اگلے مرحلے پر اعلیٰ سطحی بات چیت کے لیے جرمنی کا دورہ کریں گے۔ اس اجلاس میں بائیڈن جرمن چانسلر اولاف شولز، برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیر سٹارمر اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون شمولیت کریں گے اور یہ ان بڑی سامراجی طاقتوں کے درمیان جنگ پر ایک بڑا خصوصی اجلاس ہو گا۔
یہ میٹنگ پہلے سے طے شدہ رامسٹین کانفرنس کے منسوخ ہونے کے بعد ہوئی ہے بظاہر اس لیے کہ بائیڈن نے امریکہ میں ہی رہنے کا انتخاب کیا کیونکہ سمندری طوفان ملٹن فلوریڈا کے قریب ٹکرانے لگا تھا۔ دراصل زیادہ ممکنہ وجہ یہ ہے کہ امریکہ جنگ میں اضافے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا تھا۔
غزہ اور لبنان میں اسرائیل سالہا سال سے جاری نسل کشی میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرنے میں مصروف ہے، جس میں الاقصیٰ شہداء ہسپتال کو آگ لگانا اور شمالی غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو محصور کرنا اور ان کا قتل عام شامل ہے۔ غزہ کی یہ جاری نسل کشی اب 80 ملین آبادی والے ملک ایران کے خلاف جنگ میں اضافے سے جڑی ہوئی ہے۔
اس ہفتے کے آخر میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا جب اسرائیلی افواج ایران پر حملے کی تیاری کر رہی ہیں۔ ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس(THAAD) میزائل دفاعی نظام پیٹریاٹ میزائل بیٹریوں اور 100 امریکی فوجیوں کے ساتھ اسرائیل میں تعینات کیا گیا ہے۔ یہ تعیناتی اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف حملے کرنے کے لیے ایک فوری کارروائی سے پہلے ہی کر دی گی ہے۔
میڈیا میں شائع ہونے والی ان خبروں پر کوئی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل جوہری یا تیل کی تنصیبات کے بجائے ایرانی فوجی اہداف کو نشانہ بنا کر ’’تحمل‘‘ کا مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ایران پر اسرائیل کا کوئی بھی حملہ ایک بڑے پیمانے پر فوجی اضافہ اور مجرمانہ جارحیت ہے۔ ان تجاویز کے جواب میں کہ اسرائیل کا مقصد وسیع جنگ سے بچنا ہے جبک نیتن یاہو نے منگل کو اعلان کیا کہ 'ہم اپنے حتمی فیصلے اپنے قومی مفاد کی بنیاد پر کریں گے۔'
اسرائیل کے ہاریٹز اخبار نے منگل کے روز لکھا ہے کہ 'اسرائیل کا حملہ 5 نومبر کے انتخابات سے پہلے کیا جائے گا،' یعنی تین ہفتوں کے اندر اور بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی گفتگو سے آگاہ ایک سورس کے مطابق 'یہ صرف رد عمل کے سلسلے کا پہلا اظہار ہو گا۔'
صرف دو ہفتے قبل اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد جو خود ایک جنگی عمل تھا نیتن یاہو نے ایک بیان جاری کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدامات 'لوگوں کی سوچ سے کہیں زیادہ جلد آئیں گے۔' یہ خطرہ اب منڈلا رہا ہے۔
ایران کے خلاف اقدامات کا براہ راست تعلق روس کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ سے ہے۔
جرمنی میں ہونے والی میٹنگ میں بحث کے اہم موضوعات میں یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی فراہمی ہو گی جو روسی علاقے میں دور تک مار کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ بدھ کے روز یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے توقع ہے کہ وہ اپنا 'فتح کا منصوبہ' سپریم کونسل آف یوکرین ( Verkhovna Rada) کو پیش کریں گے جس میں ایٹاکمس اور سٹروم شیڈو میزائلوں میں اضافے کی درخواستیں کے ساتھ روس کے اندر دور تک حملوں کی منظوری شامل ہے۔
فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے جڑے جرائد اور تھنک ٹینکس میں روس، چین، ایران اور شمالی کوریا کے لیے نئے 'برائی کے محور' یا ' چار کے ٹولے کی افراتفری ' کے بارے میں بے شمار مضامین موجود ہیں۔
