اُردُو
Perspective

جنگ، عدم مساوات اور آمریت جیسے اہم مسائل کو 2024 کے انتخابات میں یکسر خارج کر دیا گیا ہے۔

یہ 2 نومبر 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'War, inequality and dictatorship: The critical issues excluded from the 2024 election' اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

2024 کے امریکی صدارتی انتخابات غیر معمولی بحران اور سماجی تناؤ کے حالات میں سامنے آ رہے ہیں۔ ایک وسیع احساس ہے کہ سیاسی نظام غیر فعال ہے لوگوں کی ضروریات کا جواب دینے سے قاصر ہے اور پرتشدد اندرونی تنازعات کی طرف بڑھ رہا ہے۔

عام انتخابات جمعہ یکم نومبر 2024 ڈوئلسٹاؤن، پنسلوانیا میں ابتدائی ووٹنگ کے دوران ووٹرز بکس کاؤنٹی ایڈمنسٹریشن بلڈنگ کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ [اے پی فوٹو/مائیکل روبنکم] [AP Photo/Michael Rubinkam]

الیکشن تک صرف 72 گھنٹے باقی ہیں اور سیاسی ماحول سازش کی افواہوں سے گونج رہا ہے۔ وسیع پیمانے پر توقع کی جا رہی ہے کہ انتخابات کا نتیجہ غیر نتیجہ خیز ہو گا اور انتخابات کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو ٹرمپ اور اس کے فاشسٹ سازشی ساتھی غیرمناسب نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔ انتخابی عمل کو گھیرنے والی غیر یقینی صورتحال اور خطرے کی سطح امریکی جمہوریت کے ٹوٹنے کی حد کو ظاہر کرتی ہے۔

یہ واضح ہے کہ ریاستہائے متحدہ کا سیاسی کلچر بڑی حد تک تنزلی کا شکار ہے۔ ٹرمپ کے بیانات اور تقریروں میں شاونسٹ گندگی کا بے ہنگم دھارا امریکی معاشرے میں ان تمام چیزوں کو محرک کرنا ہے جو انتہائی گھٹیا اور رجعت پسند ہیں۔ کملا ہیرس ایک ایسی پارٹی کی گھٹیا پن اور منافقت کا مظہر ہیں جو کارپوریٹ مالیاتی اشرافیہ کے مفادات اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سازشوں کے لیے شناختی سیاست کے ڈھونگ اور چالوں کا سہارا لیتی ہے۔ اس کا امریکی سامراج کا دفاع سب سے بڑھ کر غزہ میں نسل کشی کی مکمل حمایت اسے ایک مجرمانہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ کی نمائندہ کے طور پر بے نقاب کرتا ہے۔

اس تناظر میں 'جھوٹی برائی یا کم نقصان دہ' کا خیال ایک مضحکہ خیز ہے۔ جہاں ایک امیدوار فاشزم کو فروغ دیتا ہے دوسرا ایک ایسے پلیٹ فارم پر انتخاب لڑ رہا ہے جس میں جنگ اور نسل کشی کی حمایت شامل ہے۔ ان حالات میں انتخاب بڑی اور چھوٹی برائیوں کے درمیان نہیں بلکہ تباہی کے دو راستوں کے درمیان ہے۔ ٹرمپ اور ہیرس کے درمیان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور تقسیم اس خلیج کے مقابلے میں غیر اہم ہے جو دونوں جماعتوں کو محنت کش طبقے سے الگ کرتی ہے۔

اس مہم میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے گہرے مسائل کو منظم طریقے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب ایک بنیادی ماخذ سے پیدا ہوتے ہیں جس کا غیر مشروط طور پر پوری سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے دفاع کیا جاتا ہے وہ منافع بخش سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ مزید برآں یہ کہ ریاستہائے متحدہ میں مزدوروں کو درپیش مرکزی اور بنیادی مسائل میں سے کسی کو بھی محنت کش طبقے کی عالمی تحریک سے علیحدہ کر کے حل نہیں کیا جا سکتا۔ 2024 کے انتخابات واضح طور پر متبادل پیش کرتے ہیں یہ کہ سرمایہ دارانہ بربریت یا سوشلزم کی بنیاد پر معاشرے کی تعمیر نو ان دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

