اُردُو

سٹالنسٹ سی ٹی یو نے ڈی ایم کے حکومت کے حکم پر سام سنگ انڈیا کے مزدوروں کی لڑاکا ہڑتال کو ختم کر دیا۔

یہ 20 اکتوبر 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Stalinist CITU shuts down Samsung India workers' militant strike on orders of DMK government' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

سٹالنسٹ زیرقیادت سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز (سی آئی ٹی یو) نے گزشتہ ہفتے سام سنگ انڈیا کے تامل ناڈو کے گھریلو آلات بنانے والے پلانٹ میں 1400 مزدوروں کی لڑاکا 37 روزہ ہڑتال کو روک کر بند کر دیا۔ اس نے ایسا ریاست کی ڈی ایم کے حکومت کے حکم پر کیا جو خود عالمی سرمائے اور بھارت کی انتہائی دائیں بازو بی جے پی کی زیر قیادت قومی حکومت کے کہنے پر کام کر رہی تھی۔

سی آئی ٹی یو نے رینک اور فائل کی رائے لیے بغیر اور مزدوروں کے کسی بھی مطالبے کو حاصل کیے بغیر ہڑتال ختم کر دی، بشمول سی آئی ٹی یو سے منسلک نئی تشکیل شدہ سام سنگ انڈیا ورکرز یونین (ایس آئی ڈبلیو یو) کو نہ ہی کمپنی اور ریاستی سطح پر تسلیم کیا گیا۔

اس کے بجائے مزدوروں کو بین الاقوامی الیکٹرانکس اور آلات بنانے والے غیر مبہم اور سطحی وعدے کی بنیاد پر کام پر واپس بھیج دیا گیا ہے۔ سی آئی ٹی یو رہنماؤں کے مطابق سام سنگ نے وعدہ کیا ہے کہ ' مزدوروں کے ساتھ ان کے اہم مطالبات پر بات چیت کریں گے اور ہڑتالی مزدوروں کو تادیبی کاروائی کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔'

کمپنی کو ریاستی حکام کی جانب سے مکمل حمایت کے باعث کمپنی نے ہر موقع پر یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ مزدوروں کی شکایات کو دور کرنے کے خلاف ہے جس میں انتہائی کم اجرت کام کے طویل اوقات اور کام کی جگہ میں خستہ حالات شامل ہیں۔

سی آئی ٹی یو سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) یا سی پی ایم کی ٹریڈ یونین فیڈریشن ہے۔ بھارت کی پرنسپل سٹالنسٹ پارلیمانی پارٹی سی پی ایم، ڈی ایم کے کی قریبی اتحادی ہے اور کانگریس پارٹی کی قیادت والے انڈیا اپوزیشن الائنس (انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس) کی قومی سطح پر پرزور حامی ہے۔

سام سنگ انڈیا کے مزدور اپنی 37 روزہ ہڑتال کے دوران سب سے پہلے انہیں عدالتی حکم نامے کے ذریعے ہڑتال کرنے والے پلانٹ کے 500 میٹر کے اندر جانے سے روک دیا گیا۔ اس کے بعد پولیس نے ان کے احتجاجی ہڑتالی کیمپ پر دھاوا بول دیا اور ان کے خیموں کو اکھاڑ دیا۔

ہڑتال کے دوران ڈی ایم کے حکومت نے سام سنگ کے انتظامیہ کی بھرپور حمایت کی اس نے یونین کے سرکاری سرٹیفیکیشن کو روکا اور مزدوروں پر اجتماعی طور پر پرتشدد حملے کرنے اور انہیں حراست اور دبانے کے لیے بار بار پولیس فورس کا استمعال کیا۔ ریاستی جبر 9 اور 10 اکتوبر کو اپنے عروج پر پہنچ گیا جب پولیس نے یونین رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارئے اور ہڑتالیوں کے خیمے پر حملہ کرکے اکھاڑ دیا (یہ ہڑتالی کیمپ عدالتی حکم کی وجہ سے پلانٹ سے دور واقع تھے) اور سینکڑوں مزدوروں کو گھنٹوں تک حراست میں رکھا۔

ڈی ایم کے حکومت کے محکمہ محنت اور سام سنگ انتظامیہ کے ساتھ سہ فریقی مفاہمت کی دو روزہ بات چیت میں حصہ لینے کے بعد سی آئی ٹی یو نے 15 اکتوبر کو اعلان کیا کہ وہ یکطرفہ طور پر ہڑتال کو ختم کر رہا ہے اور یہ کہ مزدور 17 اکتوبر کو کام پر واپس آئیں گے۔

