یہ 3 جنوری 2025 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Socialism against oligarchy, fascism and war' اس بیان کا اردو ترجمہ ہے
اپنے یادگار مضمون 'فرانس میں طبقاتی جدوجہد' میں سیاست کے تجزیہ کی بنیاد کو تاریخی مادیت کے طریقہ کار کے ابتدائی اصولوں میں سے ایک کا اطلاق کرتے ہوئے کارل مارکس نے جائزہ لیا کہ 'انقلاب کا راز' جس نے جولائی میں ڈیوک آف اورلینز کو اقتدار دیا گیا 1830 کا یہ خلاصہ مالیاتی جادوگر لیفیٹ کے الفاظ میں یوں کیا گیا تھا: 'اب سے بینکر حکومت کریں گے۔' اگر ایلون مسک کو لافیٹ کے ساتھ بدل دیں اور 1830 کو 2024 میں تبدیل کر دیں تو ٹرمپ کے انتخاب کے 'راز' کا خلاصہ ان مندرجہ زیل الفاظ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے 'اب سے اشرافیہ (اولیگارچ) ہی حکومت کریں گے۔'
ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی جو آنے والے تین ہفتوں میں اقتدار سنبھالیں گے ایک شکست اور ایک بنیادی سیاسی موڑ کی نشان دہی کرتی ہے۔ امریکی فیورر (ڈکٹیٹر) کا دوبارہ انتخاب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ 2016 میں ان کی ابتدائی فتح اور 6 جنوری 2021 کو بغاوت کی کوشش کرنے کے ساتھ یہ سب کچھ بگاڑ کے طور پر نہیں تھا بلکہ ریاستہائے متحدہ اور پوری دنیا میں سیاست کی ایک بنیادی تنظیم نو کا اظہار تھا۔
آنے والی انتظامیہ امیروں کی امیروں کے لیے اور صرف امیروں ہی کی حکومت ہوگی۔ امریکی تاریخ میں جس کی مثال اس سے بڑھ کر اب تک نہیں ملتی کہ اولیگارکی خود ریاست پر براہ راست کنٹرول کا استعمال کرے گی – دنیا کے سب سے امیر آدمی اور آرویلیئن 'محکمہ حکومتی کارکردگی' کے سربراہ سے لے ٹرمپ کی کابینہ میں ارب پتیوں کا اجتماع وائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھ کام کرے گا۔ دسمبر کے وسط تک ٹرمپ کی انتخاب کی گی انتظامیہ کے اس اعلیٰ درجے کی کل دولت کا تخمینہ تقریباً نصف ٹریلین ڈالر تھا۔
نئی حکومت کا کردار خود سرمایہ دارانہ سماج کی فطرت کے مطابق ریاست کی پرتشدد تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد جو کارپوریشنز وسائل کو ناقابل تسخیر پیمانے پر کنٹرول کرتے ہیں ارب پتیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ جن کی ذاتی دولت دنیا کی 120 غریب ترین اقوام کی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں تین امیر ترین افراد اب مجموعی طور پر نچلی 50 فیصد آبادی سے زیادہ دولت پر قابض ہیں۔
عالمی سطح پر سب سے اوپر کے ایک فیصد اب نیچے کے 99 فیصد سے زیادہ دولت کے مالک ہیں۔ بلومبرگ نیوز کے تازہ ترین خلاصے کے مطابق دنیا کے 500 امیر ترین افراد نے '2024 میں بڑے پیمانے پر دولت اکھٹی کی ' اور ایک نئے سنگ میل تک جا پہنچے: انکی کل مجموعی مالیت 10 ٹریلین ڈالر ہو گی۔ بلومبرگ نے رپورٹ کیا ہے کہ 'صرف آٹھ ٹیک ٹائٹنز (ٹیکنالوجی کمپنیز اور افراد) نے اس سال 600 بلین ڈالر سے زیادہ رقم اکھٹی کی جو کہ 500 امیر ترین لوگوں میں 1.5 ٹریلین ڈالر کے اضافے کا 43 فیصد ہے۔'
ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب سیاسی رد عمل کے ایک توسیعی عمل کی انتہا اور آنے والے حالات کا محرک ہے۔ پانچ سال پہلے 2020 کے آغاز میں ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے 2020 کی دہائی کو 'سوشلسٹ انقلاب کی دہائی' کے طور پر بیان کرتے ہوئے ایک بیان شائع کیا تھا۔ اس کے بعد کے برسوں نے بے مثال اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بحرانوں کا ایک سلسلہ دیکھا۔ 2024 کے اپنے نئے سال کے بیان میں ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے
کووىڈ-19 وبائی مرض میں بڑے پیمانے پر موت کے 'معمول' کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ یوکرین میں روس کے خلاف امریکی نیٹو کی بڑھتی ہوئی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کو معمول پر لانے کے ساتھ غزہ میں سامراجی حمایت یافتہ اسرائیلی نسل کشی کو 'معمول' بنانے کا انتباہ کیا تھا۔
ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب فاشسٹ بربریت اور سرمایہ دارانہ آمریت کے 'نارملائزیشن' کا سیاسی اظہار ہے۔ اس کا اشارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور سرمایہ دار میڈیا نے ٹرمپ کے جمہوریت کے لیے خطرے کے تمام حوالوں سے منہ پھرتے ہوئے 'لفظ-ایف ' فاشزم کو چھوڑ دیا اور اس کے بجائے ٹرمپ اور ریپبلکنز کے ساتھ مکمل تعاون کا عہد کیا۔
آنے والی انتظامیہ 'پہلے دن' سے منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ جمہوری حقوق پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا جائے جس کی توجہ ابتدائی طور پر تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر تھی۔ اس کی انتہائی انتہائی تجاویز میں پیدائشی حق شہریت کا خاتمہ ہے جو امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کا ایک سنگ بنیاد ہے جسے خانہ جنگی کے بعد اپنایا گیا تھا۔ تارکین وطن مزدوروں کو نشانہ بنانا پورے محنت کش طبقے کے جمہوری اور سماجی حقوق پر وسیع حملے کا پیش خیمہ ہے کیونکہ حکومت امیروں کے لیے ٹیکسوں میں مزید کٹوتیاں کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور محنت کشوں کی طرف سے تلخ جدوجہد کے ذریعے جیتنے والے ہر سماجی پروگرام پر ایک مربوط حملہ کیا جا رہا ہے۔.