جبکہ ماسکو بارہا کہہ چکا ہے کہ مغربی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے اس کی سرزمین پر حملے جوابی کارروائی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یعنی بائیڈن ہیرس انتظامیہ اور اس کے نیٹو اتحادی انتخابات کے موقع پر دنیا کو ایٹمی جنگ کے دہانے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
انتخابات میں اس میں سے کوئی بھی موضوع زیر بحث نہیں ہے۔ منگل کو نائب صدر کملا ہیرس نے ڈیٹرائٹ کا دورہ کیا اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی جنگ یا ایران کے خلاف خطرناک جنگی پلان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جسے وہ امریکہ کا اصل دشمن قرار دیتی ہیں۔ اس کے بجائے ہیریس نے اپنے ریمارکس کو چھوٹے کاروباری ٹیکس کریڈٹس اور اس کی نام نہاد ' اچھا موقع پانے کی معیشت' کو فروغ دینے پر مرکوز کیا جو ایک دائیں بازو کی کاروبار کے حامی اقتصادی پالیسی کا حصہ ہے۔
اگر جنگ میں شدت کے اضافے کو اٹھایا بھی جاتا ہے تو یہ ٹرمپ کے کبھی کبھار بیانات کا حصہ ہوتے ہیں جو کہ لفظیت کی حد تک کے لیے جاری کیے جاتے ہیں، جیسا کہ تیسری عالمی جنگ کے خطرے کے بارے میں۔ لیکن یہ اس حد تک کہ ریپبلکنز نے جو بائیڈن پر ایران کے بارے میں تنقید کی ہے وہ یہ رہی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ چھیڑنے میں زیادہ جارحانہ اقدامات نہیں کر پا رہے۔
ٹرمپ نے خود جولائی میں نیتن یاہو کے بے بنیاد الزامات کا جواب دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ایران ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی تیاری کر رہا ہے تو اسکے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو انہیں امید ہے کہ 'امریکہ ایران کو مٹا دے گا یعنی اسے زمین کے چہرے سے مٹا دے گا۔'
جیسا کہ ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے پچھلے روز کہا تھا کہ جنگ میں اضافے پر خاموشی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ 'انتخابات سے پہلے فوجی کشیدگی کے منصوبے جاری ہیں' اور یہ نتائج سے متاثر نہیں ہو سکتے۔ 'اکتوبر کے سرپرائز کے بجائے یہ ایک 'اکتوبر کی سازش' ہے۔'
یہ محنت کش طبقے کو درپیش کسی بھی مرکزی مسائل سے مکمل منہ موڑتے ہوئے انہیں وسیع پیمانے سیاست سے خارج کرنے کا حصہ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے عالمی جنگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ امریکی محنت کشوں پر حملہ بھی جاری و ساری ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں کارپوریشنز بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کی لہر میں مصروف ہیں۔ بوئنگ 17,000 مزدوروں کو نوکری سے نکال رہا ہے تاکہ ہڑتال کرنے والے مزدوروں سر تسلیم خم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ انٹیل دنیا بھر میں 15,000 ملازمتوں کو ختم کرنے کے پہلے اعلان کردہ منصوبوں پر عمل درآمد شروع کر رہا ہے، اور آٹو موبائل سٹیلنسٹ نے ٹیکنالوجی اور آٹو صنعتوں میں تیزی سے ملازمتوں کے خون بہانے کے ایک حصے کے طور پر گزشتہ ہفتے 2,300 سے زیادہ مزدوروں کو فارغ کیا ہے۔
کالجوں کے کیمپس میں غزہ میں نسل کشی کے مخالفین کو دبانے اور خاموش کرنے کے لیے پولیس کا بیدریخ استمعال اور جبر کرتے ہوئے پولیس کا ریاستی ماحول بنایا جا رہا ہے، جس میں گرفتاریاں اور جمہوری حقوق پر بڑے حملے شامل ہیں۔ چونکہ جنگ اور امیروں پر لامحدود وسائل خرچ ہورہے ہیں – اسٹاک مارکیٹیں ریکارڈ بلندیوں پر ہیں – سماجی خدمات وسائل سے محروم ہیں، صحت کی دیکھ بھال کا نظام درہم برہم ہے اور عوامی تعلیم پر مسلسل حملے کیے جارہیں ہیں۔
تین ہفتوں کے بعد الیکشن کا نتیجہ جو بھی ہو اس سے محنت کش طبقے کو درپیش بنیادی مسائل میں سے کوئی بھی حل نہیں ہوگا۔ حکمران طبقے اور اس کے میڈیا کی طرف سے خاموشی کی سازش محنت کش طبقے میں موجود گہری مخالفت کے خوف کا اظہار کرتی ہے۔ اس مخالفت کو سرمایہ داری کے خلاف اور سوشلزم کے لیے ایک شعوری سیاسی تحریک میں تبدیل ہونا چاہیے۔