کاروبار کے حامی ڈی ایم کے حکومت کے سامنے مکمل ہتھیار ڈالنے کے لیے اور ہڑتال کو ختم کرنے پر اپنی رضامندی پر پردا ڈالنے اور اسے جمہوری شکل دینے کے لیے سی آئی ٹی یو بیوروکریٹس نے اگلے دن ایس آئی ڈبلیو یو کی ایک 'جنرل باڈی کی میٹنگ' بلائی۔ اس کا انعقاد کانچی پورم کے ایک شادی ہال میں کیا گیا تھا جہاں سے پلانٹ تقریباً 30 کلومیٹر دور 

واقع ہے۔ 

میٹنگ کا مطلوبہ مقصد ہڑتال کو ختم کرنے پر مزدوروں کو ان کی رائے دینا تھا۔ تاہم سام سنگ کے 1200 مزدوروں میں سے کسی کو بھی بات کرنے یا سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بجائے انہیں سی آئی ٹی یو کے عہدیداروں نے لیکچر دیا اور ان پر دباؤ ڈالا کر پہلے والے اعلان کردہ کام پر واپسی کی حمایت میں ہاتھ اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

سی آئی ٹی یو کے ڈی ایم کے کے سامنے مکمل طور پر سر خم تسلیم کرتے ہوئے سی آئی ٹی یو کے صدر اے ساؤنڈرراجن اور ایس آئی ڈبلیو یو کے صدر ای متھو کمار کی طرف سے ہڑتال کے خاتمے کو ایک شاندار یہاں تک کہ تاریخی فتح قرار دیا گیا جو سی آئی ٹی یو کے ایک کارکن ہیں جو سام سنگ میں مزدور نہیں ہیں۔

متھو کمار نے سی آئی ٹی یو کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے مزدوروں کی ستائش کی کہ وہ ان کے خلاف تمام عدالتی فیصلوں پر پابند رہنے پر اور پولیس تشدد کی مخالفت میں سریپرمبدور صنعتی پٹی اور وسیع تر چنئی کے علاقے میں مزدوروں سے اپنے دفاع میں احتجاج اور ہڑتال نہ کرنے کی اپیل جیسے احکامات پر ثابت قدم رہے۔ 

'عام طور پر،' متھو کمار نے کہا 'جب کوئی احتجاج ہوتا ہے خاص طور پر ہڑتال میں بڑے پیمانے پر تشدد اور فسادات ہوتے ہیں۔ یہ ٹربیونلز اور عدالتوں میں جاتا ہے۔ لیکن مزدوروں کا یہ احتجاج انتہائی اخلاقی انداز میں کیا گیا۔ دنیا اس احتجاج کو حیرت سے دیکھ رہی ہے۔

میٹنگ کے بعد ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے ساتھ بات کرنے والے ایک مزدور نے کہا کہ سوندرا راجن نے ان سے کہا کہ انہیں اپنے کام پر واپسی پر انتظامیہ کے تمام اصولوں پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ وہ فیکٹری سے باہر ہوتے وقت ملک کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔

مزید برآں مزدوروں کو بتایا گیا کہ یونین کا واحد مقصد ان کی طرف سے انصاف کا مطالبہ کرنا ہے۔ جب وہ 'غلطیاں' کرتے ہیں تو ہم ان کے لیے تحفظ فراہم نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے سی آئی ٹی یو بیوروکریٹس نے واضع اشارہ یہ دیا کہ اگر وہ انتظامیہ کی جانب سے انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوششوں کو چیلنج کرتے ہیں اور انتظامیہ کے اختیارات اور استحقاق کو بڑھاتے ہیں تو وہ مزدوروں کے دفاع میں نہیں آئیں گے۔

سی آئی ٹی یو بیوروکریٹس نے ایک دوسرے کو ہار پہنا کر اپنی جیت کے نعرے لگا کر میٹنگ کا اختتام کیا یہ عمل مزدوروں کے زخموں پر نمک چھڑکنا کے مترادف ہے۔ اسی طرح کی شیخی جھاڑنا جس سے مزدوروں کو پریشان اور اذیت دینا ہے سی آئی ٹی یو کی قومی قیادت سی پی ایم اور ان کے بائیں محاذ کے اتحادیوں کا پیشہ ہے۔

حقیقت میں سی آئی ٹی یو کا سر تسلیم خم تھا۔

تنازعہ کے آغاز میں سٹالنسٹ بیوروکریٹس نے واضح کیا کہ اگر یونین کو کمپنی کی جانب سے تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے قانونی سرٹیفیکیشن دیا جاتا ہے تو وہ مزدوروں کے دیگر مطالبات پر بات نہیں کریں گے۔ اسکی مزید واضاحت کرتے ہوئے سی آئی ٹی یو کے ریاستی صدر سوندرا راجن نے 12 اکتوبر کو کہا کہ یونین سام سنگ میں 'اجرت بڑھانے کی جلدی میں نہیں تھی' نہ ہی کام کرنے کے حالات کو بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزدور 'بچے نہیں ہیں۔'