ریاستہائے متحدہ میں واضح طور پر ظاہر ہونے والے عمل درحقیقت عالمگیر ہیں۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ حکومتیں بڑے پیمانے پر سیاسی بحرانوں سے لڑکھڑا رہی ہیں اور انہیں عوامی مخالفت کا سامنا ہے اور وہ آمرانہ اقدامات کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
جرمنی میں نیو نازی متبادل (آے ایف ڈی) اب ایلون مسک کی کھلی حمایت کے ساتھ اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی دائیں جانب عالمی تبدیلی کے دوران سب سے مضبوط سرمایہ دار پارٹی کے طور پر ابھر رہی ہے۔ فرانس میں 'بینکوں کے صدر' ایمانوئل میکرون اب نیو پاپولر فرنٹ (این پی ایف) کے ساتھ مل کر حکومت کر رہے ہیں اور پارلیمانی اپوزیشن کی ذمہ داری میرین لی پین کی فاشسٹ نیشنل ریلی کو سونپ رہے ہیں۔
اٹلی میں جارجیا میلونی کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت جو اپنے ورثے کو مسولینی تک پہنچاتی ہے امیگریشن مخالف پالیسیوں کو تیز کر رہی ہے جب کہ ارجنٹائن میں جیویر میلی عوامی خدمات اور مزدوروں کے تحفظات کو مسمار کرنے کے لیے سماجی پسماندگی کے لیے انتہائی دائیں بازو کا ماڈل فراہم کر رہی ہے۔
سری لنکا میں دائیں بازو کی سنہالا شاونسٹ اور قوم پرست جے وی پی کو گزشتہ سال انتخابات میں اقتدار حاصل ہوا تھا اور وہ فوری طور پر عالمی مالیاتی فنڈ کے حکم کو نافذ کرنے کے لیے آگے بڑھا ہے۔ جنوبی کوریا سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے مارشل لاء لگانے کی کوشش کے دوران صدر اور وزیر اعظم دونوں کا مواخذہ کیا گیا۔ آسٹریلیا میں انتہائی غیر مقبول لیبر حکومت نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو دائیں بازو کے لبرل – قومی اتحاد سے الگ نہیں ہیں جن میں چین کے ساتھ امریکی جنگ میں شامل ہونے کی تیاریوں کو آگے بڑھانا تارکین وطن اور اندرون ملک محنت کش طبقے کے خلاف جنگ کرنا شامل ہے۔
پچھلے پانچ سال سرمایہ دارانہ بحران پر حکمران طبقہ کے ردعمل کا غلبہ رہا ہے۔ اگلے پانچ سال طبقاتی جدوجہد کے ایک دھماکہ خیز دھماکے سیاسی افق پر حاوی ہوں گے جو پہلے ہی جاری ہیں۔ دنیا بھر میں محنت کش ایک بڑھتی ہوئی عالمی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی جاری کوویڈ-19 وبائی مرض کے علاوہ(H5N1) برڈ فلو اور نئے پیتھوجینز کے ظہور کے اور ایم پی اوکس (mpox) جیسے وبائی امراض کے ساتھ بنیادی جمہوری حقوق پر ایک مربوط حملہ اور استحصال اور سماجی ضروریات اور بدحالی میں زبردست اضافہ کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان آپس میں جڑے ہوئے بحرانوں کی بنیاد ایک اشرافیہ ہے جو تمام معاشرے کو منافع اور ذاتی دولت جمع کرنے کے تابع کر دیتی ہے۔ اشرافیہ کے خلاف جنگ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انقلابی اقدام اور کام ہے۔ اس کی دولت کو ضبط کر لیا جائے اور معاشی اور سیاسی زندگی پر اس کا تسلط ختم کر دیا جائے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر محنت کش طبقے کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے سیاسی اقتدار سنبھالنے پیداوار کے عمل پر جمہوری کنٹرول قائم کرنے اور سوشلزم کی بنیاد پر سماج کی تنظیم نو کی جائے جسکا مطلب ہے کہ سماج کی بنیاد نجی منافع کی بجائے سماجی ضرورت کی بنیاد پر استوار کی جائے۔
سامراجی جنگ کا عالمی سطح پر بھڑک اٹھنا
اشرافیہ کی خارجہ پالیسی سامراجی جنگ اور لوٹ مار ہے۔ لینن نے وضاحت کرتے ہوئے نوٹ کیا کہ 'سامراجیت،' (1) اجارہ دارانہ سرمایہ داری ہے۔ (2) طفیلی یا زوال پذیر سرمایہ داری (3) مری ہوئی سرمایہ داری اجارہ داری کے ذریعے آزاد مسابقت کو دبانہ اسکی بنیادی اقتصادی خصوصیت ہے جو سامراج کا سر چشمہ ہے۔' وسائل اور خام مال کے مقابلے میں سامراجی طاقتیں بنی نوع انسان کو تباہی میں ڈالنے کی دھمکی دیتی ہیں۔
پانامہ کینال پر قبضہ حاصل کرنے گرین لینڈ کو زیر کرنے اور میکسیکو میں فوج تعینات کرنے کی دھمکی کے بارے میں ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات آنے والی انتظامیہ کے سامراجی عزائم کی مثال دیتے ہیں۔ ٹرمپ کی 'امریکہ فرسٹ' قوم پرستی کے نتیجے میں 'فورٹریس امریکہ' ایک عالمی پالیسی ہے جس میں چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تصادم میں مغربی نصف کرہ پر کنٹرول کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔
