اُردُو
Perspective

یوکرین میں روس کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ کے دو سال

یہ 24 فروری 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے 'Two years of the US-NATO war against Russia in Ukraine' والے اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

بدھ 26 اپریل 2023 کو یوکرین اور روسی فوجیوں کے درمیان شدید لڑائی کی جگہ پر باخموت کے یوکرینی عمارتوں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ [ آے پی فوٹو لیبکوس] [AP Photo/Libkos]

آج سے دو سال قبل 24 فروری 2022 کو امریکی سامراج اور اس کے یورپی اتحادی روس کو یوکرین پر حملہ کرنے پر اکسانے میں کامیاب ہو گئے۔ واشنگٹن، برلن، لندن اور پیرس نے طویل عرصے سے ولادیمیر پیوٹن کی رجعتی قوم پرست حکومت کے ساتھ ایک ہمہ گیر جنگ کو بھڑکانے کی کوشش کی تھی جس کا مقصد روس کو ایک نیم کالونی کی حیثیت سے ماتحت کرنا اور یوریشین لینڈ ماس پر سامراجی تسلط کو مستحکم کرنا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بڑے پیمانے پر قتل عام کے بعد یہ جنگ یورپ میں سب سے خونریز ہے۔ تقریباً نصف ملین یوکرینیوں اور دسیوں ہزار روسیوں کا قتل عام کیا گیا ہے، اور لاکھوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ امریکی اور جرمن سامراج لاپرواہی سے اس کے نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے تنازعہ کو بڑھا رہے ہیں۔ اس میں امریکہ اور روس کے درمیان جوہری تبادلے کا امکان بھی شامل ہے جو انسانیت کی بقا پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔

روس کے حملے کے چند گھنٹے بعد جاری کردہ ایک بیان میں جس کا عنوان تھا 'پیوٹن حکومت کے یوکرین پر حملے اور امریکہ-نیٹو جنگ جووُں کی مخالفت کریں! روسی اور یوکرائنی مزدوروں کے اتحاد کے لیے!'، فورتھ انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آایف آئی) نے فیصلہ کن طور پر سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی طرف سے جاری مسلسل پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا جس میں تنازعہ کو 'پیوٹن کی جارحیت کی بلا اشتعال جنگ' کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس جھوٹی داستان کے مطابق روسی صدر نے یوکرین کی جنگ کا ماسٹر مائنڈ یورپ کو فتح کرنے کے عظیم منصوبے کے تحت بنایا تھا۔ اسے صرف فوجی طاقت ہی روک سکتی تھی۔

حقیقت میں امریکہ نے 1990 کی دہائی سے روس کو گھیرنے کے لیے نیٹو کے علاقے کو مشرق کی طرف پھیلانے کی منظم کوششوں کی قیادت کی ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ سٹالنسٹ حکومت سے کیے گئے وعدوں کے برخلاف انکی خلاف ورزی کی گی ہے۔ پھر فروری 2014 میں واشنگٹن اور برلن نے میدان بغاوت کی سرپرستی کرتے ہوئیایک انتہائی دائیں بازو کی تحریک جس کی سربراہی صریح فاشسٹ قوتوں نے کی جس نے منتخب روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کا تختہ الٹ دیا اور کیف میں مغرب نواز کٹھ پتلی حکومت قائم کی۔ اس کے جواب میں روس نے ریفرنڈم کے بعد کریمیا پر قبضہ کر لیا۔

تنازعہ کی وسیع تر تاریخی جڑوں کا تجزیہ کرتے ہوئے، آئی سی ایف آئی نے لکھا:

روس کے ساتھ موجودہ تصادم 30 سال قبل یو ایس ایس آر کی تحلیل کے بعد سے امریکہ کی طرف سے جاری جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اس کا مقصد امریکی عالمی تسلط ہے تاکہ اپنے معاشی زوال کو روکنے اور دور کرنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کیا گیا۔ یہ امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی متعدد اور نہ ختم ہونے والی جنگوں کا ذریعہ رہا ہے جس میں عراق، صومالیہ، سربیا، افغانستان، لیبیا اور شام پر حملہ اور یا پھر بمباری شامل ہے۔ بلاشبہ غیر قانونی جنگوں کی یہ تاریخ آج میڈیا میں مکمل طور پر نظر انداز کر دی گی ہے۔

درمیانی دو سالوں کے اس عرصے نے اس تجزیہ کو پوری طرح سے جنم دیا ہے۔ تنازعہ کو بڑھانے کا بنیادی ذریعہ امریکی سامراج رہا ہے جسے جرمنی، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ سامراجیوں نے تنازعہ کو ہوا دینے کے لیے دسیوں ارب ڈالر اور یورو مالیت کے اعلیٰ طاقت والے ہتھیار یوکرین کو دیے اور مشرقی یورپ میں نیٹو کے دسیوں ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی کا اہتمام کیا ہے اور دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے سے دوچار کیا۔ روس کے خلاف انہوں نے اپنے ممالک میں بڑے پیمانے پر فوجی اخراجات میں اضافہ کیا گیا اسک ساتھ سماجی پروگراموں میں کمی کی گی اور عوامی مخالفت کو دبانے کے لیے آمرانہ طرز حکمرانی اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی قوتوں کی طرف کھلے عام رخ کرتے ہوئے معاشرے کے تمام پہلوؤں کو سامراجی جنگ کے تابع کر دیا ہے۔