پھر بھی سی آئی ٹی یو کی طرف سے مزدوروں پر مسلط کردہ سہ فریقی معاہدہ ایس آئی ڈبلیو یو کو کسی بھی قسم کی پہچان فراہم کرنے میں واضح طور پر ناکام ہے جسے مزدوروں نے سام سنگ کے خلاف اجتماعی جدوجہد کرنے کے لیے جون میں قائم کیا تھا۔

ایس آئی ڈبلیو یو کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی یونین کی شناخت کے لیے مزدوروں کے آئینی طور پر محفوظ قانونی حق کا کوئی حوالہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان بھر میں مالکان اور حکومتیں اکثر اس حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

آخر میں سام سنگ کی انتظامیہ نے حقارت کے ساتھ سی آئی ٹی یو- ایس آئی ڈبلیو یو کی کمپنی کو ہڑتال کرنے والوں کے 'چارٹر آف ڈیمانڈز' کا تحریری جواب فراہم کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔

جنوبی کوریا کی یہ بین الاقوامی کارپوریشن واضح طور پر ایس آئی ڈبلیو یو کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس افسانے کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جو اس نے ڈی ایم کے حکومت کی آشیرباد اور حمایت سے کچھ مزدوروں کو ڈرا دھمکا یا خرید کر تمل ناڈو پلانٹ میں مزدوروں کی ایک جعلی 'نمائندہ' کمیٹی تشکیل دی ہے، یہ کمپنی کے 7 اکتوبر کو ڈی ایم کے کے متعدد وزراء کے سامنے سام سنگ مینجمنٹ نے اس جعلی 'مزدور کمیٹی' کے ساتھ ایک 'میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگ' پر دستخط کیے۔

جب سی آئی ٹی یو بیوروکریٹس کی طرف سے ہڑتال ختم کر دی گئی اور مزدوروں کو بتایا گیا کہ وہ جمعرات 17 اکتوبر کو کام پر واپس جائیں گے۔ تاہم اسے مزید انتبا کے طور پر لیا جانا چاہیے کہ سام سنگ اپنے کیے گئے تمام وعدوں کو توڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہڑتال ختم کرنے کے لیے سام سنگ انتظامیہ نے بعد میں اعلان کیا کہ ورکرز کو انفرادی طور پر خط کے ذریعے مطلع کیا جائے گا کہ وہ کب کام کے لیے رپورٹ کریں۔

کئی دہائیوں سے سٹالنسٹ سی آئی ٹی یو اور سی پی ایم نے طبقاتی جدوجہد کو منظم طریقے سے دباتے ہوئے سرمایہ دارانہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی اٹوٹ پارٹی کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ اس میں دائیں بازو کی قومی حکومتوں کے سلسلے کو آگے بڑھانا شامل ہے جنہوں نے 'سرمایہ کاروں کی حامی' پالیسیوں پر عمل درآمد کیا اور امریکی سامراج کے ساتھ چین مخالف 'اسٹریٹجک پارٹنرشپ' قائم کی۔

بار بار سی آئی ٹی یو اپریٹس نے لڑاکا مزدوروں کی جدوجہد کو اس خوف سے الگ تھلگ اور بیچ دیا ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی وسیع مزاحمت کو جنم دیں گے اور حکمران طبقے کے ساتھ اس کے آرام دہ تعلقات میں خلل ڈالیں گے۔ سی آئی ٹی یو نے سریپرمبدور صنعتی پٹی میں اپنے ہزاروں اراکین کو سام سنگ کے ہڑتالیوں کے دفاع میں متحرک کرنے سے انکار کر دیا بشمول انکے جو سام سنگ کے سپلائرز میں کام کرتے ہیں۔ اس طرح سی آئی ٹی یو نے سام سنگ کے مزدوروں کی جدوجہد کو ایک قریبی سام سنگ سپلائی کرنے والے ایس ایچ الیکٹرونکس کے تقریباً 100 مستقل مزدوروں کے ساتھ متحد کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جو کہ سی آئی ٹی یو کے 12 مزدوروں کی برخاستگی کے خلاف احتجاج کے لیے 120 دنوں سے ہڑتال پر ہیں۔ یہ 12 مزدور جو یونین بنانے کی پاداش میں برطرف کیے گے جو سی آئی ٹی یو سے منسلک ہیں۔