بائیڈن کے تحت امریکی سامراج کی تین دہائیوں کی علاقائی جنگیں روس کے ساتھ کھلے تصادم میں پھیل گئیں ہیں جو کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی جوہری طاقت ہے۔ فروری 2022 میں یوکرین پر روسی حملہ پیوٹن حکومت کی طرف سے دیوالیہ اور رجعتی کارروائی کا پیشہ خیمہ تھی جو سوویت یونین کی تحلیل سے پیدا ہونے والے سرمایہ دارانہ طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ تاہم یہ اقدام 'بلا اشتعال' نہیں تھا جیسا کہ سرمایہ دارانہ میڈیا نے عالمی طور پر دعویٰ کیا ہے۔ یہ روسی حکومت کا نیٹو کی مشرق کی جانب مسلسل توسیع اور یوکرین کی امریکی زیر قیادت فوجی اتحاد میں شمولیت پر بات چیت سے انکار کا ردعمل تھا۔
تین سالوں کے دوران جنگ نے دونوں طرف سے لاکھوں جانیں لے لی ہیں۔ اپنے آخری ہفتوں میں بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو روسی شہروں کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی فراہم کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کا استعمال کرنے کا اختیار دیا جس سے دنیا کو کیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے کسی بھی وقت جوہری جنگ کے دہانے کے قریب لا کھڑا کر دیا ہے۔
یہ جنگ امریکی اور نیٹو طاقتوں نے کیف میں ایک دائیں بازو کی حکومت کے ساتھ مل کر لڑی ہے جو بڑھتی ہوئی داخلی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے جمہوری حقوق پر پہلے سے زیادہ وحشیانہ حملہ کر رہی ہے۔ ینگ گارڈ آف بالشویک-لیننسٹ (وائے جی پی ایل) کے ایک سرکردہ رکن بوگڈان سیروتیوک کو یوکرین اور روسی دونوں حکومتوں کی مخالفت کرنے اور محنت کش طبقے کو جنگ کے خلاف متحد کرنے کے لیے لڑنے کے 'جرم' کی پاداش میں اب گزشتہ آٹھ ماہ سے جیل میں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی غزہ پر اسرائیل کے نسل کشی کے حملے جسے امریکہ اور نیٹو طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور مشرق وسطیٰ میں بورژوا قوم پرست حکومتوں کی مدد اور حوصلہ افزائی نے سامراجی بربریت کی گہرائیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
نسل کشی پورے کے پوریشہروں کی تباہی ہسپتالوں اور سکولوں کو نشانہ بنانا اور لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنا ایک وسیع تر علاقائی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد مشرق وسطیٰ کو سامراجی مفادات کے مطابق دوبارہ تقسیم اور منظم کرنا ہے اس اقدام کے لیے شام میں اسد حکومت کا تختہ الٹنا حزب اللہ کی قیادت کا سر قلم کرنا اور ایران کے خلاف اشتعال انگیزی میں نمایا اضافہ شامل ہے۔
مقاصد اور طریقوں کے برعکس جس حد تک امریکی ریاست کے اندر خارجہ پالیسی پر تنازعات ہیں اس کا زیادہ تعلق جغرافیہ سے ہے یعنی دنیا کا کون سا خطہ سامراجی جارحیت کا فوری ہدف ہونا چاہیے۔ تاہم آنے والی انتظامیہ کی مرکزی توجہ چین کے ساتھ تصادم کی تیاری ہو گی جسے امریکی حکمران طبقہ اپنے بنیادی عالمی حریف کے طور پر دیکھتا ہے۔
عسکریت پسندی کا عالمی طور پر پھوٹنا امریکی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے بحران سے الگ نہیں ہے۔ 'ڈالر کے غلبہ' پر ٹرمپ کا زور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکی مالیاتی سرمائے کی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے کس حد تک فوجی جارحیت کی جائے گی۔ محصولات، تجارتی جنگیں اور حریفوں اور اتحادیوں دونوں کے خلاف دھمکیاں - کینیڈا کو '51 ویں ریاست' کے طور پر الحاق کرنے کے بارے میں ٹرمپ کے اشتعال انگیز ریمارکس کی عکاسی دراصل طویل مدتی معاشی زوال کے دوران اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے امریکی سامراج کی مایوسی کو ظاہر کرتی ہے۔
پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران 1928 میں لیون ٹراٹسکی نے جو تجزیہ کیا تھا وہ آج بھی زیادہ موثر طور پر لاگو ہوتا ہے۔ ٹراٹسکی نے لکھا:
کہ بحران کے دور میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی عروج کے دور سے زیادہ مکمل طور پر زیادہ کھلے عام اور زیادہ بے رحمی سے محرک ہو گی۔ امریکہ بنیادی طور پر یورپ کی قیمت پر اپنی مشکلات اور بیماریوں سے خود کو نکالنے اور نکالنے کی کوشش کرے گا قطع نظر اس کے کہ یہ ایشیا، کینیڈا، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، یا خود یورپ میں ہوتا ہے یا پھر یہ کہ یہ پرامن طریقے سے ہوتا ہے یا جنگ کے ذریعے۔.