'جمہوریت' کے دفاع کے لیے اپنے عزم کا بار بار اعلان کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں نے یوکرین میں فاشسٹ قوتوں کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے - دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی ساتھیوں کی سیاسی اولاد جنہوں نے سوویت یونین اور ہولوکاسٹ کے خلاف فنا کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔

 نیٹو طاقتوں اور یوکرین کی فاشسٹ زدہ فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گہرے اتحاد کے بارے میں کوئی اتفاقی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ موجودہ تنازعہ جیسا کہ آٹھ دہائیاں قبل سوویت یونین کے خلاف نازیوں کی جنگ ایک سامراجی جنگ ہے جو لوٹ مار، منڈیوں اور جغرافیائی تسلط کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ اس حقیقت کو گزشتہ ستمبر میں کینیڈا کی پارلیمنٹ اور دیگر جی-7 رکن ممالک کے سفیروں کی طرف سے وافن-ایس ایس کے تجربہ کار اور نازی جنگی مجرم یاروسلاو ہنکا کو متفقہ طور پر دیے گئے پر جوش اسقبال سے واضح کیا گیا۔

سامراجی حکومتوں کو یوکرین میں ’’جمہوریت‘‘ کی کوئی فکر نہیں ہے۔حقیقت میں وہ یوکرین کو اپنے دائرہ اثر میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ اپنی مہم کے ایک حصے کے طور پر روسی فیڈریشن کو تقسیم کرتے ہوئے اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے اور اس طرح سے چین کے ساتھ فوجی تصادم کی پیش قدمی کے لیے گامزن ہیں۔ اس حکمت عملی کے تعاقب میں، وہ آخری یوکرین تک لڑنے کے لیے تیار ہیں جیسا کہ لاکھوں نوجوان یوکرینیوں نے میدان جنگ میں قربانیاں دی ہیں۔

اندازے بتاتے ہیں کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 500,000 یوکرائنی فوجی مارے جا چکے ہیں جن میں سامراجی طاقتوں کی طرف سے 2023 کی تباہ کن 'جارحیت' میں 100,000 سے زیادہ فوجی بھی شامل ہیں۔ انسانی جانوں کے اتنے ہولناک نقصان کے بارے میں سامراجیوں کی بے حسی کو غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے لیے ان کی غیر مشروط حمایت سے دہرایا گیا ہے جہاں صرف چار ماہ کے دوران 30,000 سے زائد فلسطینیوں کو امریکہ کی طرف سے انتہائی دائیں بازو کی نیتن یاہو حکومت کو فراہم کیے گئے ہتھیاروں کے ذریعے قتل کیا گیا ہے۔ 

سامراجی طاقتوں کی یوکرین میں روس کے ساتھ جنگ ​​کی لاپرواہی میں اضافہ اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے نسل کشی کے حملے کی ان کی بے لگام توثیق نے 'قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام' کو ظاہر کیا ہے جو بائیڈن، شولز وغیرہ نے مسلسل برقرار رکھا ہوا ہے۔ پیوٹن کی 'سفاکیت' کے متبادل کے طور پر اسے پیش کیا جانا کیا واقعی انکا مقصد یہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب قتل عام امریکی سامراج کی عالمی بالادستی کی پوزیشن کا دفاع کرنا ہے جس کی معاشی بنیاد حالیہ دہائیوں میں مسلسل زوال پذیر ہے صرف بڑھتے ہوئے وحشیانہ طریقوں کا سہارا لے کر ہی کیا جا سکتا ہے جو 20 ویں صدی کی دو سامراجی عالمی جنگوں کے دوران ہونے والی ہولناکیوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔

سامراجی ریاستوں کی جارحانہ خونی ذہنیت کے مقابلے میں پیوٹن حکومت کی پالیسیوں کو کسی بھی ترقی پسندانہ اقدام کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ آئی سی ایف آئی نے دو سال پہلے زور دیتے ہوئے کہا تھا:

1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے جو تباہی شروع ہوئی تھی اسے روسی قوم پرستی کی بنیاد پر ٹلا نہیں جا سکتا جو کہ ایک مکمل طور پر رجعتی نظریہ ہے جو سرمایہ دار حکمران طبقے کے مفادات کو پورا کرتا ہے جس کی نمائندگی ولادیمیر پیوٹن کرتے ہیں۔