اگرچہ سی آئی ٹی یو کا سام سنگ کے مزدوروں کی جدوجہد کے ساتھ غداری مکمل طور پر اس کے دائیں بازو کے مزدور مخالف ریکارڈ کے مطابق ہے لیکن جس ڈھٹائی سے اسے انجام دیا گیا وہ تمل ناڈو کی سیاسی حرکیات سے جڑا ہوا ہے۔ سی پی ایم کے حامی بڑے کاروبار کو فروغ دینے کے بدلے میں تمل شاونسٹ ڈی ایم کے کو ایک 'ترقی پسند پارٹی' کے طور پر اور 'سیکولرازم' اور 'سماجی انصاف' کے مضبوط حامی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس لیے ڈی ایم کے اسے اور اس کے بائیں محاذ کے ساتھی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کو شامل کرنے کے لیے تیار ہے اور اس وجہ سے انہیں قومی اور ریاستی انتخابات کے لیے اپنے انتخابی اتحاد کے اندر شامل کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے ایوان زیریں میں سی پی ایم اور سی پی آئی کو چھ نشستوں میں سے چار یا دو تہائی تمل ناڈو سے ملی ہیں۔

پریس رپورٹس کے مطابق، ڈی ایم کے نے سی پی ایم کو دھمکی دی کہ اگر سی ٹی یو نے سام سنگ کے کارکنوں کی جدوجہد کو جلد ختم نہیں کیا تو وہ اس کو سزا کے طور پر اتحاد کو توڑ دے گی۔ کوینٹ نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ ڈی ایم کے نے اشارہ دیا کہ 'اتحاد اپنی سیاسی حکمت عملی کے لیے ضروری نہیں ہے۔'

سٹالنسٹوں کی بہترین کوششوں کے باوجود سام سنگ کی پانچ ہفتوں کی ہڑتال نے ہندوستان کی سب سے اہم صنعتی ریاستوں میں سے ایک، تامل ناڈو اور پورے ہندوستان میں مزدوروں کی توجہ مبذول کرائی۔

اس نے حکمران طبقے کے حلقوں میں کافی تشویش اور اشتعال کو جنم دیا کیونکہ ہندوستان کو سستے مزدور اور چین کے لیے امریکہ کے حامی متبادل پیداواری سلسلہ کا مرکز قرار دے کر عالمی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی ان کی کوششوں کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھا گیا۔

یہ اور مزدوروں کے لڑاکا موڈ کی مثال جیسا خوف اور یہی وہ وجہ ہے کہ ڈی ایم کے حکومت نے مزدوروں کے ساتھ اس قدر وحشیانہ ردعمل کا اظہار کیا۔ بی جے پی کی قومی حکومت بھی مزدوروں کی اس ہڑتال کی اتنی ہی دشمن تھی۔ اس نے تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن کو خبردار کیا کہ وہ ہڑتال کو جلد ختم کریں۔ بعد میں جب ڈی ایم کے نے ہڑتالیوں پر حملہ کرنے کے لیے بار بار پولیس کو تعینات کیا تھا تو بی جے پی کے تمل ناڈو کے جنرل سکریٹری پروفیسر راما سری نواسن نے 'تامل ناڈو حکومت کی طرف سے کی گئی اس ظالمانہ کارروائی کی تعریف کرتے ہوئے اسے بالکل درست قرار دیا اور اس نے مزید کہا کہ اسے سام سنگ کے خلاف احتجاج کرنے والی بائیں بازو کی یونینوں کے خلاف مزید سخت کارروائی کرنی چاہیے'۔

سام سنگ کے مزدوروں کا تجربہ پوری دنیا کے مزدوروں کے لیے عام ہے۔ محنت کشوں نے بڑے عزم اور خود کی قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے کاروباری اداروں کی ریاستی حمایت یافتہ مہم کے خلاف مزاحمت کی جو ان سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرتے ہیں۔ لیکن محنت کش طبقے کو جو ایک تلخ حقیقت کا سامنا ہے کہ قوم پرست، سرمایہ دارانہ حامی ٹریڈ یونینز اور اسٹیبلشمنٹ کی 'بائیں' پارٹیاں، بشمول سی پی ایم کے سٹالنسٹ جعل ساز محنت کش طبقے کو غیر منظم کرنے اور سرمائے کے حکم کو مسلط کرنے کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔

محنت کش طبقہ دنیا کی سب سے طاقتور سماجی قوت ہے۔ اس طاقت کو متحرک کرنے کے لیے محنت کشوں کو طبقاتی جدوجہد کی نئی تنظیمیں رینک اینڈ فائل کمیٹیاں کی تشکیل اور ایک حقیقی مزدوروں کی انقلابی ماس پارٹی بنانا چاہیے جو بین الاقوامی سوشلزم کے پروگرام کے لیے پرعزم ہو اور مظلوم عوام کو ہندوستانی اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف اکٹھا کرے۔

Loading