امریکی سامراج کا پھٹنا دنیا کی عالمی سامراجی تقسیم کا حصہ ہے جس میں تمام بڑے سرمایہ دار ممالک حصہ لے رہے ہیں۔ یورپی طاقتوں نے ٹرمپ کے انتخاب اور یوکرین کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی کے امکان کا جواب دیا ہے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت پر اصرار کرتے ہوئے اور اگر ضروری ہو تو امریکہ کی مخالفت میں۔ تمام سابقہ نوآبادیاتی ممالک کو وسائل، منڈیوں اور خام مال کے کنٹرول کے سلسلے میں دوبارہ محکومی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
بڑھتی ہوئی عالمی جنگ سے انسانیت کو عالمی انتشار میں ڈوبنے کا خطرہ ہے جس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ ایک ہی وقت میں بیرون ملک جنگ داخلی طور پر محنت کش طبقے کے خلاف لڑائی کی بڑے پیمانے پر شدت کی ضرورت ہے۔ خارجہ امور نے حال ہی میں 'مکمل جنگ' کے نئے دور کو بیان کیا ہے جس میں 'جنگجو وسیع وسائل کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اپنے معاشروں کو متحرک کرتے ہیں دیگر تمام ریاستی سرگرمیوں پر جنگ کو ترجیح دیتے ہیں وسیع اقسام کے اہداف پر حملہ کرتے ہیں اور اپنی معیشتوں اور دیگر ممالک کی معیشتوں کو نئی شکل دیتے ہیں۔ ' یعنی تمام معاشرے کو جنگ کے تابع کر دینا ہے۔
سرمایہ داری کا بحران اور طبقاتی کشمکش کا فروغ
سامراجی جنگ پورے سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے پیچیدہ بحران پر حکمران طبقے کا ردعمل ہے۔ پچھلی دہائیوں میں پہلے سے زیادہ شدید معاشی بحرانوں کے پھوٹنے نے مالیاتی اشرافیہ کی طفیلی اور لاپرواہی کو مزید گہرا کر دیا ہے جس کی بے پناہ دولت تیزی سے حقیقی قدر کی پیداوار سے الگ ہوتی جا رہی ہے۔
پے درپے بحرانوں کے لیے حکمران طبقے کا ردعمل بینکوں اور کارپوریشنوں کے بڑے پیمانے پر بیل آؤٹ انجینئر کرنا رہا ہے حال ہی میں کوویڈ-19 وبائی امراض کے پہلے سال کے دوران اس وبائی مرض نے سرمایہ دارانہ حکومتوں کی محنت کشوں کی زندگیوں کے لیے مہلک بے حسی کو بے نقاب کر دیا ہے اس لیے کہ وہ صحت عامہ پر کارپوریٹ منافع کو ترجیح دیتی رہی ہیں۔ اب عالمی سطح پر 30 ملین سے زیادہ لوگ جن کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے ہلاک ہو چکے ہیں۔ کم از کم 500 ملین لوگ اب لانگ کوویڈ کے اکثر جسمانی کمزور ہونے والے اثرات سے دوچار ہیں۔
حکمران طبقے کے لیے تاہم یہ ایک مالی فائدہ تھا کیونکہ عالمی حکومتوں نے جس کی سربراہی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کر رہی تھی سٹاک ایکسچینجز میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ ان اقدامات نے جہاں وقتی طور پر مارکیٹوں کو مستحکم کیا وہ سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی تضادات کو دور کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بجائے انہوں نے قیاس آرائیوں اور قرضوں کی اور بھی بڑی سطح کو ہوا دی اور اس سے بھی زیادہ تباہ کن خاتمے کا مرحلہ طے کیا۔
بٹ کوائن اور دیگر کریپٹوکرنسیز جیسے قیاس آرائی پر مبنی مالیاتی آلات کے عروج سے یہ کہیں اور زیادہ واضح نہیں ہے کہ جن کی مجموعی مارکیٹ ویلیو اب 3.26 ٹریلین ڈالر ہے۔ دسمبر 2024 میں ایک بٹ کوائن کی قیمت ڈالر100,000 سے تجاوز کر گئی اور یہ ناقابل فہم نہیں ہے کہ اس کی 'قیمت' آنے والے مہینوں میں دوگنا تین گنا یا چار گنا ہو سکتی ہے۔ بلاشبہ یہ بھی بہت ممکن ہے کہ پوری کرپٹو پونزی اسکیم گر جائے گی جس کے لیے فیڈرل ریزرو کی طرف سے سٹے بازوں کے ایک اور ملٹی ٹریلین ڈالر بیل آؤٹ کی ضرورت ہوگی۔
فنانشل ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی کریڈٹ کارڈ کے نادہندگان 2010 کے بعد سے اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ لیوریجڈ قرضوں کے نادہندگان بھی چار سالوں میں اپنی بلند ترین شرح پر پہنچ گئے ہیں جو مالیاتی عدم استحکام میں اضافے کا اشارہ ہے۔ دریں اثناء امریکہ کا قومی قرضہ 36 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔
جب کہ پریس اور میڈیا انتہائی امیروں کی مزید افزودگی کے روشن امکانات کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ آبادی کے وسیع پیمانے پر حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے: زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اجرتوں میں جمود اور عوامی خدمات میں بڑے پیمانے پر گراوٹ نمایا ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں:
- 2019 اور 2023 کے درمیانے عرصے میں ملک بھر میں کرائے کی لاگت میں 30.4 فیصد اضافہ ہوا جس سے تقریباً نصف کرائے دار 'لاگت کے بوجھ' تلے دبا رہے ہیں۔ 2024 کے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرایہ داروں کے پانچویں حصے نے اپنی پوری آمدنی کرائے پر خرچ کر دی بہت سے لوگ دوسری ملازمتوں (20 فیصد)، فیملی سپورٹ (14 فیصد) یا وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ کی بچت (12 فیصد) کو ختم کرنے کے لیے وقت سے پہلے واپس لے رہے ہیں۔