پیوٹن کا یوکرین پر حملہ کرنے کا مقصد سامراج کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے بہترین حالات پیدا کرنا تھا اور اب تک ہے۔ وہ کسی ایسے معروضی عمل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے جو سامراجیوں کو روس کو زیر کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ اس کے بجائے جیسا کہ فاشسٹ امریکی ٹاک شو کے میزبان ٹکر کارلسن کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں ان کی قابل رحم کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا پیوٹن اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب کچھ ایک بڑی غلط فہمی تھی جسے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان مذاکراتی معاہدے کے ذریعے ایک 'ملٹی پولر' بین الاقوامی آرڈر پر مبنی بنیاد کے طور پر درست کیا جا سکتا ہے۔

بدعنوان روسی سرمایہ دارانہ اشرافیہ کے نمائندے کے طور پر جسے محنت کش طبقے کی داخلی مخالفت اور سامراجی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے پیوٹن یہ تسلیم نہیں کرتے کہ جنگ کے معروضی اسباب ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے نہ صرف اس کی حکومت کے دیوالیہ پن کی کھل کر عکاسی ہوتی ہے بلکہ روسی اور یوکرائنی محنت کشوں کے لیے سوویت یونین میں سرمایہ دارانہ بحالی کے تباہ کن نتائج کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ اعتراف نیچے سے سماجی مخالفت کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ پیدا کرے گا جو سامراجیوں کے خطرے سے کہیں زیادہ روسی اشرافیہ کے لیے خطرے کی نمائندگی کرے گا۔

عالمی سرمایہ داری کے پیچیدہ تضادات نے بڑی طاقتوں کے درمیان دنیا کی ایک نئی تقسیم کو جنم دیا ہے۔ روس کے خلاف امریکی سامراج کی جنگ صرف ایک محاذ ہے جو تیسری عالمی جنگ کے طور پر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ کشمکش سامراج کی طرف سے اپنے جیو پولیٹیکل حریفوں اور ہر ملک میں محنت کش طبقے کی قیمت پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک رد انقلابی جدوجہد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادیوں کے دیگر اہم اہداف مشرق وسطیٰ میں ایران اور سب سے بڑھ کر ہند-بحرالکاہل میں چین ہیں۔ چین کے ساتھ جنگ ​​کا امکان جو امریکی بالادستی کے لیے براہ راست خطرہ ہے اب ایک امکان کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ناگزیریت کے طور پر زیر بحث ہے۔

روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ شروع ہونے کے دو سال بعد ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے دنیا بھر کے مزدوروں پر زور دیا ہے کہ وہ خون کی ہولی کو فوری طور پر روکنے کے لیے جدوجہد کریں۔ اس کے لیے بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں سے عالمی سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے سامراجیوں کی جانب سے تیسری عالمی جنگ کے پاگل پن کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کے انٹرنیشنل ایڈیٹوریل بورڈ نے اپنے نئے سال کے بیان میں مشاہدہ کیا:

اگر یہ تاریخی طور پر تصدیق شدہ حقیقت نہ ہوتی کہ سرمایہ داری کو تباہی کی طرف لے جانے والے تضادات بھی اس کے خاتمے اور سماج کی ایک نئی اور ترقی پسند یعنی سوشلسٹ بنیاد پر تنظیم نو کے حالات کو حرکت میں لاتے تو انسانیت کے امکانات تاریک ہوتے۔ اس تنظیم نو کی صلاحیت کی جڑیں محنت کش طبقے میں موجود ہیں۔ طبقاتی جدوجہد وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے سوشلسٹ تنظیم نو کے معروضی امکان کو عملی طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔

روس کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ کی دوسری برسی کے موقع پر فوری کام یہ ہے کہ اس معروضی عمل کو دنیا بھر کے محنت کشوں کے ذہنوں میں بیدار کیا جائے تاکہ یہ ایک بین الاقوامی جنگ مخالف تحریک کے قیام کی بنیاد کے طور پر کام کر سکے۔ محنت کش طبقے کی طرف سے اس تحریک کو سامراجی مراکز میں مزدوروں کو ان ممالک کے ساتھ متحد کرنا چاہیے جو گزشتہ 30 سالوں میں امریکی جارحیت کی جنگوں کا نشانہ بنے ہیں اور روس، یوکرین اور پورے سابق سوویت یونین کے محنت کشوں کے ساتھ متحد کیا جائے۔

ان کا مشترکہ مقصد سرمایہ دارانہ منافع بخش نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد ہونا چاہیے جو کہ امریکہ اور نیٹو کی روس پر اپنے مفادات مسلط کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔ اس جدوجہد میں 1917 کے بالشویک زیرقیادت روسی انقلاب کی سوشلسٹ اور بین الاقوامی روایات کے احیاء کے ذریعے روس اور یوکرین میں اولیگارک حکومتوں کی ناقابل برداشت مخالفت شامل ہونی چاہیے۔

Loading