1. ایٹمی جنگ کی جانب بڑھنا

عالمی جنگ میں بڑھتے ہوئے اضافے کے حالات میں یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے جنگ کے بڑے پیمانے پر توسیع کے چرچے ہیں قطع نظر اسکے کہ وائٹ ہاؤس میں کون جگہ لیتا ہے۔ حکمران اشرافیہ کے ممتاز ارکان جیسے جے پی مورگن چیس کے سی ای او جیمی ڈیمن اعلان کر رہے ہیں کہ 'تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔' امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو اپ گریڈ کرنے کے لیے 1.7 ٹریلین ڈالر کی بے مثال سرمایہ کاری کر رہا ہے - ایک دو طرفہ عزم جو انتخابات کے نتائج سے قطع نظر آگے بڑھے گا۔

بائیڈن انتظامیہ کے چار سالوں کی مرکزی ترجیح جنگ رہی ہے - پہلے یوکرین میں روس کے خلاف جنگ کو اکسانا اور پھر غزہ میں نسل کشی اس دونوں کو کملا ہیرس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں کی مکمل حمایت کے ساتھ اسرائیل میں لامحدود امریکی ہتھیاروں کی فراہمی کے ساتھ امریکہ غزہ اور مغربی کنارے میں دسیوں ہزار افراد کے قتل عام میں شریک ہے۔ ایران کے خلاف جنگ میں ایک بڑا اضافہ جنوری میں انتخابات اور افتتاحی دن کے درمیان کے ہفتوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ پینٹاگون نے جمعہ کو اعلان کیا کہ وائٹ ہاؤس نے مشرق وسطیٰ میں اضافی امریکی فوج بھیجنے کا حکم دیا ہے جن میں بی- 15 بمبار طیارے، لڑاکا طیارے اور بحریہ شامل ہیں۔

ٹرمپ جس نے ایران کے 'خاتمے' اور اسرائیل کو غزہ میں مکمل طور پر اپنے“اہداف پورے کرنے' کا مطالبہ کیا ہے کو جنگ کے مخالف کے طور پر پیش کرنا مضحکہ خیز ہے۔

ایک عالمی جنگ چھیڑنے کے لیے معاشرے کے تمام وسائل کو استمعال کرتے ہوئے جنگ کے تابع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فارن افیئرز میگزین کے تازہ ترین شمارے میں مرکزی مضمون جو کہ امریکی جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کی ایک اہم اشاعت ہے جس کا عنوان 'مکمل جنگ کی واپسی' بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی مصنفہ مارا کارلن لکھتی ہیں:

کہ یوکرین اور مشرق وسطیٰ دونوں میں جو بات واضح ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ 9/11 کے بعد کے دور میں جنگ کی وضاحت کرنے والا نسبتاً تنگ ڈھانچہ نمایاں طور پر وسیع ہو گیا ہے۔ محدود جنگ کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ہمہ گیر تنازعات کا دور شروع ہو چکا ہے۔ درحقیقت آج دنیا جس چیز کا مشاہدہ کر رہی ہے، وہی ہے جسے ماضی میں نظریہ سازوں نے 'مکمل جنگ' کہا ہے جس میں جنگجو وسیع وسائل استمعال کرتے ہیں، اپنے معاشروں کو متحرک کرتے ہیں، تمام ریاستی امور کے برعکس جنگ کے سرگرمی کو ترجیح دیتے ہیں، وسیع اقسام کے اہداف پر حملہ کرتے ہیں تاکہ اپنی اور دوسرے ممالک کی معیشتوں کو نئی شکل دیں۔

'دوسری تمام ریاستی سرگرمیوں پر جنگ کو ترجیح دینے' کا مطلب ہے کہ سامراجی جنگ کے لیے اور اس کے لیے درکار وسیع وسائل کے لیے محنت کش طبقے کو جنگ کے لیے بے رحمانہ طور پر تابع کرنا اور جنگ کی قربان گاہ پر سب کچھ قربان کیا جانا چاہیے۔