- نوجوان امریکیوں کی ریکارڈ تعداد جن میں 31 فیصد جنریشن زیڈ(Z) شامل ہیں ناقابل برداشت رہائش کی وجہ سے اپنے بزرگوں والدین یا دادا دادی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک چوتھائی نوجوان اب کثیر نسل کے گھرانوں میں رہتے ہیں جو بڑھتے ہوئے اخراجات اور طالب علم کے قرضوں سے متاثر ہیں۔
- بے گھر افراد کی تعداد 2024 میں ریکارڈ سطح پر جا پہنچی جو 770,000 لوگوں تک پہنچ گئی جو کہ 2023 کے مقابلے میں 18.1 فیصد زیادہ ہے تقریباً 150,000 بچوں کو ایک ہی رات میں بے گھر ہونے کا سامنا کرنا پڑا جو پچھلے سال سے 33 فیصد زیادہ ہے۔
- نومبر 2024 میں سرکاری بیروزگاری بڑھ کر 7.1 ملین ہوگئی مزید 4.5 ملین بے روزگار اور 5.5 ملین افرادی قوت چھوڑ چکے ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق تقریباً 700 ملین لوگ (یا دنیا کی آبادی کا 8.5 فیصد) 'انتہائی غربت' میں رہتے ہیں جس کی تعریف یومیہ 2.15 ڈالرسے کم آمدنی ہے۔ تقریباً 3.5 بلین لوگ (انسانیت کا 44 فیصد) یومیہ 6.85 ڈالر سے کم پر گزارہ کرتے ہیں۔
یہ حالات سماجی مخالفت کے نمایاں اظہار کو جنم دے رہے ہیں۔ ریاستہائے متحدہ میں 450,000 سے زیادہ مزدور 2023 میں 'بڑی ہڑتالوں' میں شامل تھے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 280 فیصد اضافہ اور وبائی امراض سے پہلے کی سطح پر آ گی ہیں۔ یہ ہڑتالیں صنعتوں اور پیشوں پر پھیلی ہوئی تھیں۔ جن میں آٹو ورکرز، ہالی ووڈ کے مصنفین اور اداکار، نرسیں اور سرکاری اسکول کے اساتذہ شامل ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کی نمو 2024 میں جاری رہی جس میں بوئنگ ایرو اسپیس کے مزدوروں، تعلیمی مزدوروں، ٹیلی کمیونیکیشن کے مزدوروں اور امازون اور سٹارباکس کے مزدوروں کی ہڑتالیں شامل ہیں۔
گزشتہ سال کے دوران ارجنٹائن، گنی اور نائیجیریا میں مزدوروں نے اسٹریٹی کے اقدامات کی مخالفت کرنے کے لیے طاقتور عام ہڑتالیں شروع کیں جن سے ان کی روزی روٹی کو خطرہ لاحق تھا۔ کینیا میں اسٹریٹی کے خلاف ملک گیر 'جنرل زیڈ مظاہروں' میں لاکھوں نوجوانوں نے مظاہرہ کیا جس کے بعد ہڑتال کی لہر میں کئی صنعتوں میں مزدور شامل ہوئے۔ یونان اور اٹلی میں محنت کشوں نے نجکاری اجرتوں میں کمی اور سماجی تحفظات کے خاتمے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں میں معیشت کے بڑے شعبوں کو بند کر دیا۔ شمالی آئرلینڈ میں نصف صدی سے زائد عرصے میں سب سے بڑی ہڑتال دیکھنے میں آئی جس میں 150,000 پبلک سیکٹر ورکرز بہتر تنخواہ اور شرائط کے مطالبے کے لیے باہر نکلے۔
پورے ایشیا میں اہم صنعتوں میں نمایاں ہڑتالیں ہوئیں جن میں جنوبی کوریا میں ٹرانزٹ ورکرز اور سام سنگ کے ملازمین اور سری لنکا میں ریلوے ورکرز شامل ہیں۔ چلی میں تانبے کے کان کنوں اور برازیل میں بندرگاہ کے مزدوروں کی ہڑتالوں نے لاطینی امریکہ میں مزدوروں کے عالمی سرمائے کے لیے اپنی محنت کی اجناس کی مزاحمت کرنے کے عزم کو اجاگر کیا۔ میکسیکو میں اسٹیل اور آٹو میں کام کرنے والے مزدوروں نے کم تنخواہ اور بین الاقوامی کارپوریشنوں کی طرف سے عائد کردہ شرائط کے خلاف جدوجہد کی۔
ترکی میں دھاتی کام کرنے والے اور کان کن اپنی اجرت اور کام کے حالات کے دفاع کے لیے عسکری جدوجہد میں مصروف ہیں۔ جرمنی میں لفتنزا اور فوکسس ویگن پر ہڑتالوں نے یورپ کی سب سے بڑی معیشت میں مزدوروں کے بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کو بے نقاب کیا۔ برطانیہ نے ریل اور ہوائی اڈے کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا مشاہدہ کیا جب کہ فرانس بندرگاہوں ریلوے اور پبلک سیکٹر میں ہڑتالوں سے لرز اٹھا۔
کینیڈا میں ہڑتالوں میں سسکیچیوان صوبے کے ہزاروں اساتذہ کے ساتھ ساتھ ریلوے، بندرگاہ اور کینیڈا پوسٹ کے مزدور شامل تھے۔ ان جدوجہد کو ٹروڈو حکومت کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جس نے واشنگٹن کے ساتھ مل کر ہڑتالوں کو کچلنے کے لیے بار بار مداخلت کی۔
ٹریڈ یونین بیوروکریسی کارپوریٹ اور ریاستی مفادات کے ساتھ منسلک ہو کر مزدوروں کی نقل و حرکت پر بریک کا کام کرتی ہیں۔ بار بار انہوں نے ہڑتالوں کو دبانے جدوجہد کو الگ تھلگ کرنے اور ایسے معاہدوں کو مسلط کرنے کے لیے کام کیا ہے جو رینک اور فائل کے مفادات سے کھلی غداری ہے۔
ریاستہائے متحدہ میں مشینوں کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن (آئی اے ایم) نے گزشتہ سال دو ماہ کی بوئنگ ہڑتال کو سبوتاژ کیا بوئنگ کے 33,000 مزدوروں کو تنہا کرتے ہوئے ہڑتال کو ختم کرنے سے پہلے انہیں ناکافی ہڑتال کی تنخواہ کے ساتھ مجبور کیا۔ یونائیٹڈ آٹو ورکرز (یو اے ڈبلیو) نے ایک شرمناک 'ہڑتال' مہم شروع کی جس میں کوئی حقیقی ہڑتال نہیں کی گئی کیونکہ یو اے ڈبلیو کے صدر شان فین نے اپوزیشن کو دبایا اور تجارتی پالیسیوں پر ٹرمپ کے ساتھ تعاون کا وعدہ کیا۔ بندرگاہوں پر، انٹرنیشنل لانگشور مینز ایسوسی ایشن (آئی ایل اے) نے اکتوبر میں 40,000 مزدوروں کی تین روزہ ہڑتال کو تیزی سے ختم کر دیا اور انہیں وائٹ ہاؤس کی 90 دن کی توسیع کے تحت واپس بھیج دیا۔
کینیڈا میں 55,000 پوسٹل ورکرز کی ایک ماہ تک جاری رہنے والی ہڑتال کے بعد کینیڈین یونین آف پوسٹل ورکرز (سی یو پی ڈبلیو) اور کینیڈین لیبر کانگریس نے وزیر محنت سٹیون میک کینن کی طرف سے عائد کردہ حکومتی ہڑتال پر پابندی کا اعتراف کیا۔ اجرت میں اضافے ملازمت کی حفاظت یا نئی ٹیکنالوجیز پر کنٹرول کے لیے مزدوروں کے مطالبات میں سے کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں ہوا۔
ہر جدوجہد نئی تنظیموں رینک اینڈ فائل کمیٹیوں کو تیار کرنے کی ضرورت کو جنم دیتی ہے جس کی قیادت
مزدور خود کرتے ہیں تاکہ اقتدار کو فیکٹریوں اور صنعتوں میں منتقل کیا جاسکے اور پورے محنت کش طبقے کی متحد عالمی تحریک کی قیادت کر سکے۔
انقلاب کی دہائی میں ٹراٹسکی ازم کی لڑائی
جیسے جیسے انسانیت دہائی کے دوسرے نصف میں داخل ہو رہی ہے سوشلسٹ انقلاب کے معروضی حالات غیر معمولی رفتار سے پک کر تیار ہو رہے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے پیدا کردہ حالات جیسا کہ سامراجی جنگ، حیرت انگیز عدم مساوات، آب و ہوا کی تباہی اور آمریت کا خطرہ - لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کو جدوجہد کی طرف گامزن کر رہا ہے۔
اگر جدید تاریخ سے سیکھنے کے لیے کوئی حتمی سبق ہے تو وہ یہ ہے کہ دولت کی عدم مساوات کی وہ سطحیں جو اب امریکہ اور عالمی سطح پر موجود ہیں ہمیشہ سماجی دھماکوں کو جنم دیتی ہیں۔ لیکن تاریخ یہ بھی شاہد ہے کہ یہ جدوجہد کسی واضح پروگرام تنظیم اور قیادت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
ٹراٹسکی کے بنیادی ورک اکتوبر کے اسباق کی اشاعت کے ارد گرد روسی کمیونسٹ پارٹی میں تنازعہ کو شروع ہوئے ابھی ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بیوروکریٹزم کے خلاف لیفٹ اپوزیشن کی جدوجہد پر مبنی ٹراٹسکی کے تجزیے نے سٹالنسٹوں کی طرف سے ایک پراسرار ردعمل کو جنم دیا۔ ان میں دو مرکزی سوالات جو ابھرے وہ یہ تھے جیسا کہ ٹراٹسکی نے حملوں سے دفاع کیا (1) اکتوبر 1917 میں بالشویکوں کی فتح انڑنیشنل حکمت عملی کی بنیاد پر ہی ممکن تھی۔ اور (2) یہ کہ معروضی صورت حال جتنی زیادہ ترقی کرتی ہے انقلابی قیادت کا کردار اتنا ہی فیصلہ کن ہوتا ہے یعنی کہ’’موضوعی عنصر‘‘۔
حکمران طبقہ خود بھی محنت کش طبقے میں انقلابی قیادت کے خطرے سے آگاہ ہے۔ سوشلزم کے بارے میں ٹرمپ کی پراسرار مذمتیں اس خدشے کا اظہار کرتی ہیں کہ محنت کش طبقے میں بڑھتا ہوا غصہ ایک ایسے پروگرام اور نقطہ نظر سے جڑ جائے گا جو مزدوروں کے مفادات کو بیان کرتا ہے۔ ٹراٹسکی ازم کے 'خطرے' کا مقابلہ کرنے اور اسے غلط طور پر پیش کرنے کے لیے اکیڈمی کے اندر پرتوں نے بے پناہ وسائل وقف کیے ہیں۔
مثال کے طور پر برطانوی ماہر تعلیم جان ای کیلی اپنی 2023 کی کتاب ٹراٹسکیزم کی دنیا میں دھیمی روشنی (The Twilight of World Trotskyism) میں لکھتے ہیں کہ 'Trotskyist ٹراٹسکیٹ کی زیرقیادت انقلابی منظرنامہ جو تقریباً ایک صدی کی کوششوں کے باوجود کہیں بھی نافذ نہیں ہوا، سیاست میں ایک المناک اور فضول غلط سمت کے مترادف ہے۔ توانائی اور وسائل سنجیدہ ریڈیکل سیاست سے دور ہیں۔ فورتھ انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی نے کیلی کی 'بے ہودہ اور مغرور' دعوے کی مذمت کی ہے کہ 'مارکسزم کا صرف ایک ہی موجودہ دور ہے وہ یہ کہ 'ٹراٹسکی ازم 21ویں صدی کا مارکسزم ہے،' اور ٹراٹسکی ازم کی دنیا میں صرف ایک ہی حقیقی ٹراٹسکی پارٹی ہے۔
کیلی اور سرمایہ دارانہ نظام کے دوسرے محافظوں کے لیے، 'سنجیدہ' سیاست برطانیہ میں جیریمی کوربن اور پوری دنیا میں اس جیسی تنظیموں اور افراد کی اصلاح پسندانہ سیاست ہے۔ اور اس قسم کی سیاست نے کیا پیدا کیا ہے؟ لیبر پارٹی میں 'اصلاحات' کے لیے کوربن کی کوششوں نے سر کیر سٹارمر کی حکومت کو جنم دیا ہے جو یورپ میں سامراجی جنگ اور اندرون ملک محنت کش طبقے پر حملے کے فرنٹ لائن پر ہیں۔
ریاستہائے متحدہ میں برنی سینڈرز، امریکہ کے ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے نمائندے الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور ان کے لوگوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے جنگ کے حامی اور کارپوریٹ کے حامی ایجنڈے کی حمایت میں عوامی عدم اطمینان کو ہوا دی ہے جس سے ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے لیے حالات پیدا ہوئے ہیں۔ فرانس میں جین لوک میلینچون، یونان میں سریزا جرمنی میں بائیں بازو کی پارٹی، اسپین میں پوڈیموس اور بہت سے دوسرے لوگوں نے محنت کش طبقے کی مخالفت پر قابو پانے اور اسے حکمران طبقے کی اسٹیبلشمنٹ پارٹیوں کے ماتحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
ٹراٹسکی نے اپنے دور کے جان کیلیز کا جواب دیتے ہوئے اپریل 1939 میں کہا:
اگرچہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کی بنیادوں کے دفاع کے لیے کہا جاتا ہے لیکن اصلاح پسند اپنی خصلت میں معاشی پولیس کے اقدامات کے زریعے اسکے قوانین کو کنٹرول کرنے میں بے بس ثابت ہوتے ہیں۔ پھر وہ اخلاقیات کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں؟ مسٹر آئیکس کابینہ کے دیگر ارکان اور نیو ڈیل کے پبلسٹیز کی طرح اجارہ داروں سے یہ اپیل کرتے ہوئے کہ وہ شائستگی اور جمہوریت کے اصولوں کو فراموش نہ کریں۔ بس یہ بارش کی دعا سے بہتر کیسا ہے؟