 2. اقتصادی بحران، سماجی عدم مساوات اور حکمران اشرافیہ 

سامراج کی مزید بے رحم کارروائیوں کا ایک بنیادی عنصر امریکی سرمایہ داری کا بڑھتا ہوا بحران ہے۔ امریکی قرضہ تقریباً 36 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ سونے کی قیمت ریکارڈ سطح پر ہے جو ڈالر پر شدید دباؤ کو ظاہر کرتی ہے۔

حکمران طبقے نے بینکوں کے بڑے پیمانے پر بیل آؤٹ کے ایک سلسلے کے ذریعے معاشی بحران کو روکنے کی کوشش کی ہے بشمول 2008 اور وبائی مرض کے پہلے سال 2020 میں۔ لیکن اسکے برعکس اس نے صرف ایک اعلی سطح پر بحران کو دوبارہ پیدا کیا ہے اور سماجی عدم مساوات میں بے پناہ مزید اضافہ ہوا ہے۔

ریاستہائے متحدہ میں دولت کا ارتکاز غیر معمولی سطح پر پہنچ گیا ہے ایک چھوٹی اشرافیہ آبادی کے نچلے حصے سے زیادہ دولت کو کنٹرول کرتی ہے۔ امریکی ارب پتیوں کی دولت اب 5.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے جو کہ وبائی امراض کے آغاز سے تقریباً 90 فیصد زیادہ ہے۔ دولت کے انتہائی ارتکاز کا دونوں جماعتوں کی طرف سے دفاع کیا جاتا ہے اور ہیریس اور ٹرمپ کی انتخابی مہموں کو امیروں کی جانب سے بے مثال رقم کے ساتھ ایندھن فراہم کیا جاتا ہے۔

مہنگائی نے حقیقی اجرتوں کو ختم کر دیا ہے جس سے ضروری اشیائے خورد نوش سے لے کر رہائش تک لاکھوں افراد کے لیے حاصل کرنا ناقابل برداشت ہو گئی ہیں۔ تمام گھرانوں کا تقریباً ایک تہائی اور کرایہ دار گھرانوں کا نصف حصہ اپنی آمدنی کا 30 فیصد سے زیادہ رہائش پر خرچ کرتے ہیں۔ صارفین کا کل قرض تقریباً 18 ٹریلین ڈالر ہے جو کہ ایک ریکارڈ بلند سطح کو چھو رھا ہے بشمول طلباء کے قرضوں کے جو 1.75 ٹریلین ڈالر ہیں۔

محنت کش طبقے کو ایک بڑے سماجی بحران کا سامنا ہے جس میں بڑے پیمانے پر چھانٹیاں، اسکولوں کی بندش اور صحت کی دیکھ بھال کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ تعلیم میں ہنگامی فنڈنگ ​​کی حالیہ میعاد ختم ہونے کی وجہ سے ماہرین تعلیم کو برطرف کیا گیا اور اسکولوں کو بند کردیا گیا جس سے لاکھوں طلباء متاثر ہوئے ہیں۔

3. فاشزم اور فوجی- پولیس آمریت کا خطرہ

ٹرمپ مہم کے ذریعے ریپبلکن پارٹی ایک ایسی سیاسی تحریک تیار کر رہی ہے جو زیادہ کھلے عام فاشسٹ کردار کی خصوصیت کی حامل شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ نسل کشی اور ایٹمی جنگ کو معمول پر لانے کے ساتھ ساتھ امریکی سیاست میں فاشزم کو بھی معمول بنایا جا رہا ہے۔