اس سے بڑا دیوالیہ پن اور کیا ہو سکتا ہے کہ الیون مسک جیسے لوگ جو پوری دنیا میں فاشزم کے فروغ کے ذریعے اپنی وسیع دولت کا دفاع کر رہے ہیں سماجی اصلاح کو قبول کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اشرافیہ کی دولت پوری طرح سے سماجی اور معاشی نظام یعنی سرمایہ داری سے جڑی ہوئی ہے۔
بنی نوع انسان کو درپیش بحران کا واحد قابل عمل جواب محنت کش طبقے کا انقلابی متحرک ہونا ہے۔ معاشرے کا اشرافیائی کردار اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ٹراٹسکی نے چوتھی انٹرنیشنل کے بانی پروگرام میں 'سرمایہ داروں کے مختلف گروہوں کی دولت کو ضبط ' کرنے کے لیے اٹھائے گئے مطالبے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ یہ مطالبہ محنت کش طبقے کے متحرک ہونے کے ذریعے عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ اشرافیہ کی مخالفت میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
آئی سی ایف آئی واحد پارٹی ہے جو عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے میں محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے اظہار خیال کرتی ہے اور اسکے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ جو مارکسزم کی عظیم روایات سے جڑی ہوئی ہے روسی انقلاب سے لے کر ٹراٹسکی کی سٹالنزم کے خلاف جنگ تک آئی سی ایف آئی محنت کش طبقے کو اس وضاحت اور تنظیم کے ساتھ مسلح کرنے کے لیے پرعزم ہے جس کی سرمایہ داری کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
رینک اور فائل کمیٹیوں کا بین الاقوامی ورکرز الائنس بنائیں!
طبقاتی جدوجہد کی بڑھوتی کے بغیر سوشلزم حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ انقلاب جو سوشلزم کی سیاسی بنیاد رکھے گا محنت کش طبقے کی طرف سے امریکہ اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مفادات کو آگے بڑھانے اور اپنے حقوق کے دفاع کے لیے ان گنت جدوجہد کے دوران تیار کیا گیا ہے۔
2025 میں آئی سی ایف آئی اور اس کے سیکشنز کے کام کا مرکز آئی ڈبلیو اے- آر ایف سی(IWA-FRC) کی تعمیر ہے جو کہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے حکم کی عالمی مخالفت کے لیے مربوط اعصابی مرکز ہے۔
بین الاقوامی محنت کش طبقہ کرہ ارض پر سب سے طاقتور اور بڑے پیمانے پر سماجی قوت ہے جو سرمایہ دارانہ معاشرے میں تمام قدروں کا سرچشمہ ہے۔ جرمنی کی اون لائن سٹاٹسٹا ڈیٹا کے مطابق 2024 میں کل عالمی افرادی قوت تقریباً 3.5 بلین تھی جو کہ 1991 کے 2.23 بلین سے 55 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں 1.65 بلین سروس ورکرز 873 ملین زرعی مزدور اور 758 ملین صنعتی مزدور شامل ہیں۔
اس وقت چین میں تقریباً 800 ملین ہندوستان میں 600 ملین مزدور امریکہ میں 170 ملین اور جرمنی میں 44 ملین مزدور ہیں۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں ایک بڑے پیمانے پر اور بنیادی طور پر نوجوان محنت کش طبقہ ہے جو شہری مراکز اور بڑے شہروں میں مرکوز ہے ہر گھر میں 10 ملین سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انڈونیشیا میں 140 ملین برازیل میں 108 ملین پاکستان میں 80 ملین نائیجیریا میں 75 ملین بنگلہ دیش میں 74 ملین اور ایتھوپیا میں 61 ملین مزدور ہیں۔
بین الاقوامی محنت کش طبقہ عالمی پیداوار کے عمل میں معروضی طور پر متحد ہے جس پر بین الاقوامی کارپوریشنز اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس کا غلبہ ہے جو منافع کے مفاد میں پوری دنیا میں محنت کشوں کا استحصال کرتے ہیں۔ محنت کش طبقے کے متحد صنعتی حملے کی بڑھوتی کا انحصار محنت کش طبقے کی جدوجہد کی تنظیموں کے قیام پر ہے جن کا کنٹرول خود محنت کشوں کے ہاتھ میں ہو۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف دی فورتھ انٹرنیشنل (آئی سی ایف آئی) کے ذریعے اپریل 2021 میں انٹرنیشنل ورکرز الائنس آف رینک اینڈ فائل کمیٹیز (آئی ڈبلیو آے-آر ایف سی) کا قیام محنت کش طبقے کو متحد کرنے کی لڑائی میں ایک فیصلہ کن قدم ہے جو مزدوروں کو قومی اور صنعتی سطح کی حدود کی چھوکٹ سے بالا ہو کر متحد کرتی ہے۔
صرف اس حد تک کہ اقتدار ٹریڈ یونین بیوروکریسی کے ہاتھوں سے چھین لیا جائے اور فیکٹریوں کارخانوں اور صعنعتوں میں مزدوروں کو منتقل کیا جائے۔ جیسا کہ آئی سی ایف آئی 2021 میں وضاحت کی ہے:
کہ انٹرنیشنل ورکرز الائنس آف رینک اینڈ فائل کمیٹیز نئی قسم کے فریم ورک پر اپنی بڑھوتی آزاد، جمہوری اور لڑاکا رینک اینڈ فائل مزدوروں کی تنظمیں فیکٹریوں اسکولوں اور کام کرنے والی ہر جگہ بشمول عالمی سطح پر تشکیل دیں گی۔
ماس جدوجہد کے لیے نئی راہیں پیدا کرنی ہوں گی۔ 80 سال سے زیادہ پہلے تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر جب موجودہ ٹریڈ یونین تنظیموں کا انحطاط آج کے مقابلے میں بہت کم ترقی یافتہ تھا، لیون ٹراٹسکی جو کہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کا سب سے بڑا حکمت عملی کا ماہر تھا نے لکھا کہ چوتھی بین الاقوامی کا کام 'تخلیق کرنا تھا۔ تمام ممکنہ صورتوں میں آزاد لڑاکا تنظیمیں جو بورژوا سماج کے خلاف عوامی جدوجہد کے کاموں سے زیادہ قریب سے مطابقت رکھتی ہیں حتیٰ کہ کسی کے سامنے بھی نہیں جھکتی ہیں۔ ٹریڈ یونینوں کے قدامت پسند اپریٹس کے ساتھ براہ راست لڑائی کی شکل میں بھی یا کسی روکاوٹ کے سامنے روکے بغیر۔
عالمی سطح پر باہم منسلک رینک اور فائل کمیٹیوں کے نیٹ ورک کو تیار کرنے کی لڑائی صرف فیکٹریوں، اسکولوں اور کام کی جگہوں تک محدود نہیں ہے جہاں ٹریڈ یونینز موجود ہیں۔ درحقیقت موجودہ دور کے کام کی جگہوں کی اکثریت متحد نہیں ہے۔ اس سماجی حقیقت کا مطلب یہ ہے کہ رینک اینڈ اور فائل کمیٹیاں بے شمار کام کے مقامات پر عملی تنظیم کی ابتدائی اور واحد شکل کے طور پر ابھریں گی۔
انٹرنیشنل ورکرز الائنس آف رینک اینڈ فائل کمیٹیز کو مزدوروں کے لیے معلومات کا اشتراک کرنے اجتماعی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے اور استحصال آسٹریٹی اور جنگ کے خلاف ایک متحدہ جارحیت کے لیے ایک فریم ورک کے طور پر تیار کیا جانا چاہیے۔ اسے حکمران طبقے کی طرف سے مزدوروں کو ایک دوسرے کے خلاف تقسیم کرنے کے لیے ہر قسم کی قومی شاونزم اور تارکین وطن مخالف تحریک کی مخالفت کرنی چاہیے۔ اسے پوری دنیا میں ٹرمپ انتظامیہ اور انتہائی دائیں بازو کی حکومتوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کی کارروائیوں کے خلاف محنت کش طبقے کی مخالفت کو منظم کرنا چاہیے۔
کارخانوں، اسکولوں اور کام کی جگہوں پر مزدوروں کی طرف سے آزادانہ طور پر تشکیل دی جانے والی رینک اور فائل کمیٹیاں وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے مزدور جمہوری طریقے سے منظم ہو سکتے ہیں اپنے مطالبات پر زور دے سکتے ہیں اور اپنی جدوجہد کو دنیا بھر کے محنت کشوں سے جوڑ سکتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران اہم صنعتوں میں رینک اور فائل کمیٹیاں ابھری ہیں- لاجسٹکس، آٹو مینوفیکچرنگ، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں یونین کی بیوروکریسیوں کی دھوکہ دہی کو چیلنج کرنے اور مزدوروں کے مطالبات کو آگے بڑھانے کے لیے جدوجہد میں برسرائے پیکار ہیں۔ ان کمیٹیوں نے کارپوریٹ استحصال کام کے غیر محفوظ حالات اور عوامی خدمات کی تباہی کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی روابط بھی قائم کرنا شروع کر دیے ہیں یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ان کی جدوجہد ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور ایک متفقہ ردعمل کی ضرورت ہے۔
آنے والے عرصے میں آئی ڈبلیو آے-آر ایف سی کا کام اس کام کو وسعت دینا ہے، ایک طاقتور بین الاقوامی نیٹ ورک کی تعمیر کرنا ہے جو محنت کش طبقے کے لیے ایک تنظیمی مرکز کے طور پر کام کرے گا۔
2025 میں سوشلزم کی لڑائی شروع کریں! آئی سی ایف آئی کی تعمیر کریں! ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کو سپورٹ کریں!
محنت کش طبقے کو بے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اس کے پاس بے پناہ طاقت بھی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کو گہرا کرنے والے عمل - عالمگیریت، مصنوعی ذہانت اور پیداوار کا ارتکاز جیسی ٹیکنالوجی کی ترقی نے محنت کش طبقے کے بین الاقوامی اتحاد کے لیے حالات بھی پیدا کیے ہیں۔
آنے والے مہینوں کو بے پناہ سیاسی جھٹکوں، بحرانوں اور ماس جدوجہد کے پھوٹنے سے تعبیر کیا جائے گا۔ انقلابی قیادت کے بغیر ان جدوجہدوں کو دھوکہ دہی موڑ یا کچلنے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ اپنے تمام قارئین سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں۔ اب سنجیدہ سیاست انقلابی سیاست کے لیے لڑنے کا وقت ہے۔ ٹراٹسکی تحریک کی تمام تاریخی روایات میں ٹھوس جڑیں، چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی انقلابی سوشلزم کے پروگرام کی بنیاد پر تمام قسم کی قوم پرستی اور مزدوروں کو بین الاقوامی سطح پر متحد کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی میں شامل ہوں یا اپنے ملک میں آئی سی ایف آئی کا ایک حصہ بنانے میں مدد کریں اگر کوئی پہلے سے موجود نہیں ہے۔
ہم اپنے تمام قارئین سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ wsws.org/donate پر ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نیو ایئر فنڈ میں ڈونیٹ کریں۔ ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس (WSWS) مکمل طور پر اپنے قارئین اور حامیوں کی حمایت پر کام کرتا ہے، اپنی سیاسی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے تمام کارپوریٹ یا ریاستی فنڈنگ سے انکار کرتا ہے۔ آپ کی ڈونیشن ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے کام کو برقرار رکھنے اور اسے وسعت دینے اور 2025 اور اس کے بعد سوشلزم کی لڑائی کو مضبوط بنانے کے لیے اہم ہے۔
اس نازک موڑ پر جنگ، عدم مساوات اور آمریت کی مخالفت کرنے والے ہر مزدور اور نوجوان کو ایکشن لینا چاہیے۔ سوشلسٹ ایکولیلیٹی پارٹی میں شامل ہوں، ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کی حمایت کریں اور سوشلسٹ انقلاب کی عالمی پارٹی کے طور پر چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی بنائیں!