درحقیقت 5 نومبر کو انتخابات کا دن پورے سیاسی نظام کے بڑھتے ہوئے بحران میں صرف ایک لمحے کی نشاندہی کرے گا۔ ٹرمپ پہلے ہی 'چوری شدہ الیکشن' کے بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔ وہ تشدد کو بھڑکا رہا ہے اور سازش کر رہا ہے کہ ایسا کوئی نتیجہ جو اس کی فتح کا باعث نہ ہو اُسے قانونی مقدمات اور ریاستی اور مقامی حکومتوں کے اقدامات کے ذریعے مسترد کر دے۔ اور منتخب ہونے کی صورت میں ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ وہ 'اندر کے دشمن' کے خلاف فوج تعینات کر کے لاکھوں تارکین وطن کی ملک بدری کا انتظام کرے گا۔ 

حالیہ ہفتوں میں، ہیریس نے کبھی کبھار ٹرمپ کو 'فاشسٹ' کا لقب دیا ہے لیکن اس سے پھر فوری طور پر پیچھے ہِٹ گی۔ ڈیموکریٹس کی ترجیح یہ ہے کہ جیسا اس ہفتے ہیریس کی 'اختتامی دلیل' میں ظاہر کی گئی ہے وہ یہ کہ اندرون ملک اپوزیشن کو دبانے اور بیرون ملک جنگ چھیڑنے کے لیے ریپبلکنز کے ساتھ 'اتحاد' کو برقرار رکھنے پر ہے۔ ان کی مرکزی توجہ فاشسٹ دائیں بازو کی بڑھوتی پر نہیں ہے بلکہ پورے سیاسی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور نیچے سے تحریک کے پھوٹنے کے خطرے پر لاحق ہے۔ 

دونوں جماعتیں جمہوری حقوق کو ختم کرنے اور آمریت کی طرف جانے میں گہرے طور پر الجھی ہوئی ہیں۔ بائیڈن ہیرس انتظامیہ نے خود غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء کی گرفتاریوں اور بے دخلی کی لہر کی نگرانی کی ہے۔ دونوں جماعتیں اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے ریاست کی عسکریت پسندی کی حمایت کرتی ہیں چاہے اس کا مطلب جنگ مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کرنا ہو یا ہڑتالی مزدوروں کے خلاف پولیس کو متحرک کرنا ہو۔

4. کوویڈ -19 وبائی بیماری اور ماحولیاتی تباہی۔

اب کوویڈ -19 وبائی مرض کے آغاز کو تقریباً پانچ سال ہو چکے ہیں جو کہ جدید دور میں سماجی اور صحت کا سب سے بڑا بحران ہے۔ چار سال پہلے کے انتخابات میں کوویڈ -19 وبائی مرض مرکزی مسئلہ تھا جبکہ ریپبلکنز فاشزم اور ڈیموکریٹس 'سائنس کی پیروی' کرنے کے وعدے پر مرکوز تھے۔ اس الیکشن میں جاری وبائی مرض کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے جس کا حوالہ صرف ماضی کے دور میں دیا گیا ہے، یہاں تک کہ ہر روز سینکڑوں افراد اس بیماری سے جان بحق ہو رہے ہیں۔

گزشتہ انتخابات کے بعد سے ہلاکتوں کی تعداد حیران کن ہے 1.2 ملین سے زیادہ امریکی کوویڈ -19 سے متعلقہ وجوہات سے مر چکے ہیں، جن میں ٹرمپ کے دور میں 400,000 سے زیادہ اموات (جنوری 2021 تک) اور بائیڈن کے تحت 800,000 سے زیادہ اموات شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار پچھلے چار سالوں میں 24 ملین اضافی اموات کی عالمی تعداد کا حصہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں دسیوں ملین لوگ لانگ کوویڈ سے متاثر ہوئے ہیں۔

موت اور کوویڈ سے جسمانی کمزوری کی یہ زبردست سطح حکمران طبقے کی پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ بائیڈن- ہیرس انتظامیہ نے ٹرمپ کی مجرمانہ ' اجتماعی مدافعت ' کی پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کیا اور مئی 2023 میں کوویڈ -19 ریلیف کے لیے ہنگامی فنڈنگ ​​کی میعاد ختم ہونے کی اجازت دے دی جس سے ہسپتالوں اور کلینکوں کو مطلوب عملہ اور فنڈز کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔

ایک ہی وقت میں موسمیاتی تبدیلی بے مثال ماحولیاتی آفات کو جنم دے رہی ہے جس میں دو بڑے سمندری طوفان بھی شامل ہیں جو گزشتہ دو مہینوں کے دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے ٹکرائے ہیں اور جن سے تباہ کن سیلاب پیدا ہوئے ہیں۔ سائنس دان ایک بڑھتے ہوئے اور وجودی بحران کے بارے میں خبردار کرتے آ رپے ہیں لیکن کوئی بھی فریق اس مسئلے کو سنجیدہ انداز میں حل نہیں کرے گا کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں کوئی حقیقی ردعمل دونوں فریقوں کو فنڈ دینے والی کارپوریشنوں کے مفادات کو خطرے میں ڈالے گا۔ ڈیموکریٹس نے حتیٰ کہ اپنے نام نہاد لفاظیت کو بھی ترک کر دیا ہے جب کہ ریپبلکن کھلے عام موسمیاتی تبدیلی کو ایک دھوکہ قرار دیتے ہیں۔

——-

ریاستہائے متحدہ میں سیاسی نظام مکمل طور پر غیر جمہوری اور مفلوج ہے۔ اس کے ڈھانچے کا ہر پہلو جیسا کہ تیسرے فریقوں کے لیے الیکشن تک رسائی حاصل کرنے کے قوانین سے لے کر پیسے کے تسلط تک، کارپوریٹ میڈیا کے کردار تک کو منظم طریقے سے محنت کش طبقے کے مفادات کے کسی بھی حقیقی اظہار کو خارج کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

پچھلے ایک سال کے دوران بڑے پیمانے پر سماجی غصے اور مخالفت کے زبردست مظاہرے ہوئے ہیں۔ غزہ میں امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی نسل کشی کے خلاف لاکھوں افراد نے احتجاج کیا ہے۔ مزدوروں نے اہم صنعتوں میں ہڑتال کی کارروائی شروع کی ہے جس میں ایک بڑی فوجی ٹھیکیدار اور ایرو اسپیس کمپنی بوئنگ کے 33,000 مزدوروں کی جاری ہڑتال بھی شامل ہے جسے ٹریڈ یونین کے بیروکریسی الیکشن کے دن سے پہلے ختم کرنے کے لیے شدت سے کام کر رہی ہے۔

مرکزی مسئلہ محنت کش طبقے کے اندر سوشلسٹ سیاسی قیادت کی تشکیل اور اسکی بڑھوتی کا ہے۔ بحران کو اس کی جڑ سے حل کرنا ہوگا اور بحران کی جڑ سرمایہ دارانہ منافع بخش نظام ہے۔ اور بین الاقوامی کارپوریشنوں، عالمی سامراجی جنگ اور عالمی وبا کے عہد میں اسکا کوئی قومی حل نہیں ہے۔ بین الاقوامی محنت کش طبقہ کرہ ارض کی سب سے طاقتور قوت ہے لیکن اسے ایک ایسے سیاسی پروگرام سے مسلح ہونا چاہیے جو اس کے حقیقی مفادات کو بیان کرے۔

سوشلسٹ ایکولیٹیی پارٹی چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی کے ایک سیکشن کے طور پر ایک سوشلسٹ پروگرام اور پالیسیوں کی بنیاد پر محنت کش طبقے کی سیاسی آزادی کے قیام کی لڑائی کی قیادت کر رہی ہے۔

سوشلسٹ ایکولیٹیی پارٹی(ایس ای پی) کا اصرار ہے کہ محنت کش طبقے کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیوں سے الگ ہو جائے اور بین الاقوامی، سرمایہ دارانہ مخالف اور سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر ایک آزاد سیاسی تحریک قائم کرے۔ عدم مساوات، جنگ اور آمریت کی مخالفت کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور پوری دنیا میں محنت کش طبقے کو اقتدار پر سیاسی طاقت کے زریعے قبضہ اور معاشرے کی مکمل تنظیم نو کی ضرورت ہے۔

Loading